انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۵۷۔قتادہ بن دعامہ سدوسی نام ونسب قتادہ نام،ابوالخطاب کنیت،نسب نامہ یہ ہے،قتادہ بن دعامہ بن قتادہ بن عزیز بن عمرو بن ربیعہ بن عمروبن حارث بن سدوس سدوسی۔ قتادہ علمی اعتبار سے اجلۂ تابعین میں تھے۔ پیدائش ۶۱ھ میں پیدا ہوئے۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۵۰) ذوق علم قتادہ کو علم کے ساتھ فطری مناسبت تھی،حصول علوم کا ذوق بچپن سے لے کر بڑھاپے تک یکساں رہا، مطرالوراق کا بیان ہے کہ قتادہ مرتے دم تک طالب العلم رہے۔ قوت حافظ اس ذوق وشوق کے ساتھ ،انہوں نے حافظ نہایت قوی پایا تھا ایک مرتبہ جو چیز سن لیتے تھے،وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی تھی،ایک مرتبہ حدیث سننے کے بعد کبھی کسی محدث سے دوبارہ اس کو سننے کی خواہش نہیں کی،ایک مرتبہ جو بات کانوں میں پڑگئی وہ ہمیشہ کے لیے قلب کے خزانہ میں محفوظ ہوگئی،ان کے حافظہ کے نہایت حیرت انگیز واقعات کتابوں میں مذکور ہیں،ان میں سے ایک واقعہ لائق ذکر ہے،عمران بن عبداللہ کا بیان ہے کہ قتادہ ایک مرتبہ سعید بن مسیب کے پاس آئے اورچند دنوں قیام کرکے ان سے دل کھول کر اچھی طرح حدیثیں پوچھتے اوربکثرت سوالات کرتے رہے،ایک دن ابن مسیب نے ان سے پوچھا کہ تم نے جو باتیں مجھ سے پوچھی ہیں کیا وہ سب تم کو یاد ہیں، انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور پوچھے ہوئے مسائل کو دہرانا شروع کیا کہ میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا، آپ نے یہ جواب دیا تھا، میں نے یہ سوال کیا تھا،آپ نے یہ بتایا تھا اورحسن بصری نے یہ جواب دیا تھا،اس طریقہ سے انہوں نے ان حدیثوں کا بیشتر حصہ جو ان سے سنا تھا دہرادیا، ابن مسیب کو اس وقت قوتِ حافظہ پر سخت حیرت ہوئی،فرمایا میں نہیں گمان کرسکتا تھا کہ خدانے تمہارے جیسا شخص بھی پیدا کیا ہے۔ (ابن سعد،ج ۷،ق۲،ص۲) فضل وکمال اس ذوق وشوق،تلاش وجستجو اورقوتِ حافظ نے ان کو قرآن،تفسیر حدیث فقہ،زبان،لغت،ایام عرب اورنسب وغیرہ اس عہد کے جملہ مذہبی اور غیر مذہبی علوم کا دریا بنادیا تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۹) علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت شان اورفضیلت علمی پر سب کا اتفاق ہے۔ قرآن قرآن کے حافظ تھے اورنہایت اچھا یاد تھا،بڑی بڑی سورتوں میں ایک لفظ کی غلطی نہ ہوتی تھی،معمر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ قتادہ نے سعد بن ابی عروہ کو قرآن دے کر سورہ بقرہ سنائی اوراس میں ایک حرف کی غلطی نہیں کی سنانے کے بعد ان سے پوچھا کیوں میں نے ٹھیک یاد کیا،انہوں نے کہا ہاں ۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱) تفسیر تفسیر قرآن کے وہ بہت بڑے عالم تھے، آیات قرآنی کی تفسیر وتاویل میں ان کی نظر نہایت وسیع تھی،وہ خود کہتے تھے ،کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق میں نے کچھ نہ کچھ نہ سنا ہو،امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ قتادہ تفسیر کے بڑے عالم تھے (ایضاً)ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ قرآن کے سب سے بڑے جاننے والے تھے (تہذیب التہذیب:۸/۳۵۵)ابن ناصرالدین ان کو مفسر الکتاب لکھتے ہیں۔ (تذرات الذہب :۱/۱۵۳) حدیث قتادہ کا اصل فن حدیث تھا، اس میں وہ نہایت بلند پایہ رکھتے تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ حدیث میں وہ ثقہ ،مامون اورحجت تھے(ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱) حافظ ذہبی انہیں حافظ وعلامہ کے نام سے یاد کرتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۹)عراق کے سب سے بڑے حافظ حدیث مانے جاتے تھے،ابن مسیب کہتے تھے کہ ہمارے یہاں قتادہ سے بڑا عراق کا کوئی حافظ نہیں آیا،سفیان کہتے تھے کہ دنیا میں قتادہ کا مثل نہ تھا،بکر بن عبداللہ کہتے تھے کہ جو شخص سب سے بڑے حافظ اورایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو حدیث کو بعینہ اسی طرح جس طرح اس نے سنا ہے، روایت کرتا ہو تو اسے قتادہ کو دیکھنا چاہئے ،عبدالرحمن بن مہدی کہتے تھے کہ قتادہ حمید کے جیسے پچاس آدمیوں سے زیادہ بڑے حافظ ہیں(تہذیب الاسماء،جلد اول،ق۲،ص۵۷،۵۸)امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ قتادہ باشذگانِ بصرہ میں سب سے بڑے حافظ تھے،جو چیز بھی سنتے تھے اس کو یاد کرلیتے تھے،ایک مرتبہ ان کے سامنے جابر کا صحیفہ پڑھا گیا،ایک ہی مرتبہ سن کر اس کو یاد کرلیا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱)ابن حبان ان کو ان کے عہد کا سب سے بڑا حافظ حدیث شمار کرتے ہیں سلیمان تیمی اورایوب سختیانی جیسے محدثین ان کی احادیث کے محتاج تھےاور ان سے پوچھا کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۸۳۵۵) شیوخ قتادہ کے اصل شیخ حسن بصری تھے،زیادہ تر وہ انہی کے سرچشمہ فیض سے سیراب ہوئے تھے،بارہ سال تک ان کی خدمت میں رہے خود ان کا بیان ہے کہ میں بارہ برس تک حسن بصری کی خدمت میں بیٹھا اورتین برس تک نماز فجران کے ساتھ پڑھی،میرے جیسے شخص نے ان کے جیسے شخص سے علم حاصل کیا (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱)حسن بصری کے سب سے ممتاز تلامذہ میں یہی تھے،ابو حاتم کہتے تھے کہ حسن کے سب سے بڑے اصحاب میں قتادہ تھے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۵۸) حسن بصری کے علاوہ اس عہد کے تمام ممتاز محدثین ،انس بن مالک،ابوسعید خدریؓ،عمران ابن حصینؓ،سعید بن مسیب، عکرمہ،ابوبردہ بن ابی موسیٰ ،شعبی،عبداللہ بن عتبہ بن مسعود،مطرف بن عبداللہ بن شخیروغیرہ صحابہ اورتابعین کی ایک کثیر جماعت سے سماع حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۸۳۵۱) ان کا یہ خاص کمال تھا کہ جس محدث کے پاس پہنچ جاتے تھے،چند ہی دنوں میں اس کا سارا علم پی لیتے تھے،ایک مرتبہ سعید بن مسیب کے پاس جاکر چند دنوں کے لیے قیام کیا اوران سے اس قدر سوالات کیے کہ انہوں نے آٹھ ہی دن کے اندر گھبرا کر ان سے کہ اب جاؤ تم نے میرا سارا علم خالی کرلیا۔ (ابن سعد ،ج۷،ق۲۔ص۲) تلامذہ ان کے کمالات کی وجہ سے ان کی ذات مرجع خلائق بن گئی تھی،سینکڑوں تشنگان علم ان کے حلقہ درس سے سیراب ہوئے،ان کی فہرست نہایت طویل ہے ،بعض قابل ذکرنام یہ ہیں،ایوب سختیانی،سلیمان تیمی،جریربن حازم ،شعبہ ،مسعر،ابو بلال راسبی مطرالوراق ہمام بن یحییٰ،عمروبن حارث المصر،شیبان نحوی،سلام بن ابی المطیع،سعید بن ابی عروبہ ابان ابن یزید العطار،حصین بن ذکوان،حماد بن سلمہ، اوزاعی عمروبن ابراہیم عبدی عمران القطان وغیرہ (تہذیب التہذیب:۸/۳۵۲) فقہ فقہ میں بھی امتیازی پایہ رکھتے تھے،ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ قرآن اور فقہ کے بڑے علماء میں تھے(تہذیب التہذیب:۸/۳۵۲) امام احمد بن حنبل ان کے تفسیر حدیث کے کمال کے ساتھ ان کے فقہی کمال کے بھی معترف تھے(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۹)بصرہ کی جماعتِ افتاء کے ایک معزز رکن تھے۔ (اعلام الموقعین:۱/۲۷) رائے سے احتراز ان کمالات کے باوجود فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے،جو مسئلہ نہ معلوم ہوتا نہایت صفائی کے ساتھ اپنی لا علمی ظاہر کردیتے ، اپنی رائے سے کبھی جواب نہ دیتے،ابو ہلال کابیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ قتادہ سے ایک مسئلہ پوچھا ،انہوں نے کہا اپنی رائے بتادیجئے جواب دیا کہ میں نے چالیس سال سے اپنی رائے سے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۱) جامعیت قتادہ کی جیسی جامعیت کم تابعین میں تھی وہ تنہا مذہبی علوم کے عا لم نہ تھے ؛بلکہ اس عہد کے دوسرے مروجہ فنون مثلاً عربی،لغت،ایام عرب اورنسابی کے بھی بڑے ماہر تھے،ابو عمر کا بیان ہے کہ وہ بڑے نساب تھے،ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ کچھ نہ کچھ پوچھنے کے لیے آتا تھا ،ابن ناصر الدین ان الفاظ میں ان کی جامعیت پر تبصرہ کرتے تھے، ابو الخطاب الضریرالاکم فسر الکتاب ایۃ فی الحفظ اما مافی النسب واسا فی العربیۃ واللغۃ ایام العرب (ایضاً) وفات باختلافِ روایت ۱۱۷ یا ۱۱۸ میں وفات پائی۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۳)