انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مرسلاتِ صحابہ ؓ اجمعین پر اعتماد ائمہ اربعہ میں گواختلاف ہے کہ روایتِ مرسل جس میں تابعی حضورﷺ سے براہِ راست روایت کرے قبول کی جائے یانہ؟ امام اعظم ابوحنیفہ النعمانؒ اور امام مالکؒ ثقہ تابعی کی مرسل کوقبول کرتے ہیں اور امام شافعیؒ وامام بخاریؒ اسے قبول نہیں کرتے؛ لیکن اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ صحابہ کی مرسل سب کی سب قبول ہیں۔ صحابہ کی مرسلات سے وہ روایات مراد ہیں جن میں صحابی حضورﷺ سے اس دور کی روایت نقل کرے جب وہ اس دور میں مسلمان نہ ہوا تھا یاحضورﷺ کے ہاں موجود نہ تھا، ظاہر ہے کہ اس نے وہ بات کسی اور صحابی سے جووہاں موقع پر موجود ہوگا سنی ہوگی اور اب وہ اس کا نام ذکر نہیں کررہا ہے یااس نے اسے حضورﷺ سے سنا ہوگا اور اب وہ اسے حضورﷺ کے نام سے روایت نہیں کررہا اس دور کی بات کواپنی طرف سے روایت کررہا ہے، صحابہؓ کی یہ مرسلات بالاتفاق مقبول ہیں، درمیانے راوی کی تلاش اس وقت ہوتی ہے جب اس کی ثقاہت معلوم کرنی ضروری ہو، صحابہؓ چونکہ کلہم ثقہ اور عادل ہیں اس لیے ان میں سے کسی کا معلوم نہ ہونا قبولیتِ روایت میں قادح نہیں ہوسکتا، مثلاً صحیح بخاری کی دوسری روایت اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے آپ اس میں یہ بیان کرتی ہیں کہ حضورﷺ پر وحی کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ اس وقت تک حضرت عائشہ کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی اور وہ دور آپؓ کا دیکھا ہوا نہ تھا آپؓ نےیہ حالات وواقعات کسی اور صحابی سے یاخود حضورﷺ سے سنے ہوں گے؛ مگرآپ اس واسطۂ روایت کو ذکر نہیں کررہی ہیں، یہ مرسل روایت حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ثقاہت اور جلالتِ شان کے پیشِ نظر کسی طرح بھی رد نہ کی جائے گی، صحابہ کی مرسلات توان ائمہ کے نزدیک بھی معتبر اور لائقِ اعتماد ہیں جواوروں کی مرسل روایات کو قبول نہیں کرتے، امام نوویؒ مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں: "وامامرسل الصحابی وھوروایۃ مالم یدرکہ اویحضرہ کقول عائشۃ رضی اللہ عنہا اول مابدیٔ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فمذہب الشافعی والجماھیر انہ یحتج بہ وقال الاستاذ الامام ابواسحاق الاسفراینی الشافعی انہ لایحتج بہ الاان یقول انہ لایروی الاعن صحابی والصواب الاول"۔ (مقدمہ صحیح مسلم للنووی:۱۷، طبع ہند) ترجمہ:اوررہا معاملہ مرسلاتِ صحابہ کا اور وہ ایسی روایات ہیں جن کا زمانہ اس راوی نے نہ پایا ہو یازمانہ پایا ہومگراس مجلس میں اس نے حاضری نہ پائی ہو توامام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؛ البتہ امام ابواسحاق اسفرائنی کہتے ہیں اس قسم کی روایات سے استناد صحیح نہیں، ہاں اگر وہ کہے کہ وہ صحابی، صحابی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتا توپھر اسے اُن کے ہاں بھی قبول کیا جاسکے گا اور صحیح بات پہلی ہے (کہ مرسلاتِ صحابہ مطلقاً لائقِ قبول ہیں)۔ آپ ایک دوسرے مقام پر ایک حدیث کی بحث میں لکھتے ہیں: "ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ وہوحجۃ عندالجماھیر"۔ (شرح مسلم للنووی:۲/۲۸۴) ترجمہ: یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے۔ حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں: "ویستفاد من الحکم بصحۃ ماکان ذلک سبیلہ صحۃ الاحتجاج بمراسیل الصحابۃ"۔ (فتح الباری،باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا:۱/۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹) ترجمہ: اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں قبولیت روایت کا مدار اعتماد اور وثوق پر ہی رہا ہے، روایت کا متصل ہونا ضروری نہ تھا، صحابہ کرام کا عادل اور ثقہ ہونا یقینی اور قطعی دلائل سے معلوم تھا تواب ان کی مرسلات بھی حجت سمجھی گئیں، اللہ تعالیٰ نے جب اُن کی عدالت پر مہر کردی تواب اس کی کیا ضرورت ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کوئی ان کی تعدیل کرے، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں: "ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم.... فلایحتاج احدمنہم مع تعدیل اللہ لہم المطلع علی بواطنہم الی تعدیل احد من الخلق لہ"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۴۸،۴۶) ترجمہ: صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے۔ صحابہ کے اسی عمومی اعتماد کا اثر دوسرے صحابہ میں بھی تھا، علمی حلقوں میں اعتماد عام تھا، علمی حلقے سب اعتماد پر چلتے تھے، اس دور میں اسناد پر زیادہ زور نہ تھا، خیراور صدق عام تھی، اسنادی مباحث، ہردوراویوں کے مابین فاصلے اور رابطے اور روایت میں اتصال وارسال کی بحثیں اس وقت چلیں جب امت میں فتنے پیدا ہوئے، جھوٹ عام ہونے لگا؛ سوضروری ہوا کہ اس وقت کے ائمہ حدیث اس سلسلہ میں کوئی قدم اُٹھائیں اور حق یہ ہے کہ اس وقت دینی سرمائے کے تحفظ کے لیے ایسے اقدامات ضروری تھے، امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۰ھ) ایک جگہ فرماتے ہیں: "عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنْ الْإِسْنَادِ فَلَمَّا وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ قَالُوا سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ"۔ (مسلم،مُقَدِّمَةٌ،حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ:۱/۱۱) ترجمہ: امام سیرین سے روایت ہے کہ پہلے دور میں لوگ سند کے بارے میں اتنے فکرمند نہ ہوتے تھے؛ لیکن جب فتنے اُٹھے توعلماء کہنے لگے اپنی روایت کے راوی سامنے لاؤ تاکہ اہلِ سنت اور اہلِ بدعت کی پرکھ ہو، اہلِ سنت کی حدیثیں لے لی جائیں اور اہلِ بدعت کی روایات سے پرہیز کی جائے۔ حضرت امام شافعیؒ اس نئے دور کے مجدد سمجھے جاتے ہیں؛ جنھوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور آئندہ کے لیے تحقیق حدیث کی اساس صحت سند کوقرار دیا اور راویوں کی جرح وتعدیل اور اتصال رواۃ اس نئے دور کا بڑا موضوع قرار پایا..... اس درجہ کی پڑتال کی ضرورت دورِ اوّل میں کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔