انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ نام ونسب عقبہ نام،ابوعمروکنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے، عقبہ بن عامر بن عبس بن عمروبن عدی بن عمروبن رفاعہ بن مودوعہ بن عدی بن غنم بن ربیعہ بن رشدان بن قیس بن جہینہ جہنی۔ (اسد الغابہ:۳/۴۲۳) حضرت عقبہؓ آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد مشرف باسلام ہوئے،اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ جب کوکبۂ نبوی مدینہ منتقل ہوا تو عقبہؓ بکریاں چرارہے تھے آپ کی تشریف آوری کی خبر سن کر بکریاں چھوڑ کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ مجھ سے بیعت لیجئے،آنحضرﷺ نے پوچھابیعت عربیہ کرنا چاہتے ہو یا بیعت ہجرت کہا بیعت ہجرت؛چنانچہ بیعت کرکے مدینہ میں مقیم ہوگئے۔ (ابن سعد،جزء۴،قسم۲:۱۶۶ واصابہ تذکرہ ابن عامر) عہد خلفاء غزوات میں شرکت کا پتہ نہیں چلتا،عہدِ فاروقی میں شام کی فتوحات میں مجاہدانہ شریک ہوئے، دمشق کی فتح کا مژدہ حضرت عمرؓ کے پاس یہی لائے تھے،(اصابہ:۲/۴۸۹)جنگ صفین میں امیر معاویہؓ کے طرفدار تھے اوران ہی کی حمایت میں لڑے،مصر پر تسلط کے بعدانہوں نے ان کو وہاں کا امیر الخراج بنایا اورنماز کی امامت کا منصب بھی عطا کیا۔ (کتاب الولاۃ کندی:۳۷) ۴۷ھ میں امیر معاویہؓ کے ایما سے روڈس پر حملہ کیا، لیکن جنگ کے دوران میں معزول کردیے گئے اوران کی جگہ مسلمہ کا تقرر ہوا، معزولی کے بعد جنگ سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ (ابن سعد،جزو۴،قسم۲،تذکرہ ابن عامر) وفات زمانہ وفات کے بارہ میں مختلف روایتیں ہیں،بہ روایت صحیح ۵۸ھ میں وفات پائی۔ فضل وکمال علم وفضل کے اعتبار سے حضرت عقبہؓ ممتاز شخصیت رکھتے تھے،قرآن حدیث ،فقہ،فرائض اور شاعری سب میں امتیازی پایہ تھا، علامہ ذہبی لکھتے ہیں،عقبہؓ فقیہ ،کتاب اللہ کے قاری،فرائض کے ماہر،فصیح اللسان ،شاعر اوربلند مرتبہ شخص تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۶) قرآن کی تلاوت سے خاص ذوق تھا اوربڑے ذوق وشوق سے اس کی تعلیم حاصل کرتے تھے بعض بعض سورتیں خود زبان وحی والہام سے سیکھی تھیں،ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے قدموں سے چمٹ گئے کہ یا رسول اللہﷺ مجھ کو سورۂ ہودو یوسف پڑھائیے، اس ذوق وشوق نے ان کو قرآن کا قاری بنادیا تھا، ایک قران انہوں نے خود مرتب کیا تھا، اس کی ترتیب عثمانی مصحف سے مختلف تھی، یہ نسخہ نویں صدی ہجری تک مصر میں موجود تھا، اوراس کے اخیر میں عقبہ کے دست وقلم کی لکھی ہوئی یہ تحریر موجود تھی، یہ قرآن عقبہ بن عامر نے اپنے ہاتھوں سے لکھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۲۴۳) حدیث احادیث نبویﷺ سے بھی تہی دامن نہ تھے،ان کی مرویات کی مجموعی تعداد۵۵ ہے ان میں سے متفق علیہ ہیں اورایک میں بخاری اور ۷ میں مسلم منفرد ہیں،(تہذیب الکمال:۲۶۹)گو ان کے علم کے مقابلہ میں یہ تعداد بہت کم ہے؛لیکن اکابر صحابہ تک بڑی بڑی مسافت طے کرکے ان سے استفادہ کے لیے آتے تھے،حضرت ابو ایوبؓ صرف ایک حدیث سننے کے لیے خاص طورپر مدینہ سے مصر آئے اورسن کر فورا ًواپس گئے،(مسنداحمد بن حنبل:۴/۵۹) حضرت ابن عباسؓ جوحبرالامہ تھے،عقبہؓ سے خوشہ چینی کرتے تھے،ان کے تلامذہ کی تعداد کافی تھی، ان میں ابوامامہ قیس بن ابی حازم جبیر بن نضیر العجہ بن عبداللہ جہنی،وخین بن عامر،ربعی بن خراشی،عبدالرحمن ابن شمامہ،علی بن رباح قابل ذکر ہیں،(تہذیب الکمال:۲۶۹) فقہ میں بھی آپ کو یدطولی حاصل تھا۔ شاعری مذہبی علوم کے علاوہ عرب کے دوسرے مروجہ علوم خطابت وشاعری میں بھی دخل تھا خود بھی خوش گوشاعر تھے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۱۴۵) اخلاق عقبہؓ گو بلندپایہ صحابی تھی؛لیکن مذہبی ذمہ داری سے بہت گھبراتے تھے وہ اگرچہ ایک زمانہ میں مصر میں امامت کے عہدہ پر رہ چکے تھے؛لیکن پھر اس میں احتیاط کرنے لگے تھے ،ابو علی ہمدانی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں لوگوں نے درخواست کی کہ آپ آنحضرتﷺ کے صحابی ہیں، اس لیے آپ نماز پڑھائیے،فرمایا نہیں میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ جس نے امامت کی اورصحیح وقت پر پورے شرائط کے ساتھ نماز پڑھائی تو امام اور مقتدی دونوں کے لیے باعث اجر ہے اوراگراس میں کوئی فروگذاشت ہوئی تو امام ماخوذ ہوگا اور مقتدی بری الذمہ ہوں گے۔ (کتاب الولاۃ کندی:۴۷) حرمت رسول آقائے نامدارﷺ کی خدمت گذاری ان کا خاص مشغلہ تھا؛ چنانچہ سفر میں آنحضرتﷺ کی سواری کھینچنے کی خدمت ان ہی کے متعلق ہوتی تھی، کان صاحب بغلۃ رسول اللہﷺ الشھباء (مسند ابن حنبل:۳/۱۵۳) اس خدمت ورفاقت کے طفیل میں ان کو بڑے قیمتی دینی فوائد حاصل ہوتے تھے،ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں آنحضرتﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا میں سواری اقدس کھینچ رہا تھا، آپ نے فرمایا،عقبہ! میں تم کو دو بہترین سورتیں پڑھنے کے قابل بتاتا ہوں،میں نے عرض کیا، ارشادفرمایے،فرمایا:" قل اعوذ برب الفلق" اور "قل اعوذ برب الناس" (مسند ابن حنبل:۳/۱۵۳) احترام نبوی ذات نبویﷺ کا اتنا احترام ملحوظ تھا کہ آنحضرتﷺ کی سواری پر بیٹھنا بھی سوء ادب سمجھتے تھے، ایک مرتبہ سفر میں مفوضہ خدمت انجام دے رہے تھے،کہ آنحضرتﷺ نے سواری بٹھادی اورخود اتر کر فرمایا عقبہ! اب تم سوار ہولو،عرض کیا سبحان اللہ یا رسول اللہ! میں اورآپ کی سواری پر سوار ہوں!دوبارہ پھر آپ نے حکم دیا، انہوں نے وہی عرض کیا ،جب زیادہ اصرار بڑھا تو" الامرفوق الادب "کے خیال سے بیٹھ گئے اورسرکار دو عالمﷺ ان کی جگہ سواری کھینچنے کی خدمت انجام دینے لگے۔ (کتاب الولاۃ کندی:۴۷) عیب پوشی عیب پوشی عقبہ کا شیوہ تھا،کسی کی برائی کا اعلان کرنا بہت براسمجھتے تھے،ایک مرتبہ غلام نے آکر عرض کیا کہ ہمارے ہمسائے شراب پیتے ہیں،فرمایا: جانے دو کسی پر ظاہر نہ کرنا، اس نے کہا میں محتسب کو خبر کردوں گا، فرمایا: بڑے افسوس کا مقام ہے، جانے بھی دو میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ جس نے کسی کی عیب پوشی کی،اس نے گویا مردہ کو زندہ کیا۔ (مسند احمدبن حنبل:۴/۱۵۸) سپاہیانہ فنون سے ذوق سپاہیانہ فنون سے بڑی دلچسپی تھی،تیراندازی سے بڑا ذوق تھااوردوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے،ایک مرتبہ خالدبن ولیدؓ کو بلاکر یہ حدیث سنائی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالی ایک تیر کے بدلہ میں تین اشخاص کو جنت میں داخل کرتا ہے، اس کے بنانے والے کو اللہ کی راہ میں اس کے لیے جانے والے کو اورچلانے والے کو حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تمام کھیلوں میں صرف تین کھیل جائز ہیں،تیراندازی ،گھوڑے کی تادیب اوراپنی بیوی سے ہنسی دل لگی کرنا، جس نے تیراندازی سیکھ کر بھلادی اس نے نعمت کھودی۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۱۴۸۹) اس دلچسپی کی بنا پر ان کے پاس اسلحہ کا بڑاذخیرہ تھا؛چنانچہ وفات کے وقت ان کے پاس ستر کمانیں تھیں، دوسرے لوازم اس کے علاوہ تھے،یہ ساراذخیرہ اللہ کی راہ میں وقف کر گئے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۱۴۸۹) سادگی عقبہؓ گوفارغ البال تھے، غلام بھی پاس تھا؛لیکن غایت سادگی کی بنا پر اپنا کام آپ کرتے تھے۔