انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبدالرحمنؓ بن سمرہ نام ونسب عبدالرحمن نام،باپ کا نام سمرہ تھا، نسب نامہ یہ ہے،عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب ابن عبدشمس بن عبد مناف بن قصیٰ اسلام و غزوات فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے،جاہلی نام عبدالکعبہ تھا،آنحضرتﷺ نے بدل کر عبدالرحمن رکھا، اسلام کے بعد سب سے اول غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے۔ (اصابہ:۴/۱۶۱) عثمانی عہد غزوۂ تبوک کے بعد عبدالرحمن پھر عثمانی عہد میں نظر پڑتے ہیں، آنحضرتﷺ نے انہیں نصیحت فرمائی تھی کہ خود کبھی امارت کی خواہش نہ کرتا، اگر تمہاری خواہش پر ملے گی تو اس کی ذمہ داری تنہا تمہارے سر ہوگی، اوربلاخواہش ملے گی تو خدا تمہاری مدد کریگا (ابن سعد،جلد۷،ق۲،صفحہ:۱۰۱) اس نصیحت کے مطابق انہوں نے خود کبھی امارت کی خواہش نہیں کی،حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں عبداللہ بن عامر والی بصرہ نے انہیں امارت کے عہد پر مامور کیا،۳۲ھ میں جب ابن عامر نے سجستان اورکابل پر چڑھائی کی (ابن عامر اس علاقہ کو زیر نگین کرچکے تھے، لیکن یہاں کے باشندوں نے بغاوت کرکے ان کے عامل کو نکال دیا) تو عبدالرحمن کو سجستان روانہ کیا،یہ زرنج کی طرف بڑھے، اتفاق سے انہیں ایام میں عید تھی، سجستان والے عید منارہے تھے،عبدالرحمن نے عین عید کے دن زرنج کے مرزبان کو گھیر لیا، اس نے بیس لاکھ درہم اور دو ہزار لونڈی غلام پر صلح کرلی، مرزبان سے مصالحت کے بعد ابن سمرہ نے ہندوستان کی سمت زرنج سے لیکر کش تک اوررخج کی سمت کو خج سے لیکر دوارتک فتح کرکے دوار کے باشندوں کا جبل زور میں محاصرہ کرلیا، ان لوگوں نے ایک بیش قرار رقم دیکر صلح کرلی، یہ رقم اتنی وافر تھی، کہ عبدالرحمن کے ساتھ آٹھ ہزار مجاہدین تھے ہر ایک کے حصہ میں چار چار ہزار آیا، زور ایک بت کا نام تھا،اسی کی نسبت سے یہاں کا پہاڑ جبل زور کہلاتا تھا،یہ بت ٹھوس سونے کا تھا اور یاقوت کی آنکھیں تھیں، عبدالرحمن نے اس کے ہاتھ کاٹ لیے اور دونوں آنکھیں نکال کر مرزبان کو واپس کردیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی صرف تمہارے اعتقاد کو باطل کرنا تھا، بت کسی کو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتے،بت کو توڑنے کے بعد بست اورزابل کو فتح کیا، ان فتوحات کی تکمیل کے بعد زرنج لوٹ آئے،کچھ دنوں کے بعد جب حضرت عثمانؓ کے خلاف شورش بپا ہوئی، تو عبدالرحمن امیر بن احمر کو اپنا قائم مقام بنا کر سجستان سے چلے گئے ،ان کے ہٹتے ہی زرنج والوں نے ابن احمر کو نکال کر زرنج کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ (فتوح البلدان بلاذی:۴۰۱،۴۰۲) خانہ جنگی سے کنارہ کشی حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جمل اورصفین کی قیامت خیز لڑائیاں ہوئیں، لیکن عبدالرحمن کسی میں شریک نہ ہوئے۔ ولایت بصرہ حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد جب امیر معاویہ سارے عالم اسلامی کے خلیفہ ہوگئے، تو انہوں نے جدید انتظامات کے سلسلہ میں عبداللہ بن عامر کو ۴۳ھ میں بصرہ کا والی بنایا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت اورجمل وصفین کے ہنگاموں کے زمانہ میں سجستان اورکابل کے علاقے باغی ہوگئے تھے،عبداللہ بن عامر کو عبدالرحمن کے گذشتہ کار ناموں کا کافی تجربہ ہو چکا تھا، اس لیے انہوں نے دوبارہ انہیں سجستان کا والی بنا کر باغی علاقوں کی تادیب پر مامور کیا؛چنانچہ یہ سجستان آئے،یہاں سے باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے کابل تک پہنچ گئے اور اس کا محاصرہ کرکے سنگباری کے ذریعہ سے شہر پناہ کی دیواریں شق کردیں، عباد بن حصین رات پھر شگاف کی نگرانی کرتے رہے، کہ دشمن اس کو بھرنے نہ پائیں، صبح کو کابلیوں نے میدان میں نکل کر مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اورمسلمان شہر میں داخل ہوگئے، یہ بلاذری اورابن اثیر کا بیان ہے۔ (ابن ایثر:۳/۳۶۶،وبلاذری:۴۰۳) یعقوبی کے بیان کے مطابق شہر پناہ کے دربان نے رشوت لے کر دروازہ کھول دیاتھا۔ (یعقوبی:۲/۲۵۸) کابل کو مطیع بنانے کے بعد عبدالرحمن نے،خواش اور زان بست کو زیر نگیں کیا، یہاں سے رزان کا رخ کیا، یہاں کے باشندوں نے پہلے ہی شہر خالی کردیا تھا، اس لیے بلا جنگ رزان پر قبضہ ہوگیا، رزان کے بعد خشک پہنچے،یہاں کے باشندوں نے صلح کرلی، خشک کے بعد رخج آئے اورایک پر زور مقابلہ کے بعد یہاں کے باشندوں کو شکست دیکر غزنہ پہنچے،باغی غزنویوں نے نہایت پر زور مقابلہ کیا، مگر انہوں نے بھی فاش شکست کھائی،کابل والے سخت بغاوت پسند تھے، عبدالرحمن جب غزنہ کی طرف متوجہ تھے،کابلیوں نے میدان خالی پاکر بغاوت کردی، عبدالرحمن نے غزنہ سے فراغت کے بعد انہیں مطیع بنایا اور سجستان کابل اور غزانہ کا پورا علاقہ دوبارہ زیر نگین کیا۔ (ابن اثیر:۳/۳۶۶) عبدالرحمن کو ابن عامر نے اپنی پسند سے حاکم بنایا تھا، ان کے کار ناموں کو دیکھ کر امیر معاویہ نے بھی مہر تصدیق ثبت کردی اورعبدالرحمن مرکزی حکومت کی جانب سے سجستان کے باقاعدہ والی ہوگئے (بلاذری:۴۰۳) تین سال کے بعد ۴۶ ھ میں زیاد نے انہیں معزول کرکے زیاد بن ربیع کو ان کی جگہ مقرر کیا۔ وفات معزولی کے بعد عبدالرحمن نے سجستان ہی میں بود وباش اختیار کرلی تھی، یہیں ۵۰ھ میں وفات پائی (اصابہ:۴/۱۶۰) وفات کے بعد ایک لڑکا عبید اللہ یاد گار چھوڑا۔ فضل وکمال عبدالرحمن اولاً مسلمین بعد الفتح میں تھے، پھر فوجی آدمی تھے،اس لیے علمی اعتبار سے کوئی قابل ذکرِ شخصیت نہ تھی، تاہم ان کی بیاضِ علم کے اوراق بالکل سادہ نہیں ہیں ان کی ۱۴ روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،ان میں سے ۲ متفق علیہ اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں، ان کے رواۃ میں عبدالرحمن بن لیلی اورمشہور تابعی حضرت حسن بصری لایق ذکر ہیں۔ (تہذیب الکمال:۲۲۸) تواضع وخاکساری ایک طرف یہ بلندی اورحوصلہ مندی تھی، کہ سجستان سے لیکر غزنہ تک کا علاقہ فتح کرلیا،اورباغی کابلیوں کے بل نکال دیئے ،دوسری طرف یہ خا ک ساری اور فرو تنی تھی کہ بارش کے دنوں میں جھاڑو لیکر گلیاں صاف کرتے پھرتے تھے۔ (تہذیب الکمال:۲۲۸)