انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۱۰)حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ) ابوحمزۃ الانصاری الخزرجی آپؓ آنحضرتﷺ کے نو سال کے قریب خادم رہے اور سفروحضر میں حضورﷺ کی احادیث سنیں، حضورﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور کئی دوسرے اکابر صحابہؓ سے فیضِ علم پایا (تذکرہ:۱/۴۲) آپؓ بعض اوقات حضورﷺ سے حدیثیں لکھ بھی لیتے تھے؛ بلکہ حضور کوسنا بھی دیتے تھے، آپؓ کے شاگرد سعید بن ہلال کہتے ہیں: "كنا إذاأكثرنا على أنس بن مالك رضي الله عنه اخرج إلينا محالا عنده فقال: هذه سمعتها من النبي صلى الله عليه و سلم فكتبتها وعرضتها عليه"۔ (المستدرك على الصحيحين،كتاب معرفة الصحابةؓ،ذكرأنس بن مالك الأنصاريؓ،حدیث نمبر:۶۴۵۲،شاملہ،الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت) ترجمہ: ہم جب حضرت انسؓ سے زیادہ روایات پوچھتے تو آپؓ اپنے مجلات (بیاضیں) نکال لیتے اور فرماتے یہ وہ روایات ہیں جو میں نے حضورﷺ سے سنی ہیں، میں نے انھیں لکھا اور انھیں آپﷺ کو پڑھ کر بھی سناتا رہا۔ حفاظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "وله صحبة طويلة وحديث كثير وملازمة للنبي صلى الله عليه وآله وسلم..... وكان آخر الصحابة موتا"۔ (تذكرة الحفاظ للذھبی:۱/۳۷،شاملہ، المكتبة الرقمية) ترجمہ:آپؓ نے (حضورؐ کی) لمبی صحبت پائی، بہت حدیث سنی اور آپؐ کی مجلس کولازم پکڑا..... آپؓ صحابہؓ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔ آپؓ کے شاگردوں میں حضرت حسن بصریؒ، امام زہریؒ، قتادہؒ، ثابت بنانی، حمید الطویل زیادہ معروف ہیں، امام ابوحنیفہؒ نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے، حضرت امامؒ نے آپؓ سے روایات لی ہیں یانہیں؟، اس میں اختلاف ہے، حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں انہیں بصرہ بھیج دیا (الاکمال:۶۰۲) تاکہ وہاں لوگوں کوفقہ کی تعلیم دیں، اِس صورتِ حال سے پتہ چلتا ہے کہ عراق کی درسگاہیں کس طرح علم وحدیث وفقہ سے مال مال ہورہی تھیں، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ۱۲۸/حدیثیں بالاتفاق روایت کی ہیں اور ہردواماموں نے آپ رضی اللہ عنہ کی ۸۰/ اور ۷۰/دیگرروایات علی الانفراد روایت کی ہیں، حضرت انسؓ کے شاگردوں میں سے ابان بن یزید نے آپؓ کے سامنے ہی آپ رضی اللہ عنہ کی مرویات لکھنی شروع کردی تھیں۔ (نوٹ):اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایتِ حدیث میں بھی امتیازی شان رکھتی ہیں، آپؓ سے دوہزار دوسو دس حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے ۲۲۹/صحیح بخاری میں ۲۳۲/صحیح مسلم میں مروی ہیں اور ان میں سے ۱۷۴/روایات پر شیخین کا اتفاق ہے، جس طرح دس فقہائے حدیث میں ہم نے حضرت عائشہؓ کوذکر نہیں کیا کہ ماں امتیازی شان رکھتی ہے، اس طرح ہم نے ان دس رواۃِ حدیث میں حضرت ام المؤمنینؓ کا ذکر نہیں کیا؛ تاکہ یہاں بھی ان کی امتیازی حیثیت قائم رہے، ان دس ممتاز روایتِ حدیث کے ساتھ ساتھ جواور صحابہؓ روایتِ حدیث میں پیش پیش رہے، ان میں حضرت اسید بن حضیرؓ (۲۰ھ)، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ (۳۲ھ)، حضرت عبادہ بن صامتؓ (۳۴ھ)، حضرت سلمان فارسیؓ (۳۵ھ)، حضرت عبداللہ بن سلامؓ (۴۳ھ)، حضرت عمروبن حزمؓ (۵۳ھ)، مولودِ کعبہ حضرت حکیم بن حزامؓ (۵۴ھ)، حضرت عقبہ بن عامر الجہنیؓ (۵۸ھ) زیادہ روایات کے راوی ہیں اور حق یہ ہے کہ ہرایک صحابیؓ نے اپنی اپنی بساط اور اپنی اپنی یاد کے مطابق حضورﷺ سے احادیث سنیں اور آپﷺ سے دیکھی ہربات کو آگے پہنچانے اور پھیلانے میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا؛ یہاں تک کہ علمِ پیغمبرﷺ اِن مقدس راویانِ حدیث (صحابہ کرامؓ) سے آگے تابعینؒ کو منتقل ہوا..... جس طرح صحابہ کرامؓ میں فقہاء حدیث اور رواۃِ حدیث امتیازی صورتوں میں علم حدیث کی خدمت کرتے رہے تھے، تابعین کرامؒ میں بھی خدمتِ حدیث کا وہی رنگ اُبھرا، کچھ بزرگ فقہاء حدیث کی حیثیت سے زیادہ نمایاں ہوئے توکچھ حضرات نے روایتِ حدیث کی حیثیت سے اس فن کی زیادہ خدمت کی اور یہ بھی صحیح ہے کہ بیشتر حضرات ان میں سے بھی فقہ اور حدیث دونوں کے جامع تھے، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔