انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پہلی ہجرت حبشہ کی پہلی ہجرت مظلوم مسلمان کفار کی سختیاں سہتے سہتے عاجز آگئے تھے نہ کفار کے خوف سے کہیں چل پھر سکتے تھے اورنہ عبادت کرسکتے تھے اس لیے ان کو ایسی جائے پناہ کی تلاش تھی جہاں وہ کچھ اطمینان وسکون حاصل کرسکیں اس لیے آنحضرت ﷺنے مشورہ دیا کہ تم لوگ فی الحال حبشہ کو ہجرت کرجاؤ، وہاں کا بادشاہ رحم دل اورمنصف مزاج ہے وہ تم کو آرام سے رکھے گا اس قسم کے حکم کے منتظر ہی تھے حکم پاتے ہی بڑی تعداد ہجرت کے لیے آمادہ ہوگئی اورمسلمانوں کا یہ پہلا مصیبت زدہ قافلہ راہ خدا میں غریب الوطن ہوا ، یہ جماعت ذیل کے اشخاص پر مشتمل تھی، حضرت عثمان بن مظعون ؓ رئیس قافلہ تھے۔ مرد عورتیں حضرت عثمان ؓ حضرت ابوحذیفہ ؓ حضرت زبیر بن عوام ؓ حضرت مصعب بن عمیر ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ حضرت عثمان بن مظعون ؓ حضرت عامر بن ربیعہ ؓ حضرت ابوسیرہ بن ابی رہم ؓ حضرت سہیل بن بیضاء ؓ حضرت حاطب بن عمرو ؓ حضرت رقیہ ؓ حضرت سہلہ بن سہیل ؓ حضرت ام سلمہ ؓ حضرت لیلی بنت ابی حشمہ ؓ اس قافلہ کی روانگی کے بعد لوگ برابر ہجرت کرتے رہے،یہاں تک کہ حبشہ میں مسلمانوں کی کافی تعداد ہوگئی اور بہت آرام وآسائش کی زندگی بسر کرنے لگے، مگر قریش مسلمانوں کا آرام وآسائش کب گوارا کرسکتے تھے۔ حبشہ سے مسلمانوں کے اخراج کی کوشش اس لیے نجاشی کے پاس ایک وفد ہدایاوتحائف کے ساتھ بھیجا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پناہ گزین کو وہاں سے نکال دے، اس وفد کے ارکان میں عبداللہ بن ربیعہ اورعمروبن العاص تھے، یہ دونوں حبش پہنچے اورنجاشی کے دربار میں حاضری کے قبل پہلے درباری بطریقوں سے ملے اورفرداً فرداً ہر ایک کو تحفہ دے کر کہا کہ ہماری قوم کے چند سادہ لوح لونڈوں نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر لیا ہے جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے مذہب سے مختلف ہے اور وہ اپنے وطن سے بھاگ کر نجاشی کی حکومت میں پناہ گزین ہوئے ہیں ،ہم ان کو پکڑنے آئے ہیں، اس لیے آپ لوگوں کی خدمت میں ہماری درخواست ہے کہ جس وقت ہم بادشاہ سلامت کے حضور میں عرض گذار ہوں تو برائے مہر بانی آپ لوگ ہماری تائید فرمائیں، اوران کو مشورہ دیں کہ ہمارے مفرورین ہمارے حوالہ کردیے جائیں، اس کے بعد نجاشی کی خدمت میں باریاب ہوکر ہدایا پیش کیے اورعرض کیا ہمارے چندسادہ لوح لڑکوں نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے، جو ہمارے اورآپ دونوں کےمذہب سے مختلف ہے ،اس لیے ہم عرض گذار ہیں کہ ان کو ہمارے حوالہ کردینے کا حکم صادر فرمایا جائے ،بطارقہ کو پہلے ہی ہموار کرلیا تھا، اس لیے انہوں نے پرزور طریقہ سے تائید کی کہ بے شک یہ لوگ ان لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ تجربہ کار اوران کے واقف کار ہیں اس لیے ان کا حوالہ کردینا ہی مناسب ہے۔ نجاشی کا جواب نجاشی یہ درخواست سن کر بہت برہم ہوا اورکہا کہ جب تک میں ان لوگوں کو بلاکر خود تحقیقات نہ کرلوں گا اس وقت تک میں اپنے مہمان اورپناہ گزینوں کو ہرگز حوالہ نہیں کرسکتا، البتہ اگروہ تمہارے بیان کے مطابق ہیں تو مجھے حوالہ کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا اوراگر ایسا نہیں ہے تو تم لوگ کسی طرح ان کو نہیں لے جاسکتے اور وہ جب تک ہماری پناہ میں رہیں گے آزادی سے رہ سکیں گے۔ نجاشی کا مسلمانوں کو تحقیق حال کے لیے طلب کرنا چنانچہ نجاشی نے مسلمانوں کو بلایا چونکہ یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے بالکل نیا تھا، اس لیے بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ کیا جواب دینا چاہئے مگر آخر میں یہ فیصلہ کیا کہ جو کچھ واقعہ ہے صحیح صحیح بیان کردیں گے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ جب یہ لوگ حاضر ہوئے، تو نجاشی نے پوچھا کہ تمہارا کون سادین ہے جس کے باعث تم نے آبائی مذہب کو چھوڑدیا اور وہ تمہارا جدید مذہب ہم سب لوگوں کے مذہب سے نرالا ہے، اس کا جواب حضرت جعفر ؓ نے ایک مختصر تقریر میں دیا۔ حضرت جعفر ؓ کی تقریر ایہا الملک،ہم جاہل قوم تھے،بتوں کو پوجتے تھے مردار خوار تھے ،فواحش میں مبتلا تھے، قطع رحم کرتے تھے،پڑوسیوں کے ساتھ برا برتاؤ رکھتے تھے، ہمارا زبردست زبردست کو کھاجاتا تھا، ہماری یہ حالت تھی کہ ہم میں اللہ نے ایک ایسا پیغمبر مبعوث کیا، جس کے صدق ،عفاف، امانت اورنسب کو ہم جانتے ہیں ،اس نے ہم کو خدائے واحد کی طرف بلایا کہ ہم صرف اسی کی پرستیش کریں اوراپنے اوراپنے آبا کے اصنام کی پرستش چھوڑدیں ،اس نے ہم کو سچ بولنے، امانت ادا کرنے ،صلحہ رحمی کرنے ،پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے حرام باتوں اورخونریزی سے محترز رہنے کا حکم دیا، اورفواحش سے،جھوٹ بولنے سے ،یتیم کا مال کھانے سے عفیفہ عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اورخدائے واحد کی تنہا عبادت کا حکم دیا کہ اس میں کسی کو شریک نہ کریں،اورصوم وصلوۃ اورزکوٰۃ کا حکم دیا ہم نے اس کو مانا اوراس پر ایمان لائے اب جب کہ ہم نے شرک چھوڑ کر خدا پرستی اختیار کی اورحلال اورحرام کو حرام جانا اس پر ہماری قوم ہماری دشمن ہوگئی اورہم کو طرح طرح کی تکلفیں پہنچانے لگی کہ ہم خدا پرستی کو چھوڑ کر اصنام پرستی شروع کردیں۔ (سیرۃ ابن ہشام :۱/۱۸۱۸،۱۸۲) نجاشی کا آیات قرآنی سے متاثر ہونا اوراسلام کی حقانیت کا اعتراف نجاشی نے کہا اللہ کا کلام تم کو کچھ یاد ہے،حضرت جعفر ؓ نے کہا ہاں! نجاشی نے سننے کی خواہش کی،حضرت جعفر ؓ نے کھیٰعٰص کا تھوڑا سا ابتدائی حصہ سنایا جس کو سن کر نجاشی اوراس کے درباری اسقف اس قدر متاثر ہوئے کہ روتے روتے ڈاڑھیاں تر ہوگئیں نجاشی نے کہا کہ یہ اورعیٰسی کا لایا ہوا مذہب ایک ہی چراغ کے دو پرتوہیں۔ وفد مشرکین کی ایک چال اورعمروبن العاص اورعبداللہ بن ابی ربیعہ سے کہا کہ تم دونوں چلے جاؤ یہ لوگ کسی طرح تمہارے حوالہ نہیں کیے جاسکتے، جب یہ دونوں اس طرح ناکام ہوئے تو ایک دوسری تدبیر سوچی وہ یہ کہ نجاشی کے سامنے مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان کا عقیدہ دریافت کیا جائے، عیسائی ان کو ابن اللہ کہتے ہیں، اورمسلمان عبداللہ بتائیں گے،ان کے اس عقیدہ کا اثر نجاشی پر براپڑے گا، غرض دوسرے دن عمروبن العاص نے نجاشی سے کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بہت غلط عقیدہ رکھتے ہیں، اور ان کی شان میں ناروا الفاظ استعمال کرتے ہیں، ہمارے اس قول کی تصدیق آپ ان کو بلا کر کرسکتے ہیں، یہ آزمائش پہلے سے بھی زیادہ سخت تھی، تاہم ان لوگوں نے یہی فیصلہ کیا کہ قرآن میں جو کچھ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق مذکور ہے وہی نجاشی کے سامنے بیان کریں گے خواہ اس کا نتیجہ خراب ہی کیوں نہ نکلے۔ مسلمانوں کی دوبارہ طلبی اوروفد کی ناکامی غرض کہ یہ لوگ دربار میں بلائے گئے ،نجاشی نے سوال کیا کہ عیسیٰؑ کے متعلق کیا عقیدہ رکھتےہو، حضرت جعفر ؓ نے جواب دیا کہ ہماری کتاب کے رو سے وہ اللہ کے بندے اوراس کے رسول اور اس کی روح تھے، نجاشی نے زمین پر ہاتھ مار کرایک تنکا اٹھایا اورکہا کہ جو تم کہتے ہو،حضرت عیسیؑ اس تنکے سے ذرہ برابر بھی زیادہ نہیں تھے، اس پر بطارقہ بہت زیادہ چین بجبین ہوئے اورقریش کی سفارت ناکام رہی۔ (یہ واقعات سیرۃ ہشام، جلد ۱،مسند احمد بن حنبل :۱/۲۰۲،۲۰۳ مفصل مذکور ہیں ،۱۲منہ) مہاجرین حبش کی واپسی ابھی مہاجرین حبش میں کچھ ہی دن رہے تھے، کہ ان کو اہل مکہ کے اسلام کی غلط خبر ملی، اس خبر سے فطرۃ ان کو وطن لوٹنے کا شوق پیدا ہوا کہ اب وہاں بھی امن وامان نصیب ہوگا، اس خیال سے یہ لوگ مکہ روانہ ہوگئے، مگر مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی، اب یہ لوگ بڑی کشمکش میں پڑے، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، لیکن بالآخریہ سب کسی نہ کسی کی امان میں داخل ہوگئے، البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک دن ٹھہر کر واپس چلے گئے۔