انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اجتہاد کے شرائط اسلام ایک ابدی مذہب ہے،اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کاحل ہے،یہ دین خداکی طرف سے آیا ہوا آخری دین ہے ارشاد خداوندی ہے:" اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ"(آل عمران:۱۹) اس دین کا امتیاز جہاں ابدیت ودوام اور ہر عہد میں قیادت ورہبری کی صلاحیت ہے وہیں اسکا بڑا وصف جامعیت، مسائل زندگی میں تنوع کے باوجود رہنمائی اورتوازن واعتدال کے ساتھ ان کا حل بھی ہے،خلوت ہویاجلوت، ایوان سلطنت ہو یا فقیر ومحتاج کا،خانۂ بے چراغ حاکم ہو یا محکوم،دیوان قضاء کی میزان عدل ہویاادب وسخن کی بزم ہو،حق وباطل کا رزم ہویاخدا کی بندگی اوراس کے حضور آہ سحرگا ہی ہو،حیات انسانی کا کونسا ایسا شعبہ ہے جس کو اس نے اپنے نورہدایت سے محروم رکھاہے،اورزندگی کا کونسا عمل ہے جس کا سلیقہ اس دین نے نہیں سکھایا۔ اجتہاد کی ضرورت لیکن انسانی زندگی سمندر کی طرح رواں دواں ہے وہ مسلسل حرکت میں ہے کبھی وہ سکون سے آشنا نہیں ہوتی،ایسی تغیر پذیر انسانی زندگی کی رہنمائی ہمیشہ اورہر مسئلہ میں آسان نہیں،اس کے لیے ضروری ہے کہ مختلف شعبہائے زندگی میں مقاصد طئے کردئے جائیں، لیکن وسائل وذرائع کا حکم متعین کرنے میں لچک رکھی جائے،اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن وحدیث نے یہی کیا ہے ،تجارت کا پورا نظام اسی اصل پر مبنی ہے،نکاح عفت وعصمت اورمحبت وسکون کا سامان ہو،انفاق کی تمام صورتوں کا منشاء غرباء کی بہرصورت مددہے، عدل وقضاء کے تمام احکام کی روح بے قصورکا بری ہونا اورظالم کا ماخوذ ہوناہے،امارت وحکومت کا مقصدعدل کا قیام ،ظلم کا سدباب اورمسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کی حفاظت ہے۔ شریعت اسلامی کی یہی جامعیت اوروسائل وذرائع سے متعلق لچکدار رہبری اجتہاد کی ضرورت پیداکرتی ہے،اجتہاد کے ذریعہ بدلے ہوئے حالات وادوار میں شریعت کے اصل منشاء ومقصد کوسامنے رکھ کر نوپید اورتغیر پذیر جزئیات ومسائل اورذرائع ووسائل کی بابت رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے،اجہتاد اس کا نام نہیں ہے کہ شارع کے نصوص کو محدود کردیا جائے اور اپنی رائے وخواہش کے دائرہ کو وسیع کیاجائے،بلکہ اجتہاد کے ذریعہ درحقیقت نصوص اورشارع کی ہدایات وتعلیمات کے اطلاق کو وسیع کیاجاتا ہے،اوران صورتوں کو بھی آیات وروایات کے ذیل میں لایا جاتا ہے جن کا نصوص میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ آیا ہو،مثلاً حدیث میں ہے کہ: ایک شخص نے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا تو اس کو کفارہ اداکرنے کا حکم دیا گیا۔ (بخاری، باب اذا جامع فی رمضان، حدیث نمبر:۱۸۰۰) اس حدیث سے صراحتاً روزہ میں صرف جماع ہی کی وجہ سے کفارہ واجب ہونا معلوم ہوتا ہے؛لیکن فقہاء نے اپنے اجتہاد کے ذریعہ اس حکم کے دائرہ کو ان لوگوں تک بھی وسیع کیا ہے جو قصدًاخوردونوش کے ذریعہ روزہ توڑدیں، اجتہاد کی روح اور اس کی اصل اسپرٹ یہی ہے کہ اس کے ذریعہ نصوص کی صریح واضح ہدایات کے دائرہ عمل کو ان مسائل تک بڑھایا جائے جن کی بابت صریح احکام موجود نہیں ہیں۔ اجتہاد کے شرائط ظاہر ہے کہ اتنی اہم اور نازک ذمہ داری ہرکس وناکس کو نہیں سونپی جاسکتی، اس کے لیے اخلاص وللہیت ،تقوی،خداترسی شرط ہے اور حزم واحتیاط کا وصف بھی مطلوب ہے،اس کے ساتھ عمیق علم،ذکاوت وفراست،وسیع نظر نیز زمانہ سے بھرپور آگہی کی بھی ضرورت ہے،چنانچہ اہل علم نے اس طرف خصوصی توجہ دی ہے اور یہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ مجتہد کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے، امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ وہ عملی اعتبار سے احکام شریعت کے مراجع:قرآن،حدیث، اجماع،اورقیاس کااحاطہ رکھتا ہو (المستصفی، فصل فی ارکان الاجتہاد:۲/۳۸۳) اور امام بغویؒ نے ان چار کے علاوہ عربی زبان کا بھی ذکرکیا ہے(عقدالجید، باب بیان حقیقۃ الاجتہاد: ۱/۴) مناسب ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک کا علیحدہ ذکر کیا جائے اور ان سے متعلق ضروری وضاحت کی جائے۔ قرآن کا علم قرآن کی ان آیات سے واقفیت ضروری ہے جو احکام سے متعلق ہوں، عام طورپر علماء نے لکھا ہے کہ ایسی آیات کی تعداد پانچ سو ہے(المستصفی، فصل فی ارکان الاجتہاد:۲/۳۸۳) مگر محققین کا خیال ہے کہ یہ تحدید صحیح نہیں ہے،کیونکہ قرآن میں احکام صرف اوامرونواہی میں منحضر نہیں ہیں،قصص وواقعات اورمواعظ میں بھی فقہی احکام نکل آتے ہیں (البحر المحیط، باب الثانی المجتھد الفقیہ:۴/۴۹۰) علامہ شعر انی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر فہم صحیح میسر ہو،اورتدبیر سے کام لیاجائے تو اس سے کئی اور احکام نکل آئیں گے اورمحض قصص وامثال کے مضامین بھی احکام سے خالی نہ ہوں گے (ارشاد الفحول، الشروط الواجب توفرھا فی المجتھد: ۲/۲۰۶)چونکہ قرآن مجید کے بعض احکام منسوخ ہیں،اس لیے ناسخ ومنسوخ کے علم سے بھی واقف ہونا ضروری ہے تاکہ متروک احکام کو قابل عمل نہ ٹھہرایاجائے (الابہاج: ۴/۱۷) مگر اس کے لیے تمام منسوخ اورناسخ آیات وروایات کااحاطہ ضروری نہیں ہے،اتنی سی بات کافی ہے کہ جس آیت یا حدیث سے وہ استدلال کررہا ہے وہ منسوخ نہ ہو (شرح الکوکب المنیر، باب فی بیان احکام المستقل ومایتعلق بہ: ۴/۴۶۱) اسی طرح مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ حافظ قرآن ہو،یاان آیات کا حافظ ہو جن سے احکام متعلق نہیں ہیں۔ (الابہاج: ۴/۱۶) احادیث کا علم مجتہد کے لیے ان احادیث سے واقف ہونا ضروری ہے جن سے فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں،مواعظ اور آخرت وغیرہ سے متعلق روایات پر عبورضروری نہیں،ایسی احادیث گو ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن بقول علامہ رازی وغزالی وہ غیر محدود بھی نہیں ہیں(المستصفی:۲/۳۸۴۔ المحصول:۶/۲۳)بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ ایسی احادیث کی تعداد تین ہزار(ارشاد الفحول: ۲/۲۰۷) اوربعض کی رائے بارہ سو ہے لیکن اس تحدید سے اتفاق مشکل ہے۔ حدیث سے واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے صحیح ومعتبر ہونے سے واقف ہو،خواہ یہ واقفیت براہ راست اپنی تحقیق پر مبنی ہو یا کسی ایسے مجموعہ احادیث سے روایت نقل کی گئی ہو جس کی روایت کو ائمہ فن نے قبول کیاہو(ارشاد الفحول: ۲/۲۰۷۔ المستصفی:۲/۳۸۴) یہ بھی معلوم ہو کہ حدیث متواتر ہے یامشہور یاخبرواحد، نیز راوی کے احوال سے بھی آگہی ہو (تیسیرالتحریر:۴/۹۰) اب چونکہ روایات میں وسائط بہت بڑھ گئے ہیں، راویوں پر طویل مدت بھی گذرچکی ہے اور ان کے بارے میں تحقیق دشوار ہے اس لیے بخاری ومسلم جیسے ائمہ فن نے جن راویوں کی توثیق کی ہے ان پر ہی اکتفاء کیا جائے گا(المستصفیٰ: ۲/۳۸۷) اس طرح جن روایات کو بعض اہل علم نے قبول نہیں کیا ہے ان کے راویوں کی تو تحقیق کی جائے گی لیکن جن احادیث کو امت میں مقبولیت مل چکی ہے ان کی اسناد پر غور وفکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ (المستصفی:۲/۳۸۷) البتہ مجتہد کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام احادیث احکام کا حافظ ہو ،اگر اس کے پاس احکام سے متعلق احادیث کا کوئی مجموعہ ہو اور اس سے استفادہ کرے تو یہ بھی کافی ہے اہل علم نے خاص طور پر اس سلسلہ میں سنن ابی داؤد کا ذکر کیا ہے۔ (المستصفی:۲/۳۸۳۔ ارشاد الفحول:۲/۲۰۷) اجماعی مسائل کا علم جن مسائل پر امت کے مجتہدین کا اتفاق ہوجائے تو اس سے اختلاف درست نہیں ہے،اس لیے مجتہد کے لیے یہ ضروری ہے کہ اجماعی مسائل سے بھی واقف ہو،البتہ تمام اجماعی اوراختلافی مسائل کا احاطہ ضروری نہیں ہے(المستصفی:۲/۳۸۴)بلکہ جس مسئلہ میں اپنی رائے دے رہا ہو اس کے بارے میں اسے واقف ہونا چاہئے (کشف الاسرار:۴/۲۲) یہ جاننا بھی اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس پر اجماع کیوں ہے؟ بلکہ اس قدر معلوم ہوکہ اس مسئلہ میں اتفاق ہے یا نہیں؟ (کشف الاسرار:۴/۲۲) یا غالب گمان ہوکہ یہ مسئلہ اس دور کا پیدا شدہ ہے(کشف الاسرار: ۴/۲۲) کیونکہ اجماع انہی مسائل میں ممکن ہے جو پہلے واقع ہوچکے ہیں۔ قیاس کے اصول وشرائط کا علم چونکہ احکام شریعت کا بہت بڑا حصہ قیاس پر مبنی ہے اور مجتہد کی صلاحیتِ اجتہاد کا بھی اصل مظہر یہی ہے، بلکہ حدیث میں اجتہادہی کا لفظ آیا ہے(ابوداؤد، حدیث نمبر:۳۱۱۹) جس سے فقہاء نے قیاس پر استدلال کیا ہے،اس لیے قیاس کے اصول وقواعد اورشرائط وطریق کار سے واقفیت بھی ضروری ہے، اس لیے کہ قیاس اجتہاد کے لیے نہایت اہم اورضروری شرط ہے(المستصفی: ۲/۲۶۶)امام غزالی رحمہ اللہ نے قیاس کے بجائے عقل کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں مزید عموم ہے اور قیاس بھی اس میں داخل ہے۔ (المحصول :۶/۲۳) عربی زبان کا علم احکام شریعت کے دواہم مصادر قرآن اورحدیث کی زبان عربی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ عربی زبان سے واقفیت نہایت ضروری ہے اور کاراجتہاد کے لیے بنیادواساس کا درجہ رکھتی ہے، عربی زبان کے لیے عربی لغت اور قواعد سے واقف ہونا چاہئے،اتنی واقفیت ہوکہ محلِ استعمال کے اعتبار سے معنی متعین کرسکے،صریح اور مبہم میں فرق کرسکے، حقیقی اورمجازی استعمال کو سمجھ سکے،فن لغت اورنحووصرف میں کمال ضروری نہیں ہے،اس سے اسقدر واقفیت ہونی چاہئے کہ قرآن وحدیث کے متعلقات کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو(المستصفی:۲//۳۸۶) اوربقول امام رازی اس کا لغت میں اصمعی اورنحو میں سیبویہ وخلیل ہونا مطلوب نہیں ہے۔ (الاحکام: ۱/۴۱۶) مقاصد شریعت سے آگہی اجتہاد کے لیے ایک اہم اورضروری شرط مقاصدِ شریعت سے واقفیت ہے اور یہ واقفیت بدرجہ کمال وتمام مطلوب ہے،عام طورپر اہل علم نے اس کا مستقل طورپر ذکر نہیں کیاہے؛ لیکن امام ابواسحاق شاطبی نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی ہے وہ اجتہاد کے لیے دوبنیادی وصف کو ضروری قراردیتے ہیں،مقاصد شریعت سے مکمل آگہی اوراستنباط کی صلاحیت(الموافقات: ۳/۳۳۵) اوریہ واقعہ ہے کہ مقاصد شریعت سے پوری پوری آگہی نہایت اہم شرط ہے،کیونکہ فقہاء کو احکام شریعت کےعمومی مقاصد سے ہم آہنگ رکھا جائے، اورمجتہد کا اصل کام یہی ہے کہ وہ مقاصد شریعت کو ہمیشہ سامنے رکھے اور ان کو پورا کرنے والے وسائل وذرائع کو اس نقطۂ نظر سے دیکھے کہ وہ موجودہ حالات میں شریعت کے بنیادی مقاصد ومصالح کو پورا کرتے ہیں یا نہیں؟۔ زمانہ آگہی اجتہاد کے لیے ایک نہایت اہم اورضروری شرط جس کا عام طورپر صراحۃً ذکر نہیں کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ مجتہد اپنے زمانہ کے حالات سے بخوبی واقف ہو،عرف وعادت ،معاملات کی مروجہ صورتوں اورلوگوں کی اخلاقی کیفیات سے آگاہ ہوکہ اس کے بغیر اس کے لیے احکام شریعت کا انطباق ممکن نہیں،اس لیے محققین نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ اورعہد کے لوگوں سے یعنی ان کے رواجات معمولات اورطورطریق سے باخبر نہ ہو وہ جاہل کے درجہ میں ہے۔ (رسم المفتی:۱۸۱، زکریا بکڈپو) مجتہد کے لیے زمانہ آگہی کی ضرورت کیوں؟ مجتہد کے لیے زمانہ آگہی دووجوہ سے ضروری ہے، اول ان مسائل کی تحقیق کے لیے جو پہلے نہیں تھے اب پیدا ہوئے ہیں؛کیونکہ کسی نوایجاد شئی یا نو مروج طریقہ پر محض اس کی ظاہری صورت کو دیکھ کر کوئی حکم لگادینا صحیح نہیں ہوگا، جب تک اس کی ایجاد اوررواج کا پس منظر معلوم نہ ہو، وہ مقاصد معلوم نہ ہوں جو اس کا اصل محرک ہیں،معاشرہ پر اس کے اثرات ونتائج کا علم نہ ہو اوریہ معلوم نہ ہو کہ سماج کس حد تک ان کا ضرورت مندہے؟ اس سب امور کے جانے بغیر کوئی بھی مجتہد اپنی رائے میں صحیح نتیجہ تک نہیں پہونچ سکتا۔ دوسرے بعض ایسے مسائل میں بھی جوگواپنی نوعیت کے اعتبارسے نوپید نہیں ہیں؛ لیکن بدلے ہوئے نظام وحالات میں ان کے نتائج میں فرق واقع ہوگیا ہے،دوبارہ غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے،یہ ایک نہایت اہم پہلو ہے جو فقہ اسلامی کو زمانہ اوراس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتا ہے؛اکثر اہل علم نے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے۔ علامہ قرافیؒ نے لکھا ہے کہ منقولات پر جمود دین میں گمراہی اورعلماء سلف صالحین کے مقصد سے ناواقفیت ہے (کتاب الفروق:۲/۲۲۹) حافظ ابن قیمؒ نے اپنی مایہ ناز تالیف اعلام الموقعین میں اس موضوع پر مستقل باب باندھا ہے (اعلام الموقعین:۳/۷۸)علامہ شامیؒ نے عرف وعادت میں تغیر پر ایک مستقل رسالہ تالیف کیاہے، اس رسالہ سے علامہ موصوف رحمہ اللہ کی ایک چشم کشا عبارت نقل کی جاتی ہے: " بہت سے احکام ہیں جو زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتے ہیں؛اس لیے کہ اہل زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے،نئی ضرورتیں پیدا ہوجاتی ہیں،اہل زمانہ میں فساد(اخلاق) پیدا ہوجاتا ہے،اب اگر شرعی حکم پہلے کی طرح باقی رکھا جائے تو یہ مشقت اور لوگوں کے لیے ضرر کا باعث ہوجائےگا اوران شرعی اصول وقواعد کے خلاف ہوجائے گا جو سہولت وآسانی پیدا کرنے اورنظام کائنات کو بہتر اورعمدہ طریقہ پررکھنے کے لیے ضرروفساد کے ازالہ پر مبنی ہے۔ (نشر العرف) ایمان وعدل اجتہاد کےلیے ایک نہایت اہم شرط شریعت اسلامی پر پختہ ایمان وایقان اوراپنی عملی زندگی میں فسق وفجور سے گریز واجتناب ہے،علامہ آمدی رحمہ اللہ نے اس کو شرط اولین قراردیا ہے کہ وہ خدا کے وجود،اس کی ذات وصفات اورکمالات پر ایمان رکھتاہو، رسول کی تصدیق کرتاہو، شریعت میں جو بھی احکام آئےہیں ان کی تصدیق کرتا ہو۔ (الاحکام للآمدی، الباب الاول فی المجتہدین: ۱/۴۱۵) موجودہ زمانہ میں تجددپسند اوربزعم خود روشن خیالوں کو اجتہاد کا شوق جس طرح بے چین ومضطرب کئے ہوا ہے،علاوہ علم میں ناپختگی کے ان کی سب سے بڑی کمزوری ذہنی مرعوبیت،فکری استقامت سے محرومی اورمغربی عقیدہ وثقافت کی کورانہ تقلید کا مرض ہے،ان کے یہاں اجتہاد کا منشاء زندگی کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل نہیں ہے؛بلکہ اسلام کو خواہشات اورمغرب کی عرضیات کے سانچہ میں ڈھالنا ہے یہ اسلام پر حقیقی ایمان اور تصدیق سے محرومی کا نتیجہ ہے،ظاہر ہے جو لوگ اس شریعت پر دل سے ایمان نہیں رکھتےہوں،جن کا ایمان ان لوگوں کے فلسفہ وتہذیب پر ہوجو خدا کے باغی اور اس دین وشریعت کے معاندہوں ان سے اس دین کے بارے میں اخلاص اورصحیح رہبری کی توقع رکھنا راہزنوں سے جان ومال کی حفاظت کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایمان کی تخم سے جو برگ وباروجود میں آتا ہے وہ عمل صالح ہے،اس لیے مجتہد کو گناہوں سے مجتنب اورشریعت کے اوامر کا متبع ہوناچاہئے،اس کیفیت کا نام اصطلاح میں عدالت ہے،کیونکہ اس کیفیت کےپیداہوئے بغیر کسی شخص کی رائے پر اعتماد اوراعتبار نہیں کیا جاسکتا (المستصفی، فی ارکان الاجتہاد: ۲/۳۸۲) اوریہ بات قرین قیاس بھی ہے؛کیونکہ حدیث کے قبول کئے جانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے راوی دینی اعتبار سے قابل اعتبار ہوں، شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہوں،ممنوعات سے بچتے ہوں،راوی دین کے احکام پہونچانے کا کام کرتے ہیں، اورمجتہدین ان روایات کے معتبر اورنامعتبر ہونے کو پرکھتے اوران سے احکام کا اخذ واستنباط کرتے ہیں،خداناترس راویوں کو روایات میں تحریف کے لیے جو موقع حاصل ہے، خشیت سے عاری مجتہدین کے لیے تحریف معنوی کے اس سے زیادہ مواقع ہیں،اس لیے ظاہر ہے کہ مجتہدین کے لیے عدل واعتبار کاحامل ہونا زیادہ ضروری ہے۔ مجتہد کو نتیجہ تک پہونچنے کے لیے درکار وسائل مجتہد کو کسی نتیجہ تک پہونچنے کے لیے جن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ان کو فقہاء نے تحقیق مناط،تخریج مناط اورتنقیح مناط سے تعبیر کیاہے،مناط اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیزلٹکائی جائے۔ "ذات انواط"زمانۂ جاہلیت میں ایسے درخت کو کہاجاتا تھا جس سے اسلحہ لٹکائے جائیں،رسی کو ستون سے باندھنےکو کہاجاتا تھا "نطت الحبل بالوتد"اسی لیےمناط علت کو کہتے ہیں؛ کیونکہ علت ہی سے احکام متعلق ہوتے ہیں(شرح الکوکب المنیر: ۴/۲۰۰)علت کے سلسلہ میں مجتہدکو دوبنیادی کام کرنے پڑتے ہیں،ایک اس بات کی تحقیق کہ شریعت کے کسی حکم کی کیا علت ہے،دوسرے یہ کہ یہ علت کہاں اورکن صورتوں میں پائی جاتی ہے،ان دونوں کاموں کے لیے جو طریق کار اختیار کیاجاتا ہے اس کو تنقیح،تخریج،اورتحقیق سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ تنقیح مناط شریعت میں ایک حکم دیا گیا ہو، اور یہ حکم کس صورت میں ہوگا اس کو بھی بیان کردیا گیا ہو؛ لیکن جو صورت ذکر کی گئی ہو اس میں مختلف اوصاف پائے جاتے ہوں، شارع نے اس خاص وصف کی صراحت نہ کی ہو جو اس صورت میں مذکورہ حکم کی وجہ بنائے،اس کو تنقیح مناط کہتے ہیں،اس کو علامہ شاطبی ؒ نے لکھا ہے کہ تنقیح مناط میں وصف معتبر کو وصف نامعتبر سے ممتاز کیاجاتا ہے۔ (الموافقات: ۳/۲۲۹) عام طور پر اس سلسلے میں یہ مثال ذکر کی جاتی ہے کہ ایک دیہاتی شخص جس نے رمضان کے روزہ میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کفارہ اداکرنے کاحکم فرمایا،اب اس واقعہ میں کئی باتیں جمع ہیں، اس شخص کادیہاتی ہونا، بیوی سے صحبت کرنا،خاص اس سال کے رمضان میں اس واقعہ کا پیش آنا، یہ سب ایسی باتیں نہیں ہیں جو کفارہ کا سبب بن سکتی ہیں ؛بلکہ رمضان المبارک میں قصدًا روزہ توڑنا ہی ایسا وصف ہے جو اس حکم کی اساس بن سکتا ہے،یہی تنقیح مناط ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے"خمر" کوحرام قراردیا ہے،خمر انگوری شراب کو کہتے ہیں،اس میں مختلف خصوصیات موجود ہیں، اس کا انگوری ہونا،میٹھا ہونا،کسی خاص رنگ کا ہونا اور نشہ آور ہونا،مجتہد ین ان تمام اوصاف میں نشہ آور ہونے کی کیفیت کو خمر کے حرام ہونے کی علت قرار دیتے ہیں اور باقی دوسرے اوصاف کو اس کے لیے موثر نہیں مانتے؛غرض مختلف اوصاف میں سے اس خاص وصف کے ڈھونڈ نکالنے کو تنقیح مناط کہتے ہیں ،جو نص میں مذکورہ حکم کےلیے اساس وبنیاد بن سکتے ہیں۔ تخریج مناط نص نے ایک حکم دیا ہو اور اس کی کوئی علت بیان نہ کی ہو،اب مجتہد علت دریافت کرتا ہے کہ اس حکم کی علت کیا ہے؟ اس عمل کا نام تخریج مناط ہے(مذکرۃ اصول الفقہ: ۱/۵۳) مثلاً ارشادخداوندی ہے کہ دوبہنوں کو نکاح میں جمع نہ کیا جائے(النساء:۲۲) حدیث میں بعض اوررشتہ دار عورتوں کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے(مسلم، باب تحریم الجمع الخ، حدیث نمبر:۲۵۱۴)مگر کوئی علت مقرر نہیں کی گئی ہے کہ دونوں بہنوں کو کیوں جمع نہ کیا جائے ،فقہاء نے تلاش و تتبع سے کام لیااوراس نتیجہ پر پہونچے کہ اس کی وجہ سے دومحرم عورتوں کو بیک نکاح میں جمع کرنا ہے؛ لہٰذا کسی بھی دو محرم رشتہ دار عورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا ؛یہی تخریج مناط ہے۔ تنقیح وتخریج میں فرق تخریج مناط اورتنقیح مناط میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے دونوں کامنشاء نصوص میں مذکور حکم کی علت دریافت کرنا ہے ،دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ تنقیح مناط میں مختلف ممکنہ علتوں میں سے ایک کی تعیین ہوتی ہے،جیسے روزہ کے کفارہ میں علت روزہ کی حالت میں جماع بھی ہوسکتاہے اور قصدًا روزہ توڑنا بھی ہوسکتا ہے،شوافع نے جماع کو علت مانا ہے جبکہ احناف نے قصدًا روزہ توڑنے کو علت قراردیا ہے؛ مگرتخریج مناط میں ایسے وصف کو علت بنایاجاتا ہے جس کا اس حکم کے لیے موثر ہونا بالکل بے غبار ہو اور اس میں تنقیح وتہذیب کی ضرورت پیش نہ آئے۔ تحقیق مناط تحقیق مناط کی دوصورتیں ہیں،ایک یہ کہ کوئی متفق علیہ یا نص سے صراحتہ ثابت شدہ قاعدہ شرعی موجود ہو،مجتہد کسی خاص واقعہ میں دیکھتا ہے کہ اس میں یہ قاعدہ موجود ہے یا نہیں ؟ مثلاً محرم کے لیے قرآن مجید نے یہ قاعدہ مقرر کردیا ہے کہ اگر وہ شکار کرے تواسی کے مثل بطور جزاء اداکرے(المائدہ:۹۵) اب مجتہد متعین کرتاہے کہ گائے کا مثل کونسا جانور ہے، جنگلی گدھے کا مماثل کس پالتو جانور کو سمجھا جائے،یہ تحقیق مناط کی پہلی صورت ہے،دوسری صورت یہ ہے کہ نص میں کوئی حکم علت کی صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہو، یااس حکم کے لیے کسی خاص بات کے علت ہونے پراجماع ہے،مجتہد کسی غیر منصوص صورت یا اس صورت میں جس کے متعلق صراحۃ فقہاء کا اجماع موجود نہیں ہے، وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ علت یہاں پر پائی جاتی ہے یا نہیں؟ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کے جھوٹے کو فرمایا کہ ناپاک نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بلی ان مخلوقات میں سے ہے جن کی تم پر بہت زیادہ آمد ورفت ہوتی رہتی ہے۔ (ابوداؤد، باب سؤر الھرۃ، حدیث نمبر: ۶۸) اب مجتہد غورکرتا ہے کہ کیا چوہے وغیرہ میں بھی یہی علت پائی جاتی ہے؟ اورکیا کتے بھی اس زمرہ میں آتے ہیں؟ عام فقہاء چوہے اوراس قسم کے بلوں میں رہنے والی مخلوق کو تو اس حکم میں رکھتے ہیں، کتوں کو اس حکم میں داخل نہیں مانتے، مالکیہ کا خیال ہے کہ یہ علت کتوں میں بھی ہے،اس لیے اس کا جھوٹا بھی پاک ہے، اوراس کے جھوٹے برتنوں کو دھونے کا حکم قیاس کے خلاف امر تعبدی (بندگی کے طور پر حکم بجا لانا) ہے،چوری کی سزاہاتھ کا کاٹاجانا ہے؛لیکن کیا جیب کترا اورکفن چور پر بھی چورکا اطلاق ہوسکتا ہے؟گواہ کے لیے عادل ہونا ضروری ہے؛لیکن فلاں اورفلاں شخص عادل کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟ نشہ حرام ہے،لیکن فلاں فلاں مشروبات کیا نشہ آور اشیاء کے زمرہ میں داخل ہیں یانہیں،یہ سب تفصیلات "تحقیق وانطباق تحقیق مناط" سے متعلق ہیں۔ (اصول الفقہ لابی زھرہ) مجتہد کا دائرہ کار احکام کی علتوں کو دریافت کرنا اور ان کو پیش آمدہ مسائل پر منطبق کرنا اگرچہ مجتہد کا بنیادی کام ہے،لیکن اس سے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس کو صرف اتنا ہی کرنا ہے؛ بلکہ اس کا کام مجمل نصوص کی مراد کو پہونچنا اورمشترک المعنی الفاظ کے مصداق کی تعیین کرنا بھی ہے،عربوں کے استعمال اورمحاورات کے مطابق شارع کی تعبیرات سے معنی اخذ کرنا بھی اس کا فریضہ ہے،حدیثوں کے معتبر یا نامعتبر ہونے کی تحقیق بھی اس کی ذمہ داری ہے، متعارض دلیلوں میں ترجیح و تطبیق سے بھی اس کو عہدہ برآہونا ہے،اس کےعلاوہ اخذواستنباط اوربحث وتحقیق کے نہ جانے کتنے دشوار گذار مراحل سے مجتہد کو گذرناپڑتاہے۔ شرائط اجتہاد کا خلاصہ شرائط اجتہاد کے سلسلہ میں اب تک جتنی معروضات پیش کی گئیں ان کاخلاصہ یہ ہے کہ اجتہاد کے مقام پر فائز ہونے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عملی اعتبار سے شریعت پر کامل یقین رکھتا ہو،اورکردار کے اعتبار سے فاسق و فاجر نہ ہو عملی اعتبار سے ایک طرف اصول فقہ میں عبور ومہارت رکھتا ہو، اوردوسری طرف عربی زبان ولغت اوراسلوب بیان سے پوری طرح آگاہ ہو،زمانہ شناسی عرف وعادت اورمروجہ معاملات ونظام کی واقفیت میں بھی مجتہد کا پایہ بلندہو۔ اسلام کی عملی تاریخ میں جن علماء نے اجتہاد کا فریضہ انجام دیا ہے اورامت میں جن کے اجتہادات کوقبول عام حاصل ہوا ہے یہ سب وہ تھے جو اپنے زہد وتقویٰ میں بھی اوراپنی ذہانت ،دقت نظر ،عمیق فکر اور علم وآگہی میں بھی تاریخ کی ایسی ہی نابغۂ روزگار ہستیاں تھیں، رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ ۔