انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک نئے مذہب کی ایجاد ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ ۲۶۳ھ میں عبدالرحمن بن مروان نے جو اس سے پہلے بھی بغاوتوں میں حصہ لےچکا تھا اور سلطان محمد کی باجا رعایت کے سبب نواح مریدہ میں ایک ذمہ داری کے عہدے پرمامور تھا اعلان بغاوت کیا سلطان محمد نے اس طرف فوج کشی کی تین مہینے کی جنگ وپیکار کے بعد عبدالرحمن بن مروان نے بجائے اس کے کہ اپنے وعدے اور ارادے کے مافق بغداد کی جانب روانہ ہوتا اندلس ہی میں رہ کر ایک نئے مذہب کی ایجاد کی، اس مذہب میں عیسائیت اور اسلام کے اصولوں کو جمع کرکے ترتیب دیاگیا تھا اس جدید مذہب میں بہت سے آوارہ مزاج مسلمان اور عیسائی شامل ہونا شروع ہوئے چونکہ تمام ملک میں خود سری کی ہوا چل رہی تھی لہذا بہت سے واقع پسند لوگ بلا لحاظ مذہب بھی اس کے گرد آآکر جمع ہونے شروع ہوگئے اس طرح صوبہ جلیقیہ وصوبہ پرتگال کی حدود میں ایک خطرناک لشکر حکومت وقت کے خلاف عبدالرحمن بن مروان کی سرداری میں فراہم ہوگیا سلطان محمد نے اس خطرے سے آگا ہوکر اپنے وزیر ہاشم بن عبدالعزیز کو ایک فوج دے کر اس طرف روانہ کیا عبدالرحمن نے ہاشم کو دھوکا دیا اور اس کے سامنےسے فرار ہوتا وہا اپنے تعاقب میں ایک جگہ ہاشم کو لےگیا جہاں کمین گاہ میں فوج چھپی ہوئی بیٹھی تھی اس فوج نے یکایک چاروں طرف سے حملہ آور ہوکر ہاشم کی تمام فوج کو کاٹ ڈالا اور ہاشم گرفتار کرلیاگیا اس سے پہلے عبدالرحمن بن مروان نے انفانسو حاکم ایسٹریاس سے خط وکتابت کرکے دوستی ومحبت کا عہد نامہ لکھدیا تھا تاکہ اس کو عبدالرحمن کی طاقت وقوت کا اندازہ ہوسکے اور محبت ودوستی کے تعلقات اقتوار ہوجائیں سلطان محمد کو جب اپنے وزیر کے گرفتار ہونے کا حال معلوم ہوا تو اس نے عبدالرحمن بن مروان کو ہاشم کی رہائی کی نسبت لکھا،ابن مروان نے ایک لاکھ دینار زر فدیہ طلب کیا چند مہنے تک ہاشم کقید میں رہا اور عبدالرحمن بن مروان وسلطان محمد کے درمیان خط وکتابت ہوتی رہی آخر سلطان محمد نے اس بات کو منظور کرلیا کہ عبدالرحمن شہر بطیلوس اور اس کے نواحی علاقے پر قابض ومتصرف رہے اور اس پر کوئی خراج عائد نہ کیا جائے ،ساتھ ہی زر فدیہ ادا کرکے ہاشم کو چھڑایا جائے؛چنانچہ ہاشم جب چھوٹ کر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا حریف جس نے اس کو قید کرلیا تھا ایک نہایت مضبوط مقام پر خود مختار حاکم ہوگیا ہے اور باج وڑحاج سے بھی بالکل آزاد ہے،ابن خلدون کا بیان ہے کہ وزیر ہشام کی رہائی ڈھائی برس کے بعد ۲۶۵ھ میں ہوئی تھی ۔ غرض عبدالرحمن بن مروان جو ایک معمولی باغی سردار تھا اب اپنے آپ کو سلطان محمد کا ہمسر سمجھنے لگا ،اس نے سلطنت ایسٹریاسے اپنے تعلقات دوستی کو خوب بڑھایا یہ رنگ دیکھ کر ملک کے ہر حصہ میں سرداروں نے بغاوت وسرکشی پر کمر باندھی اور رعب سلطنت خاک میں مل گیا ۔ موسی بن ذی النون گورنر شنت بریہ نے بغاوت اختیار کرکے طلیطلہ پر حملہ کیا کہ اس کو اپنے قبضے میں لائے اہل طلیطلہ نے مقابلہ کرکے اس کو شکست دی اس نے پھر حملہ کیا اور اسطرح ان کی زور آزمائی کا سلسلہ جاری ہوا ادھر اسد بن حرث بن بدیع نے علم بغاوت بلند کردیا۔ سلطان محمد نے شہزادہ منذر کوفوج دے کر موسی بن ذی النون کی طرف بھیجا منذر کئی شہروں اور قلعوں کو فتح کرکےققرطبہ میں واپس آگیا،غرض سلطان محمد کو بغاوتوں کے فرو کرنے اور فوجیں بھیجنے سے ایک روز بھی فرصت نہیں ملی۔ اسی نازک زمانے میں عمر بن حفصون نامی ایک عیسائی نے خاص صوبۂ اندلسیہ یعنی جزیرۂ نمائے اندلس کے جنوبی ومشرقی علاقے کے پہاڑوں میں ڈاکوؤں ایک جمیعیت اپنے گرد فراہم کی،عمربن حفصون گاتھک خاندان کےسربرآوردہ اشخاص میں تھا اس لیے بڑی آسانی سے وہ عیسائیوں اور جراثیم پیشہ لوگوں کو جمع کرسکا،نواح مالقہ میں پہاڑ کے ایک دشوار گزار مقام پر قلعہ بند ہوا تھا اس قلعہ کو عمربن حفصون نے اپنا قرار گاہ بنایا اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری کردیا اردگرد کے شہروں اور قصبہ کے عاملوں نے بار بار اس پر چڑھائیاں کیں مگر ہر مرتبہ شکست یاب ہوئے،آخر۲۶۷ھ میں دارالسلطنت قرطبہ سے ایک زبردست فوج اس کی سرکوبی کو روانہ ہوئی عمربن حفصون نے براہ چالاکی اس فوج کی آمد پر درخواست صلح بھیجی اور اسبات کا وعدہ کیا کہ آئندہ لوٹ مار کرنے سہ باز رہ کر علاقے میں امن وامان قائم رکھےگا ؛چنانچہ اسی شرط پر وہ پہاڑی قلعہ اس کے قبضے میں چھوڑدیا گیا اور امن وامان قائم ہوگیا۔ ۲۶۸ھ میں سلطان محمد نے شہزادہ منذر کو ایک زبردست فوج دے کر شمال کی جانب بھیجا کہ اس طرف کے عیسائی سرکشوں کو سزا دی جائے شمالی ریاستوں اور باغیوں کی حالت جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے یہ تھی کہ جب کوئی زبردست فوج اس طرف جاتی تھی تو اظہار اطاعت کرنے لگتے تھے جب یہ فوج واپس ہوئی پھر تمرد وسرکشی پر قائم ہوگئے؛چنانچہ شہزادہ منذر نے اول سرقسطہ پہنچ کر وہاں کے باغیوں کو درست کیا پھر البہ وقلاع وغیرہ کا رخ کیا اس کے بعد مریدہ کی بد نظمی کو دور کرکے وہاں اسماعیل بن موسی کو ناظم مقرر کیا اور واپس چلاآیا منذر کے واپس ہوتے ہی حاکم برشلونہ نے اسمعیل پر حملہ کیا اسمعیل نے کمال مردانگی سے مقابلہ کرکے اہل برشونہ کو شکست دے کر بھگادیا۔ ۲۷۰ھ میں عمر بن حفصون نے پھر بغاوت اختیار کی اور پہلے سے زیادہ طاقت بہم پہنچاکر علاقہ مالقہ کے امن وامان کو برباد کردیا قرطبہ سے ہاشم بن عبدالعزیز وزیر اعظم ایک فوج لےکر عمر بن حفصون کی سرکوبی کے لیے روثانہ ہوا معرکے ہوئے آخر ہاشم نے سلام وپیام کے ذریعے عمر بن حفصون کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی اور اس کو عمعافی کا وعدہ دے کر اپنے ساتھ قرطبہ چلنے پر رضامند کرلیا عمر بن حفصون وزیر ہاشم کے ساتھ قرطبہ چلاآیا وزیر ہاشم اس کی بہادری دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا اس نے سلطان محمد سے کہہ کر عمر بن حفصون کو افواج سلطانی کا سپہ سالار اعظم مقرر کرادیا۔ اس کے بعد ۲۷۱ھ میں وزیر ہشام عمر بن حفصون کو ایک زبردست فوج کے ساتھ ہمراہ لےکر شمال کی جانب متوجہ ہوا وہاں اہل سرقسطہ پھر باغی ہوگئے تھے اور ریاست ایسٹیاس کی جانب سے خطرات پیدا ہورہے تھے عمر بن حفصون نے ان لڑائیوں میں بڑی شہرت وناموری حاصل کی ، اہل سرقسطہ اور عیسائیان ایسٹریاس کو پہیم شکستیں دے کر اور خراج وصول کرکے یہ دونوں واپس ہوئے عمر بن حفصون کو حکومت اسلامیہ کی سپہ سالاری کچھ پسند نہ آئی کیونکہ اس طرح وہ اپنی امیدوں کو کہ دوبارہ گاتھک حکومت قائم ہوجائے پورا نہیں کرسکتا تھا چنانچہ راستے ہی سے وہ فرار اور وزیر ہاشم سے جدا ہوکر بھاگا اور سیدھا اپنے اسی پرانے قلعے میں پہنچ کر مضبوط ہو بیٹھا اس قدیمی دوست اور پرانے رفیق پھرآآکر اس کے گرد جمع ہوگئے ادھر عمر بن حفصون نے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر نواح سالقہ میںخود مختار انہ حکومت شروع کی ادھر عبدبالرحمن بن مروان نے جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے اشبیلیہ اور اس کے نواحی علاقے میں لوٹ مار شروع کردی سلطان محمد نے اشبیلیہ کی طرف اپنے بیٹے منذر اور وزیر ہاشم کو فوج دے کر بھیجا اور عمر بن حفصون کو اپنی حکومت وریاست قائم کرنے کے لیے نہایت قیمتی صورت مل گئی ،وہاں اشبیلیہ کے نواح میں دوسال تک جنگ وپیکار کاسلسلہ جاری رہا آخر ۲۷۲ میں عبدالرحمن من مروان کو تھوڑا سا علاقہ اور دے کر صلح کرلی گئی اور اس طرف ہنگامہ آرائی ختم ہوئی۔ اس کے بعد شہزادہ منذر کو عمر بن حفصون کی طرف بھیجاگیا ،عمر بن حفصون جب سے سپہ سالاری چھوڑکر آیا تھا پہلے کی نسبت زیادہ شائستہ اور مآل اندیش بن گیا تھا، اس نے دربار قرطبہ اور وزیر ہاشم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور اس مرتبہ آکر بجائے ایکڈاکو اور رہزن کےوہ ایک فرماں روا اور والیٔ ملک کی حیثیت میں نمودار ہوا اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جس قدر حصہ ملک پر اس کا قبضہ تھا اس میں چوری اور ڈاکہ زنی کا بالکل انسداد کردیا اور رہزنوں ،چوروں اور ظالموں کو نہایت عبرت ناک سزائیں دیتا اور بالخصوص اپنے سپاہیوں اور فوجی سرداروں کو تو قطعاً رعایا پر ظلم نہ کرنے دیتا اس کا اثر اس کی حکومت اور طاقت بڑھانے کا موجب ہوا اور یہی وہ گر تھا جو عمر بن حفصون دربار قرطبہ سے یاد کرکے آیا تھا ،آج کل رعب سلطنت کے باقی نہ رہنے سے ملک میں ہر طرف بدامنی کا دور دورہ تھا او رایسی حالت میں رعایا کے جان ومال کا محفوظ نہ ہونا یقینی بات تھی ،لیکن بخلاف اس کے عمر بن حفصون نے اپنے چھوٹے سے مقبوضے میں جس پر وہ غاصبانہ اور باغیانہ طور پر قابض ومتصرف تھا قابل رشک امن وامان قائم رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کی آبادی کو اس کے ساتھ محبت اور اردگرد کے علاقوں کو بھی اس سے ہمدردی پیدا ہوگئی۔