انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تراجمِ حدیث ترجموں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پربڑا احسان فرمایا کہ ملکِ عرب میں ایک پیغمبر انہی میں سے مبعوث فرمایا جس نے انہیں اللہ کی آیات سنائیں، اپنے فیضِ صحبت سے ان کے دلوں کوپاکیزگی بخشی اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دی، واقعی وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں گھرے ہوئے تھے۔ آپ کے اصحاب آپ کے فیضِ صحبت سے تزکیہ کی دولت پاگئے، اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیئے کلمہ تقویٰ اور پرہیزگاری لازمی کردی اور بے شک وہی اس کے زیادہ حقدار اور اہل تھے اور اللہ تعالیٰ ہرآئندہ چیز کوبھی جاننے والے ہیں۔ قرآن کریم حضورﷺ پرعربی میں نازل ہوا، حضورﷺ کی اپنی زبان عربی تھی، آپ کی احادیث اور تعلیمات سب عربی میں ہوتی تھیں؛ لیکن چونکہ آپ کا دین عالمگیر تھا اور آپ کی دعوت کل اطرافِ عالم اور جملہ اقوام واُمم کوشامل تھی، اس لیئے ضروری تھا کہ غیرعرب قوموں کودین کی دعوت ان کی اپنی زبان میں دی جائے، انہیں دین کواپنی زبان میں سمجھنے کی جملہ سہولتیں مہیا کی جائیں جولوگ اس دعوتِ حق کوقبول کرلیں، انہیں پھرعربی قرآن پڑھایا جائے، عربی نماز سکھائی جائےکیونکہ عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے؛ لیکن اس کے علاوہ انہیں دین سیکھنے کے جملہ مواقع ان کی اپنی زبانوں میں بہم پہنچائے جانے چاہئیں، اس غرض سے ترجموں کی ضرورت محسوس ہوئی اور دین کی دعوت اور تعلیم ان قوموں کی اپنی زبانوں میں اُترنی شروع ہوئی، یہ غلط ہے کہ علماء کرام ابتداء میں ترجمہ کرنے کی اجازت کے خلاف تھے، علم سیکھنا ایک فطری طلب ہے اور علماء اسلام طلب کے فطری تقاضوں سے آنکھیں بند نہ کرسکتے تھے، یہ صحیح ہے کہ اسلام کی سرکاری زبان عربی ہے، ہرعربی، عجمی،زنگی، افرنگی، اسلام کا کلمہ، نماز وغیرہ سب عربی میں ہی سیکھتےاور پڑھتے ہیں؛ لیکن جہاں تک دین کی عام تعلیمات کا تعلق ہے انہیں کسی بھی زبان میں جانا اور سمجھا جاسکتا ہے اور یہ صحیح ہے کہ علم کی اپنی کوئی زبان نہیں، علم ہرزبان کا لباس پہن سکتا ہے، اسلام کی تعلیمات ہرزبان اور ہرماحول میں ڈھل سکتی ہیں اور اسے ہرخطۂ ارضی کی ضرورت کے مطابق کسی زبان میں بھی ترجمہ کیا جاسکتا ہے، اسلام میں اس کی پوری گنجائش موجود ہے۔ مدینہ کے مضافات میں رہنے والے یہود گوعربی زبان بولتے تھے؛ لیکن اپنی اسرائیلی زبان (عبرانی) کا بھی پورا تحفظ کرتے تھے، جب لکھتے توعبرانی میں ہی لکھتے، آنحضرتﷺ نے جب انہیں کوئی خط لکھنا ہوتا تواسے عبرانی میں ہی لکھواتے، آپ نے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کوعبرانی سیکھنے کا حکم دیا اور انہوں نے پندرہ دن میں مہارت پیدا کرلی تھی آپ کہتے ہیں: "أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَعَلَّمْتُ لَهُ كِتَابَ يَهُودَ وَقَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَاآمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِي فَتَعَلَّمْتُهُ فَلَمْ يَمُرَّ بِي إِلَّانِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى حَذَقْتُهُ فَكُنْتُ أَكْتُبُ لَهُ إِذَاكَتَبَ وَأَقْرَأُ لَهُ إِذَاكُتِبَ إِلَيْهِ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب رِوَايَةِ حَدِيثِ أَهْلِ الْكِتَابِ،حدیث نمبر:۳۱۶۰،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آنحضرتﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپ کے لیئے یہود کی کتابت سیکھوں اور فرمایا مجھے اپنے خطوط کے سلسلہ میں یہودیوں کی کتابت پراعتماد نہیں؛ پس میں نے سیکھنا شروع کیا، نصف مہینہ گزرنے نہ پایا تھا کہ میں نے اس میں مہارت پیدا کرلی؛ چنانچہ میں آپ کی طرف سے یہود کولکھا کرتاتھا اور جب آپ کی طرف خط آتے تومیں آپ کوپڑھ کرسنادیتا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری زبانوں میں ترجموں کا آغاز خود عہدِرسالت میں ہی ہوگیا تھا اور آپ نے خود اس کی تعلیم دی تھی؛ آنحضرتﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن عباسؓ جب حدیث کا درس دیتے توابوجمرہ نصر بن عمرانؒ تابعی کواپنے ساتھ تخت پربٹھاتے، ابوجمرہ مترجم کے فرائض انجام دیتے اور عربی سے فارسی میں ترجمہ کرتے تھے (فضل الباری:۱/۵۴۹) حضرت عبداللہ بن عباسؓ بصرہ میں مقیم تھے، بصرہ کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں ترجمہ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہوگی اور صحابہ کرامؓ اس اصولی ضرورت سے بے خبر نہ تھے، حضرت ابن عباسؓ نے اسی لیئے اپنے ساتھ مترجم بٹھایا تھا۔ غیرعرب ملکوں میں ایران پہلا ملک ہے جواسلام کے جھنڈے تلے آیا اور فارسی پہلی زبان ہے جس میں قرآن وحدیث کے پہلے ترجمے ہوئے، حضرت سلمان فارسیؓ نے سورۂ فاتحہ کا پہلا فارسی ترجمہ کیا، جسے ایرانی لوگ اس وقت تک جب تک کہ ان کی زبانیں عربی سے آشنا نہ (مانوس) ہوگئیں نماز میں پڑھتے تھے، علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "فَكَانُوا يَقْرَءُونَ ذَلِكَ فِي الصَّلَاةِ حَتَّى لَانَتْ أَلْسِنَتُهُمْ لِلْعَرَبِيَّةِ"۔ (المبسوط:۱/۳۷) ترجمہ:سووہ اس فارسی ترجمے کونماز میں پڑھتے تھے؛ یہاں تک کہ ان کی زبانیں عربی سے مانوس ہوگئیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی فارسی زبان جانتے تھے۔ (دیکھئے:مسندامام احمد:۵/۱۸۲)