انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بلادِروم پرحملہ مذکورہ بالاتبادلہ اسیران کے بعد رومیوں نے پھربدعہدی کی اور اسلامی شہروں پراچانک حملہ کرکے بہت سے مسلمانوں کوگرفتار کرکے لے گئے، مسلمان سرداروں نے رومیوں کا تعاقب کیا؛ مگرناکام واپس آئے، اس کے بعد خلیفہ متوکل نے علی بن یحییٰ کولشکر صائفہ کے ساتھ بلادِ روم پرجہاد کرنے کوروانہ کیا اور سنہ۲۴۴ھ میں خود دارالخلافہ کوچھوڑ کردمشق میں آیا اور دمشق میں قیام کرکے بلادِروم پرفوجیں بھیجنے اور حملہ روم کوکامیاب بنانے میں مصروف رہا، خلیفہ کے ہمراہ دمشق میں تمام اراکینِ سلطنت آگئے اور دفاتر شاہی بھی دمشق میں آگئے؛ کیونکہ خلیفہ کا ارادہ مستقل طور پردمشق ہی میں قیام کرنے کا تھا؛ ابھی خلیفہ کودمشق میں آئے ہوئے صرف دوہی مہینے گزرے تھے کہ وہاں وبا پھوٹ نکلی اور خلیفہ کومجبوراً دمشق سے بغداد آنا پڑا، دمشق سے روانگی کے وقت متوکل علی اللہ، بغاکبیر کوایک لشکر عظیم کے ساتھ بلادِ روم پرحملہ کرنے کے لیے روانہ کرآیا، بغاکبیر نے بلادِ روم میں داخل ہوکر ہرطرف قتل کا بازار گرم کردیا، بہت سے قلعے فتح کیے اور رومیوں کوبے دریغ تہ تیغ کرنے اور اسیر بنانے میں کمی نہیں کی۔ جب رومیوں نے الامان الامان کی آوازیں بلند کیں اور اپنی خطاؤں کی معافی چاہی توبغاکبیر خلیفہ کے حکم سے واپس آیا، سنہ۲۴۵ھ میں رومیوں نے پھربدعہدی کی اور موقع پاکر مسلمانوں کے شہروں کولوٹ کربھاگ گئے، اس کے جواب میں علی بن یحییٰ نے بلادِ روم پرحملہ کیا اور خوب لوٹ مارکرکے واپس ہوا، سنہ۲۴۶ھ میں رومیوں نے پھرمسلمانوں کوتنگ کیا اور سرحدی مقامات کولوٹ کرویران کردیا، اب کی مرتبہ خلیفہ متوکل نے خشکی اور تری کی راہوں سے مختلف مقامات اور مختلف سمتوں سے بلادِ روم پرحملہ آوری کے لیے فوجیں متعین کیں، ان بحری وبری فوجوں نے بلادِ روم میں ایک زلزلہ پیدا کردیا، رومیوں نے پھرمعافی چاہی اور صلح کے خواہشمند ہوئے، مسلمانوں نے بہ خوشی اس درخواست صلح کومنظور کرلیا اور نہرلامس پرپھرقیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا، اس مرتبہ دوہزار تین سوقیدی سنہ۲۴۶ھ میں چھڑائے گئے۔