انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نکاح تمہید warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. فقہ کے دوحصے ہیں ایک عبادات دوسرامعاملات،عبادات:اس حصہ کو کہتے ہیں جس میں مکلف (انسان) کے ان افعال واعمال سے بحث کی جاتی ہے جو شریعت کی طرف سے عبدو معبود کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لیے دیےگئے ہوں جیسے نماز ، روزہ وغیرہ۔ معاملات:اس حصہ کو کہتے ہیں جس میں مکلف (انسان) کے ان افعال و اعمال سے بحث کی جاتی ہے جو شریعت کی طرف سے بندوں کے آپسی تعلق پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہوں جیسے خرید و فروخت وغیرہ۔ ان دونوں کے علاوہ بعض امور ایسے ہیں جن میں مذکورہ دونوں پہلو ہیں یعنی ان میں عبادات کی بھی شان موجود ہے اور معاملات کی بھی، جیسے نکاح اس حیثیت سے کہ سرور انبیاء ﷺ کی سنت ہے اوراس کی ترغیب قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہے اور اس کے ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے جو عبد اور معبود کے تعلق کا نتیجہ ہے اس حیثیت سے یہ عبادات میں داخل ہے اور اس حیثیت سے کہ اس فعل کی وجہ سے دو بندوں یعنی میاں بیوی ؛بلکہ دو خاندانوں میں آپسی تعلق پیدا ہوجاتا ہے اس لحاظ سے وہ معاملات میں داخل ہے۔ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عبادات کے بعد اورمعاملات سے پہلے ایسے دو پہلو والے افعال کا ذکر کیا جائے اورچونکہ ان تمام افعال میں نکاح کے مصالح اورفوائد دینی و دنیوی بہت زیادہ ہیں اس لیے اس کا ذکر سب سے پہلے کیا جارہا ہے۔حوالہ كِتَابُ النِّكَاحِ ذَكَرَهُ عَقِبَ الْعِبَادَاتِ الْأَرْبَعِ أَرْكَانِ الدِّينِ ؛ لِأَنَّهُ بِالنِّسْبَةِ إلَيْهَا كَالْبَسِيطِ إلَى الْمُرَكَّبِ ؛ لِأَنَّهُ عِبَادَةٌ مِنْ وَجْهٍ مُعَامَلَةٌ مِنْ وَجْهٍ(رد المحتار كتاب النكاح:۱۷۹/۹) بند حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے اس آخری دین تک کوئی شریعت نکاح سے خالی نہیں رہی یعنی مرد و عورت کا ایک خاص معاہدہ آپسی جوڑ کے لیے ہر شریعت میں ہوتا تھا اور بغیر اس خاص معاہدہ کے مرد و عورت کا آپسی تعلق کسی شریعت نے جائز نہیں رکھا، البتہ اس معاہدہ کی صورتیں شریعتوں میں مختلف رہیں اوراس کے شرائط وغیرہ میں تبدیلی ہوتی رہی۔ حوالہ اعلم أن أصول فن تدبير المنازل مسلمة عند طوائف العرب والعجم لهم اختلاف في أشباحها وصورها۔ (حجۃ اللہ البالغۃ،باب تدبیر المنزل:۱/۶۸۰) بند