انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت زید بن حارثہ ؓ نام،نسب زید نام،ابواسامہ کنیت،حب رسول اللہ(ﷺ )لقب،والد کا نام حارثہ اوروالدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ تھا،پورا سلسہ نسب یہ ہے،زید بن حارثہ بن شرجیل بن کعب ابن عبدالعزیٰ بن امراء القیس بن عامر بن نعمان بن عامربن عبدودبن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللاث بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن دبرہ بن ثعلب بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ۔ ابتدائی حالات گذشتہ بالانسب سے ظاہر ہواہوگا کہ حضرت زید ؓ کے والد حارثہ بنی قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا، ان کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ بنی معن سے تھیں جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی، وہ ایک مرتبہ اپنے صغیر السن بچے حضرت زید ؓ کو ساتھ لے کر اپنے میکہ گئیں،اسی اثناء میں بنوقین کے سوار جوغارتگری سے واپس آرہے تھے اس نونہال کو خیمہ کے سامنے سےاٹھالائے اورغلام بناکر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا،ستارہ اقبال بلند تھا، غلامی میں بھی سیادت مقدر تھی،حکیم بن حزام نے چارسودرہم میں خرید کر اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ کی خدمت میں پیش کیا،جن کی وساطت سے سروردوعالم ﷺ کی غلامی کا شرف نصیب ہوا جس پر ہزاروں آزادیاں اور تمام دنیا کی شاہنشاہیاں قربان ہیں۔ (طبقات ابن سعد جلد ثانی قسم اول صفحہ ۲۷) حضرت زید ؓ کے والد حارثہ بن شرجیل کو قدرۃ اپنے لخت جگر کے گم ہوجانے کاشدید غم ہوا،آنکھوں سے سیل اشک بہائے، دل آتشِ فراق سے بھڑک اُٹھا اورمحبت پدری نے الفاظ کی رنگ آمیزی سے اس طرح اس رنج والم کا نقشہ کھینچا: بکیت علی زید ولم اورمافعل أ حیٌّ فیرجی ام اتی دونہ الاجل میں نے زید پر گریہ وزاری کی لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیا ہوگیا،آیا زندہ ہے جس کی امید رکھی جائے یا اسے موت آگئی۔ فواللہ ماادری وان کنت سائلا اغالک سھل الارض ام غالک الحیل خدا کی قسم میں جانتا ہوں اگرچہ پوچھتا بھی ہوں کہ کیا تجھے نرم زمین نگل گئی یا پہاڑ کھاگیا؟ فیالیت شعری ھل لک الدھررجعۃ نحسبی من الدنیا رجوعک لی بحل کاش ! میں جانتا کہ آیا تیراآنا کبھی ممکن ہے؟پس تیرا واپس آنا ہی میرے لیے دنیا میں کافی ہے۔ تذکرینہ الشمس عند طلوعھا وتعرض ذکراہ اذا قارب الطفل آفتاب اپنے طلوع ہونے کے وقت اس کو یاد دلاتا ہے اورجب غروب کا وقت قریب آجاتا ہے تو اس کی یاد کو پھر تازہ کردیتا ہے۔ وان ھبت الارواح ھیجن ذکرہ فیاطول ماحزنی علیہ وپاوجل بادبہاری کی لپٹ اس کی یاد کو برانگخیتہ کردیتی ہے،آہ! مجھے اس پر کس قدر شدید رنج و الم ہے۔ ساعمل نصر العیش فی الارض جاھدا ولااسام التطواف اوتسام الابل عنقریب میں اونٹ کی طرح چل کر تمام دنیا چھان ماروں گا،میں اس آوارہ گردی سے اپنی زندگی بھر نہیں تھکوں گا یہاں تک کہ اونٹ تھک جائے گا۔ حیاتی اوتاتی علی منتی وکل امر عفانٍ وان غرہ الاصل یا مجھ پر موت آجائے،ہر آدمی فانی ہے،اگرچہ سرابِ امید اسے دھوکا دے۔ واوصی بہ قیسا وعمرا کلیھما واوصی یزید ثم من بعدھم جبل میں قیس اور عمردونوں کو اس کے جستجو کی وصیت کرتا ہوں،اوریزید کو پھر ان کے بعد جبل کو وصیت کرتا ہوں۔ جبل سے مراد جبلہ بن حارثہ ہیں جو حضرت زید ؓ کے بڑے بھائی تھے اور یزید ان کے اخیافی بھائی تھے۔ ایک سال بنی کلب کے چند آدمی حج کے خیال سے مکہ آئے تو انہوں نے اسی یوسف گم گشتہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اوریعقوب صفت باپ کا ماجرائے غم کہہ سنایا، بولے"یقیناً انہوں نے میری فرقت میں نوحہ خوانی کی ہوگی،تم میری طرف سے میرے خاندان والوں کو یہ اشعار سنادینا۔ احن الی قومی وان کنت نائیا بانی قطین البیت عندالمشاعر میں اپنی قوم کا مشتاق ہوں گو ان سے دور ہوں،میں خانہ کعبہ میں مشعر حرام کے قریب رہتا ہوں نکفوامن الوجدالذی قدشماکم ولاتعملوافی الارض نص الاباعر اس لیے اس غم سے باز آجاؤ، جس نے تم کو پرالم بنا رکھا ہو اوراونٹوں کی طرح چل کر دنیا کی خاک نہ چھانو۔ فانی بحمداللہ فی خیر اسرۃ کدام معدِ کابرابعد کابر الحمداللہ کہ میں بنی بعد کے ایک معزز اور اچھے خاندان میں ہوں جو پشتہا پشت سے معزز ہے۔ بنی کلب کے زائروں نے واپس جاکر ان کے والد کو اطلاع دی تو تعجب سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اوروفوریاس نے یک بیک یقین نہ ہونے دیا"بولے" رب کعبہ کی قسم کیا میرا ہی نور نظر تھا؟ ان لوگوں نے جب تفصیل کےساتھ حلیہ، جائے قیام اورمربی کے حالات بیان کئے تو اسی وقت اپنے بھائی کعب بن شرجیل کو ہمراہ لے کر مکہ کی طرف چل کھڑے ہوئے اور حضرت سرورِ کائنات ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بصد منت ولجاجت عرض کیا اے ابن عبداللہ! اے ابن عبدالمطلب!اے اپنی قوم کے رئیس زادہ!تم اہل حرم اوراس کے مجاور ہو،مصیبت زدوں کی دستگیری کرتے ہو،قیدیوں کو کھانا دیتے ہو، ہم تمہارے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ ہمارے لڑکے کو آزاد کرکے ہم کو رہینِ منت بنادو،زرِ فدیہ جس قدر چاہولو، ہم بیش قرار معاوضہ دینے کو تیار ہیں، ارشاد ہوا،وہ کون ہے بولے"زید بن حارثہ ؓ! آنحضرت ﷺ نے حضرت زید کا نام سنا تو ایک لمحہ تفکر کے بعد فرمایا، کیا اس کے سوا تمہاری کوئی اورحاجت نہیں؟ عرض کیا"نہیں" فرمایا،بہتر یہ ہے کہ زید ؓ کو بلاکر اختیار دو،اگروہ تمہیں پسند کرے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے ترجیح دے تو خداکی قسم میں ایسا نہیں ہوں کہ اپنے ترجیح دینے والے پر کسی کو ترجیح دوں، حارثہ اورکعب نے اس شرط پر شکریہ کے ساتھ رضا مندی ظاہر کی،حضرت زید ؓ بلائے گئے،آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا، تم ان دونوں کو پہچانتے ہو؟عرض کیاہاں!یہ میرے باپ اورچچا ہیں،آپ نے ان کے ہاتھ میں قرعہ انتخاب دے کر فرمایا،میں کون ہوں؟اس سے تم واقف ہو،میری ہم نشینی کا حال بھی تم کو معلوم ہے،اب تمہیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو،حضرت زید ؓ کو شاہنشاہِ کونین ؓ کی غلامی میں جو لطف ملاتھا اس پر صدہا آزادیاں نثار تھیں، بولے میں ایسا نہیں ہوں جو حضور ﷺ پر کسی کو ترجیح دوں،آپ ﷺ ہی میرے ماں باپ ہیں،حضرت زید ؓ کی اس مخلصانہ وفاشعاری نے ان کے باپ اورچچا کو محوِ حیرت کردیا،تعجب سے بولے ،زید ؓ،افسوس تم آزادی،باپ چچا اورخاندان پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو، فرمایا،ہاں! مجھے اس ذات پاک میں ایسے ہی محاسن نظر آئے ہیں کہ میں اس پر کسی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتا۔ حضرت زید ؓ نے اپنی غیر متزلزل وفاشعاری سے آقائے شفیق کے دل میں محبت کی دبی ہوئی چنگاری کو مشتعل کردیا،آنحضرت ﷺ نے خانہ کعبہ میں مقام حجر کے پاس ان کو لے کر اعلان فرمایا کہ،زید آج سے میرا فرزند ہے، میں اس کا وارث ہوں گا،وہ میرا وارث ہوگا، اس اعلان سے ان کے باپ اورچچا کے افسردہ دل گل شگفتہ کی طرح کھل گئے گو والد کو مفارقت گوارانہ تھی؛ تاہم اپنے لختِ جگر کو ایک شفیق و معزز باپ کے آغوشِ عاطفت میں دیکھ کر اطمینان ہوگیا اوراطمینان ومسرت کے ساتھ واپس گئے۔ اس اعلان کے بعد حضرت زیدؓحضرتﷺ ہی کے انتساب کے ساتھ زید بن محمد کے نام سے زبان زد عام وخاص ہوئے،یہاں تک کہ جب اسلام کا زمانہ آیا اور قرآن پاک کی الہامی زبان نے صرف اپنےنسبی اٰباء کے ساتھ انتساب کی ہدایت فرمائی تو وہ پھر حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ مشہور ہوئے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ ۲۷ تا ۲۹) اسلام آنحضرت ﷺ کو خلعت نبوت عطا ہوا تو حضرت زید ؓ نے ابتدا ہی میں شرفِ بیعت حاصل کیا، محققین کا فیصلہ ہے کہ وہ غلاموں میں سب سے پہلے مومن تھے، حضرت حمزہ ؓ ایمان لائے تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے بھائی چارہ کرادیا،ان دونوں میں اس قدر محبت ہوگئی تھی کہ حضرت حمزہ ؓ غزوات میں تشریف لے جاتے تھے تو ان ہی کو اپنا وصی بنا کر جاتے تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث تذکرہ حمزہ ؓ) شادی حضرت ام ایمنؓ آنحضرت ﷺ کی آیا اورکنیز تھیں،آپ ﷺ ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے،اوراماں کہہ کر مخاطب فرماتے تھے،ایک روز آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کو ام ایمن ؓ سے نکاح کرنا چاہئے،حضرت زیدؓ نے جو رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، ان سے نکاح کرلیا،چنانچہ حضرت اسامہ بن زید ؓ جو اپنے والد کے بعد حب رسول اللہ ﷺ کے لقب سے مشہور ہوئے،ان ہی کے بطن سے مکہ میں پیدا ہوئے۔ (ایضاً صفحہ ۳۰) ہجرت مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آنحضرت ﷺ کی طرح یہ بھی حضرت کلثوم بن ہدم ؓ کے مہمان ہوئے، حضرت اسید بن حضیر ؓ انصاری جو قبیلہ عبدالاشہل کے معززرئیس تھے، ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے،وہ اب تک خاندانِ نبوت کے ایک ممبر کی طرح آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے تھے،لیکن یہاں پہنچ کر آپﷺ نے ان کے لیے ایک علیحدہ مکان مخصوص فرمادیا اوراپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش ؓ سے نکاح کردیا، اس طرح درحقیقت یہ دوسرا طرۂ افتخار تھا جو حضرت زید ؓ کے دستار فضل پر نصب ہوا،لیکن یہ نکاح زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا، نسبی وخاندانی عدم توازن نے دونوں کے سطح مزاج میں نشیب وفراز پیدا کردیا، حضرت زید ؓ نے دربارِ نبوت میں بار بار ناموافقت کی شکایت کی اوربالآخر طلاق دینے پر مجبور ہوگئے،انقضائے عدت کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت زید ؓ کی معرفت پیام نکاح بھیجا تو انہوں نے کہا،جب تک خدا کی طرف سے کچھ حکم نہ آئے میں کچھ نہیں کرسکتی،چنانچہ اس کے بعد ہی اس آیت نے ان کو امہات المومنین میں داخل کردیا۔ (طبقات ابن سعد جزو ۳ قسم اول صفحہ ۳۰) فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا جب زید ؓ نے حاجت پوری کی تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا حضرت زید ؓ چونکہ آنحضرت ﷺ کے متبنیٰ اورزید بن محمد کے نام سے مشہور تھے اس لیے منافقین نے اس واقعہ کو نہایت ناگوار پیرایہ میں شہرت دی اورکہنے لگے،محمد ایک طرف تو بہو سے نکاح کرنا حرام قراردیتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے لڑکے زیدؓ کی بیوی سے نکاح کرتے ہیں لیکن قرآن پاک نے اس مفسدہ پردازی کا اس طرح پردہ فاش کردیا۔ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (الاحزاب:۴۰) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ؛بلکہ وہ خدا کے رسول اورانبیاء کی مہر ہیں اورمسلمانوں کو حکم ہوا۔ اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَائہِمْ ہُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ (الاحزاب:۵) لوگوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو،یہ خدا کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی وہ اپنے والد حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ ؓ مشہور ہوئے۔ (بخاری کتاب التفسیر) غزوات حضرت زید ؓ تیر اندازی میں مخصوص کمال رکھتے تھے، ان کا شمار ان مشاہیر صحابہ میں تھا جو اس فن میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے،معرکۂ بدر سے غزوۂ موتہ تک جس قدر اہم وخون ریز معرکے پیش آئے سب میں پامردی وشجاعت کے ساتھ شریکِ کارزار ہوئے،غزوۂ مریسیع میں چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مدینہ میں اپنی جانشینی کا فخر بخشا اس لیے اس مہم میں حصہ نہ لے سکے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی) متفرق کارنامے مشہور معرکوں کے علاوہ اکثر چھوٹی چھوٹی مہمات خاص ان کی سپہ سالاری میں سرہوئیں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جس فوج کشی میں زید ؓ شریک ہوتے تھے، اس میں امارت کا عہدہ ان ہی کو عطا ہوتا تھا،(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ ۳۱)اس طرح نودفعہ سپہ سالاربناکر بھیجے گئے،(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ ۳۱) ان مہمات میں سے پہلی مہم سریہ قردہ تھی جس میں انہوں نے غنیم کو نہایت کامیابی کے ساتھ شکست دی،اوربہت سے اونٹ،مال واسباب اوردشمن کے ایک سردار فرات بن حیان عجلی کو گرفتار کر کے لائے۔ (طبقات حصہِ مغازی باب سریہ قروہ صفحہ ۲۴) ربیع الثانی۶ھ میں بنی سلیم کی سرکوبی پر مامور ہوئے جو مقام جموم میں مسکن گزین تھے، اس مہم میں بھی حضرت زید ؓ کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی،بہت سے اونٹ بکریاں اورقیدی پکڑ کر لائے۔ (ایضاً سریہ جموم صفحہ۶۲) اسی سال قریش کے ایک قافلہ کو جو شام سے واپس آرہا تھا روکنے کا حکم ہوا،حضرت زید ؓ ایک سوسترسواروں کے ساتھ یکایک مقام عیص میں اس قافلہ پر جا پڑے اورتمام اہل قافلہ کو مع سامان گرفتار کرلائے، مال غنیمت میں چاندی کا ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا جو صفوان بن امیہ کے لیے شام سے آرہا تھا،قیدیوں میں ابو العباس بن الربیع آنحضرت ﷺ کے داماد بھی تھے،جنہوں نے اپنی اہلیہ اورحضرت سرورِ کائنات ﷺ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کی پناہ حاصل کرکے مخلصی پائی۔ (طبقات حصہ مغازی باب سریہ عیص : ۶۳) اسی سال ماہ جمادی الثانیہ میں مقام طرف پر حملہ آوار ہوئے،لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی کیونکہ غنیم پہلے ہی خائف ہوکر بھاگ گیا تھا،(طبقات حصہ مغازی باب سریہ طرف صفحہ ۶۳)اس کے بعد مقام حسمیٰ پر فوج کشی ہوئی،پانچ سوجانباز مجاہدان کے زیرکمان تھے،حضرت زید ؓ احتیاط کے خیال سے دن کو پہاڑوں میں چھپ جاتے تھے اوررات کو یلغار کرتے ہوئے قطع منازل کرتے تھے،یہاں تک کہ ایک روز یکایک غنیم پر جاپڑے،ھنیذاوراس کے خاندان کو جس نے دحیہ کلبی ؓ کو قسطنطنیہ کی سفارت سے واپس آتے وقت لوٹ لیا تھا، تہِ تیغ کیا اورایک ہزار اونٹ ،پانچ ہزار بھیڑ بکریاں اوربہت سے قیدی گرفتار کرکے زید بن رفاعہ کے ساتھ دربارِ نبوت میں ارسال کیے، چونکہ اس قوم کے ایک ممبر ابویزید بن عمرو نے دوراندیشی سے پہلے ہی پہنچ کر اسلام قبول کرلیاتھا ،اس لیے ان کی سفارش پر تمام قیدی رہا کردئے گئے، اورمالِ غنیمت واپس کردیا گیا،(ایضاً صفحہ ۶۳،۶۴) پھر اسی سال ماہِ رجب میں وادی قری کی مہم پر بھیجے گئے اورکامیابی کے ساتھ واپس آئے۔ ماہ رمضان المبارک ۶ھ میں حضرت زید ؓ ایک اسلامی کاروانِ تجارت کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا بہت ساسامانِ تجارت ان کے ساتھ تھا،مدینہ سے سات منزل دوروادیِ قری کے نواح میں پہنچےتو بنی بدر کی ایک رہزن وغارت پیشہ جماعت نے تمام قافلہ کو لوٹ لیا اورکلمہ گویانِ توحید کو سخت اذیتیں پہنچائیں،حضرت زید ؓ بمشکل جان بچا کر مدینہ واپس آئے اوردربارِ نبوت میں اس واقعہ کی اطلاع دی،چونکہ اس قسم کے متعدد واقعات پیش آچکے تھے، اس لیے حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے ان کو ایک جمعیت کے ساتھ اس قبیلہ کی سرکوبی پر مامورفرمایا، حضرت زید ؓ کمال احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتے ہوئے ااوررات کو یلغارکرتے ہوئے یکایک ان ڈاکوؤں پر جاپڑے اورقرارواقعی سزادےکر مدینہ واپس آئے،انہوں نے آستانہ نبوت پر پہنچ کر دستک دی توآنحضرت ﷺ جس حالت میں تھے اسی حالت میں باہر تشریف لے آئے اورجوشِ مسرت سے گلے لگاکر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا،اوردیر تک مفصل کیفیت دریافت فرماتے رہے۔ (طبقات ابن سعد حصہِ مغازی سریہ زیدالی ام القریٰ : ۶۵) مہم موتہ اورشہادت موتہ دمشق کے قریب ایک مقام کانام تھا، حضرت حارث بن عمیر ازدی ؓ جو شاہِ بصریٰ کے دربار میں سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آرہے تھے، اسی مقام پر شرجیل ابن عمرغسانی کے ہاتھ سے شہید ہوئے،یہ پہلا موقعہ تھا کہ دربارِ رسالت کے ایک قاصد کے ساتھ اس قسم کی جسارت کی گئی،(ایضاً باب غزوۂ موتہ) آنحضرت ﷺ نے ان کے انتقام کے لیے تین ہزار مجاہدین کی جمعیت فراہم کرکے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو لوائے قیادت عطا کیا اورفرمایا اگر زید ؓ شہید ہوں تو جعفر ؓ اوران کے بعد عبداللہ بن رواحہ ؓ اس جماعت کے امیر ہوں گے،(بخاری باب غزوۂ موتہ )حضرت جعفر ؓ چونکہ اپنے مخصوص تعلقات کی بنا پر متوقع تھے کہ امارت کا طغرائے امتیاز ان کے سینہ پر آویزاں ہوگا اس لیے انہوں نے کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ!میرا کبھی یہ خیال نہ تھا کہ آپ ﷺ زید ؓ کو مجھ پر امیر بنائیں گے،ارشاد ہوا،اسکوجانے دو تم نہیں جان سکتے کہ بہتر کیا ہے۔ (طبقات ابن سعد قسم الول جزء ثالث صفحہ ۳۲) جمادی الاولیٰ۸ھ میں یہ مہم روانہ ہوئی،چونکہ غنیم کو اس فوج کشی کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی،اس لیے ایک لاکھ کا ٹڈی دل لشکر اُمنڈ آیا تھا، لیکن حضرت زید ؓ نے اس کثرت کی پرواہ نہ کی اورعلم سنبھال کر پیادہ پادشمن کی صف میں گھس گئے،ان کے اتباع میں دوسرے سردارانِ فوج نے بھی ہلہ کردیا،دیرتک گھمسان کی جنگ رہی،اس حالت میں نیزہ کے ایک وارنے اسلای سالارِ فوج یعنی حضرت خیرالانام ﷺ کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کو شہید کیا، ان کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت جعفر طیار ؓ اورحضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے علم سنبھالا اورشدید کشت وخون کے بعد واصلِ بحق ہوئے ،ان کے بعد حضرت خالد سیف اللہ نےعلم ہاتھ میں لیا اورغازیانِ دین کو مجتمع کرکے ایک ایسا حملہ کیا کہ غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ (بخاری باب غزوۂ موتہ) آنحضرت ﷺ نے میدانِ جنگ سے اطلاع آنے کے قبل ہی لوگوں کو امرائے فوج کی خبر شہادت سنادی اور وفورغم سے آبدیدہ ہوگئے،(ایضاً) حضرت زید ؓ کی ایک صاحبزادی شفیق باپ کا سایہ اُٹھ جانے سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں،توآپ بھی ضبط نہ فرماسکے اوراس قدرروئے کہ گلو گرفتہ ہوگئے،حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا"یارسول اللہ!یہ کیا ہےفرمایا یہ جذبۂ محبت ہے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ ۳۲) انتقام حضرت سرورِ کائنات ﷺ کو اپنے محبوب ووفاشعارغلام کی مفارقت کا شدید غم تھا،حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ انتقام پر مامور فرمایا؛چونکہ وہ نہایت کمسن تھے اس لیے بعض نے ان کی سیادت پر ناپسندیدگی ظاہر کی آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تم لوگ پہلے جس طرح اس کے باپ کی سرداری پر طعن وطنز کرتے تھے اسی طرح اب اس کی امارت کو ناپسند کرتےہو، خدا کی قسم زید سزاوارِامارت ومحبوب ترین شخص تھا،اور اس کے بعد اسامہ ؓ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (بخاری ذکر اسامہ بن زید ؓ) یہ مہم ابھی روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ آفتاب رِسالت غروب ہوگیا؛ لیکن خلیفۂ اول نے ہجوم مصائب وصعوبات گوناگوں کے باوجود کوچ کا حکم دے دیااور حضرت اسامہ ؓ اپنے پدر شفیق کے قاتلوں سے انتقام لے کر غیر معمولی کامیابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔ اخلاق حضرت زید ؓ کے صحیفۂ اخلاق میں وفاشعاری کاباب سب سے نمایاں ہے،گذشتہ واقعات سے اس کا اندازہ ہوا ہوگا،آقائے نامدار کی رضامندی ان کا پرلطف مقصدِ حیات تھا ،حضرت ام ایمن ؓ گو ایک معمر عورت تھیں تاہم انہوں نے محض اس لیے ان سے نکاح کرلیا کہ آنحضرت ﷺ ان کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد کرہ ام ایمن ؓ) حضرت رسالت مآب ﷺ اوران کے متعلقین کا بے حدادب واحترام ملحوظ رکھتے تھے،حضرت زینب بنت جحش ؓ کے پاس جن کو انہوں نے ناموافقت کے باعث طلاق دے دی تھی، آنحضرت ﷺ کی طرف سے پیام لے کر گئے تومحض اس خیال سے کہ آپ ﷺ نے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائی ہے تعظیماً دیکھ نہ سکے اورجو کچھ کہنا تھا منہ پھیر کر کہا۔ (مسلم باب زواج زینب بنت جحش ؓ) گو حضرت زید ؓ کے اخلاقی کارناموں کی تفصیل نہیں ملتی تاہم درحقیقت ان کےوہ اوصاف حسنہ ومحاسن جمیلہ ہی تھے جس نے ان کو اوران کی اولاد کو حضرت رسالت مآب ﷺ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب بنادیا تھا،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر وہ آنحضرت ﷺ کے بعد زندہ رہتے تو آپ ان ہی کو اپنا جانشین بناتے،(طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث : ۳۱)حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک دفعہ ان کے پوتے محمد بن اسامہ کو مدینہ کی مسجد میں دیکھا تو تعظیم سے گردن جھکالی اوربولے اگر رسول اللہ ﷺ دیکھتے تو اس کو بھی محبوب رکھتے۔ (بخاری ذکر اسامہ بن زید ؓ) حلیہ اورعمر حضرت زید ؓ کا حلیہ یہ تھا،قد کوتاہ،ناک پست اوررنگ گہرا گندمی ۵۴یا ۵۵ برس کی عمر میں شہادت پائی۔ (اصابہ تذکرہ زید بن حارثہ ؓ) ازواج مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں ،بیویوں کے نام یہ ہیں: ام ایمن،ام کلثوم بنت عقبہ، درہ بنت لہب،ہندبنت العوام،زینب بنت جحش ،ناموافقت کے باعث ان کو طلاق دے دی اوراس کے بعد وہ امہات المومنین میں شامل کی گئیں۔ (اسد الغابہ تذکرہ زید بن حارثہ ؓ) اولاد دو لڑکے اسامہ بن زید،زید بن زید اورایک لڑکی رقیہ پیدا ہوئی،لیکن حضرت اسامہ ؓ کے سوا مؤخرالذکر دونوں بچوں نے بچپن ہی میں داغِ مفارقت دیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز،ثالث : ۳۰)