انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یزید کی تخت نشینی رجب ۶۰ھ میں امیر معاویہؓ کا انتقال ہوا ان کے بعد یزید جس کی بیعت وہ اپنی زندگی ہی میں لے چکے تھے،ان کا جانشین ہوا، تختِ حکومت پر قدم رکھنے کے بعد یزید کے لئے سب سے اہم معاملہ حضرت حسینؓ اورابن زبیرؓ کی بیعت کا تھا،کیونکہ یزید کی ولیعہدی کی بیعت کے وقت ان دونوں نے اس کو نہ دل سے تسلیم کیا تھا اورنہ زبان سے اقرار کیا تھا اوران کے بیعت نہ کرنے کی صورت میں خود ان کی جانب سے دعویٰ خلافت اورحجاز میں یزید کی مخالفت کا خطرہ تھا،کیونکہ ان کے دعویٰ خلافت سے سارا حجاز یزید کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اورحسینؓ کی وجہ سے عراق میں بھی شورش بپا ہوجاتی جیسا کہ آیندہ چل کر ابن زبیرؓ کے دعویٰ خلافت کے زمانہ میں ہوا کہ شام کے بعض حصوں کے سوا قریب قریب پورا ملک ابن زبیرؓ کے ساتھ ہوگیا، ان اسباب کی بنا پر اپنی حکومت کی بقا اور تحفظ کے لئے یزید نے ان دونوں سے بیعت لینا ضروری سمجھا گویہ اس کی ناعاقبت اندیشی تھی اگر وہ سمجھداری سے کام لے کر ان بزرگوں کو ساتھ ملا لیتا تو بہت ممکن تھا کہ وہ ناگوار واقعات پیش نہ آتے جنہوں نے نہ صرف یزید کو ساری دنیا میں بد نام ؛بلکہ اموی حکومت کو لوگوں کی نگاہوں میں مطعون کردیا، جس کا اثر اموی حکومت پر بہت برا پڑا۔ (بنی امیہ کے خلاف عباسیوں کی دعوت میں کامیابی کا ایک بڑا سبب حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ بھی تھا) لیکن یزید نے ان پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تخت حکومت پر قدم رکھتے ہی ولید بن عتبہ حاکم مدینہ کے نام ان دونوں سے بیعت لینے کا تاکیدی حکم بھیجا، ابھی تک مدینہ میں امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر نہ پہنچی تھی،ولید کے لئے اس حکم کی تعمیل بہت مشکل تھی، وہ اس کے انجام سے واقف تھا، اس لئے بہت گھبرایا اوراس نے اپنے نائب مروان سے مشورہ کیا،مروان سخت مزاج تھا اس نے کہا دونوں کو اسی وقت بلا کر ان سے بیعت کا مطالبہ کرو اگر مان جائیں تو فبہا اوراگر ذرا بھی لیت و لعل کریں تو سر قلم کردو، ورنہ ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر مل گئی تو پھر ان میں سے ہر ایک شخص ایک ایک مقام پر خلافت کا مدعی بن کر کھڑا ہوجائے گا اوراس وقت سخت دشواری پیش آئے گی۔ اس مشورہ کے بعد ولید نے ان دونوں کو بلا بھیجا ،اولاً یہ طلبی ایسے غیر معمولی وقت میں ہوئی تھی جو ولید کے ملنے کا وقت نہ تھا دوسرے امیر معاویہؓ کی علالت کی خبریں مدینہ آچکی تھیں ان قیاسات سے دونوں آدمی سمجھ گئے کہ امیر معاویہؓ کا انتقال ہوگیا ہے اورانہیں بیعت کے لئےبلایا گیا ہے،تاکہ معاویہ کی موت کی خبر پھیلنے سے پہلے ہی مدینہ میں بیعت لے لی جائے، حضرت حسینؓ کو اندازہ تھا کہ انکار بیعت کی صورت میں کس حد تک معاملہ نزاکت اختیار کرسکتا ہے،اس لئے اپنی حفاظت کا سامان کرکے ولید کے پاس پہنچے اورمکان کے باہر آدمیوں کو متعین کردیا تاکہ اگر کوئی ناگوار شکل پیش آئے تو وہ لوگ فورا آپ کی آواز پر پہنچ جائیں ،ولید نے انہیں امیر معاویہؓ کی موت کی خبر سنا کر یزید کی بیعت کے لئے کہا، حضرت حسینؓ نے تعزیت کے بعد یہ عذر کیا کہ میرے جیسا آدمی چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، اورنہ میرے لئے خفیہ بیعت کرنا زیبا ہے جب تم عام بیعت کے لئے لوگوں کو بلاؤ گے تو میں بھی آجاؤں گا اور عام مسلمان جو صورت اختیار کریں گے اس میں مجھے بھی کوئی عذر نہ ہوگا، ولید نرم خو اورصلح پسند آدمی تھا اس لئے رضا مند ہوگیا اورحضرت حسینؓ لوٹ گئے ،مروان جس نے زبردستی بیعت لینے اورانکار کی صورت میں قتل کردینے کی رائے دی تھی ولید کی اس نرمی اورصلح پسندی پر بہت برہم ہوا اورکہا تم نے میرا کہنا نہ مانا، اب تم ان پر قابو نہیں پاسکتے، ولید بولا افسوس تم فاطمہؓ بنت رسولﷺ کے لڑکے حسینؓ کے خون سے میرے ہاتھ آلودہ کرنا چاہتے ہو خدا کی قسم قیامت کے دن حسینؓ کے خون کا جس سے محاسبہ کیا جائے گا، اس کا پلہ خدا کے نزدیک ہلکا ہوگا۔ (ابن اثیر:۴/۱۰واخبارالطوال:۲۴۱،حسینؓ کے ساتھ ابن زبیرؓ کے حالات بھی ہیں،ان کا ذکر ان کے حال میں آئندہ آئے گا)