انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۲)مؤطا امام مالکؒ (۱۷۹ھ) مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے ستر فقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا، اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا، امام مالکؒ نے اسے فقہاء کے سامنے کیوں پیش کیا؟ محدثین کے سامنے کیوں نہیں؟ ملحوظ رہے کہ ان دنوں فقہاء ہی حدیث کے اصل امین سمجھے جاتے تھے اور یہی لوگ مراداتِ حدیث کوزیادہ جاننے والے مانے جاتے تھے۔ امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا، اس لیئے آپ نے اس میں سند کے اتصال کی بجائے تعامل امت کوزیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوالِ صحابہؓ اور تابعینؒ بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر اُمت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم"۔ (مقدمہ فتح الباری:۴) ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اسے فقہ کی کتاب شمار کرتے ہیں (مسوی عربی شرح موطا:۴) جہاں تک اس کی اسانید کا تعلق ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں: "لیس فیہ مرسل ولامنقطع الاوقداتصل السند بہ من طرق اخریٰ"۔ (حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۳۳) ترجمہ: اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں جودوسرے طرق سے متصل نہ ہوچکی ہو۔ مؤطاامام مالک میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جوحضورﷺ تک پہنچتی ہیں ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں، جوتابعینؒ کی روایت سے حضورﷺ تک پہنچی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائقِ قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ جیسے اکابر مرسل روایات کوبلاتردد قبول کرتے رہے، امام مالکؒ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے: "ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک"۔ (تزئین المالک:۷۳) ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہ آئی تھیں اور صحتِ سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی۔ (بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)