انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علم اسماء الرجال کی ضرورت مولانا عبدالقیوم جونپوری اس فن کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ تحقیق کی جائے کہ جو حضرات سلسلہ روایت میں ہیں وہ کون لوگ تھے، کیسے تھے، ان کے مشاغل کیا تھے، ان کا چال چلن کیسا تھا، سمجھ بوجھ کیسی تھی، سطحی الذھن تھے، یا نکتہ رس عالم تھے، یا جاہل، کس تخیل اور کس مشرب کے تھے، سن پیدائش اور سن وفات کیا تھا؟ شیوخ کون تھے؟ تاکہ ان کے ذریعہ سے حدیث کی صحت، سقم دریافت کی جاسکے، ان جزئی باتوں کا دریافت کرنا اوران کا پتہ لگانا سخت مشکل تھا ؛لیکن محدثین نے اپنی عمریں اس کام میں صرف کیں اورایک شہر کے راویوں سے ان کے متعلق ہر قسم کے حالات دریافت کیے، انہیں تحقیقات کے ذریعہ سے اسماء الرجال کا ایک عظیم الشان فن ایجاد ہوگیا ہے،جس کے ایجاد کا شرف مسلمانوں کو حاصل ہوا ؛لیکن مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ جو کتابیں اسماء الرجال میں لکھی گئی ہیں عام اس سے کہ وہ متقدمین کی ہوں یا متاخرین کی ان میں تعصبات مذہبی کے علاوہ ذاتی مناقشات اور فروعی اور سیاسی اختلافات اورہم عصری نوک جھونک کی بنا پر لوگوں کی جرح کی گئی ہے، بعض حضرات نے تو ایسے امور کو بھی جرح کا باعث قرار دے دیا کہ جو نہ شرعی اورنہ اخلاقی اورنہ عرفی حیثیت سے قابل اعتراض ہیں، جیسے کھنکار کر تھوکنا یا سیروسیاحت میں گھوڑے دوڑانا یا مطلقا خوش طبعی یا مطلقا نو عمری یا قلت روایت یا مسائل فقہیہ یا دیگر علوم میں مشغولیت وغیرہ، یہاں تک کہ علامہ ذہبی (۷۴۷ھ) کا دامن بھی اس سے پاک نہیں ہے، البتہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ) نے اس فن میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ ایک بڑی حد تک افراط و تفریط سے پاک ہیں، لہذا ان کتابوں کے مطالعہ کے وقت یہ یادرکھنا چائیے کہ جو جرحیں امور متذکرہ بالا کے ماتحت کی گئی ہیں وہ عقلاً میرے نزدیک قابل التفات نہیں ہیں، تنقید رجال کے اصول جنہوں نے سب سے پہلے قائم کیئے وہ شعبہ بن الحجاج (۱۶۰ھ) ہیں جو جرح و تعدیل کے امام کہلاتے ہیں (لیکن ان سے بھی بعض دفعہ تشدد ہوجاتا ہے)۔ مختصر یہ ؛کہ حدیث کی صحت و سقم دریافت کرنے کے لیے اصول حدیث کی اس قدر ضرورت تھی کہ اگر کوئی محدث اس علم سے غافل ہوتا تو اس کو بڑی دقتوں کا سامنا پیش آتا، خصوصاً اس وقت جب کہ فتن کے دروازے کھل گئے، بدعات کا شیوع ہوا، سیاسی انتشار کے علاوہ الحادو زندقہ نے زور پکڑا، عقائد میں فرقہ بندی شروع ہوگئی اورہر شخص اپنے خیالات کی تائید میں حدیثیں پیش کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رطب ویابس حدیثیں ان مجموعوں میں شامل ہوگئیں، جن کے جانچنے پر کہنے کے لیے اصول کی سخت ضرورت پیش آئی؛ چنانچہ علامہ ابن سیرینؒ سے میزان الاعتدال میں منقول ہے کہ اسناد کے جانچنے کی ضرورت واقعات فتن کے بعد ہوئی،سب سے پہلے اس موضوع پر بقول حافظ ابن حجر عسقلانی اورقاضی ابومحمد الرامہرمزی( ۳۶۰ھ) نے قلم اٹھایا اوراصول حدیث میں ایک کتاب لکھی جس کا نام المحدث الفاصل ہے،لیکن یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچی اور دوسرے حاکم ابو عبداللہ النیشا پوری نے خامہ فرسائی کی؛ مگر ان کی کتاب غیر مرتب رہی،اس کے بعد ابو نعیم اصفہانی(۴۳۰ھ) نے حاکم کی کتاب کو پیش نظر رکھ کر اس میں بہت سے اضافے کیے؛ مگر وہ تشنہ کام رہی اوروہ بعد کے آنے والوں کے لیے کام چھوڑ گئے پھر خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) میں پیدا ہوئے جنہوں نے قوانین روایت میں ایک کتاب لکھی جس کا نام الکفایہ ہے اور طریق روایت میں دوسری کتاب لکھی جس کا نام "الجامع لآداب الشیخ والسامع" ہے؛بلکہ فنون حدیث میں کوئی فن نہیں چھوڑا کہ جس میں انہوں نے کوئی مستقل کتاب نہ لکھی ہو۔ لیکن ہم یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خطیب سے بھی بعض امور میں سخت فروگذاشتیں ہوئی ہیں، اگر ان میں تعصب کا پہلو کار فرما نہ ہوتا تو وہ بے شک جلالت قدر کے آسمان پر مثل آفتاب تھے۔