انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مکہ کا پہلا امیر بعد ازاں آپ نے جعرانہ سے جاتے ہوئے عمرہ کی نیت کی،مکہ میں داخل ہوکر عمرے کے ارکان سے فارغ ہوکر عتاب بن اسید ایک نوجوان شخص کو جن کی عمر بیس برس سے کچھ زیادہ تھی مکہ کا عامل مقرر فرمایا اور معاذ بن جبلؓ کو بغرض تعلیم قرآن واحکام دین ان کے پاس چھوڑا اورمعہ مہاجرین وانصار مدینہ کی طرف روانہ عتاب بن اسید کو عامل اورمکہ کا امیراس لئے مقرر کیا کہ ان کو دینی واقفیت حاصل کرنے کا بہت ہی شوق تھا،ایک درھم روزانہ عتاب کے لئے وظیفہ مقرر فرمایا کہ وہ کسی کے دست نگرنہ رہیں،۲۴ ذیقعدہ ۸ھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم معہ صحابہ کرامؓ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے،حضرت عتاب بن اسید سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں امیر ہوکر حج کیا،اس سال مسلمانوں نے بھی حج ادا کیا اور مشرکین نے بھی اپنے طریقہ پر حج کیا نہ مشرکوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض کیا،نہ مسلمانوں نے مشرکوں سے کچھ کہا،اس میل جول کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین کو مسلمانوں کے اعمال حسنہ اوراخلاق فاضلہ کے مطالعہ کرنے کا خوب موقع ملا اوران کی زبان پر بے اختیار مسلمانوں کی مدح ستائش جاری ہوگئی، ۸ھ کے متعلق ایک یہ قابلِ تذکرہ واقعہ رہ گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو مخالف کے سرداروں میں سے ایک سردار عروہ بن مسعود محاصرہ طائف کے ایام میں طائف کے اندر نہ تھے ؛بلکہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور بعد محاصرہ اُٹھ جانے کے طائف کے اندر آئے تھے،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر سُن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں واپس جاکر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کروں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری قوم کو اس بات کا غرور ہے کہ مسلمان ان کو فتح نہیں کرسکے،اگر تو ان کو اسلام کی دعوت دے گا تو وہ تجھ کو قتل کردیں گے،حضرت عروہ نے عرض کیا کہ میری قوم مجھ سےبہت محبت کرتی ہے اورمیری بات مانتی ہے،مجھ کو امید ہے کہ وہ کبھی میری مخالفت نہیں کریں گے،ان کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دےد ی،وہ طائف میں آئے اورایک بلند مقام پر کھڑے ہوکر اہلِ طائف کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی،اہلِ طائف نے اس بات کو سنتے ہی ان پر تیروں کی بارش شروع کردی اوروہ شہید ہوگئے، دمِ نزع ان کے اہلِ خاندان نے پوچھا کہ تم اپنے خون کے بارے میں کیا کہتے ہو ہم اس کا بدلہ کسی سے لیں یا نہ لیں،انہوں نے کہا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھ کو شہادت کا مرتبہ عطا فرمایا ہے،اب میری صرف یہ خواہش ہے کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رفیقوں کے پاس دفن کرنا جو یہاں ایام محاصرہ میں شہید ہوکر دفن ہوچکے ہیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عروہ بن مسعود کی شہادت کا حال سُنا تو فرمایا کہ عروہ اپنی قوم میں ایسا ہی تھا جیسا صاحب یسین اپنی قوم میں،اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے،صاحبزادہ ابراہیم ماریہ قبیلہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے،اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے انتقال فرمایا، اسی سال کے آخری ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لکڑی کا منبر تیار کیا گیا جس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے،اسی سال منذر بن ساری حاکم بحرین کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط دیکھتے ہی مسلمان ہوگیا تھا،آپ نے ایک تحریر بھیجی جس کی رو سے وہ یہود اورمجوسیوں سے جزیہ وصول کرنے لگا۔