انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بارہویں شہادت "الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالأِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ"۔ (التحریر و التنویر،باب سورۃ الاعراف:۸/۳۰۵) ترجمہ: وہ لوگ جو اتباع کریں گے اس رسول امی کی، جس کو وہ اپنے ہاں لکھا ہوا پاتے ہیں تورات وانجیل میں، وہ حکم کرتا ان کو نیک کام کا اورروکتا ہے برے کام سے، اور حلال کرتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں اورحرام ٹھہراتا ہے ان پر گندی چیزیں اوراتارتا ہے ان سے ان کے بوجھ اور(کھولتا ہے) ان کے طوق جو ان پر پڑے تھے۔ اس آیت میں حضورﷺ کی تشریف آوری سے مدتوں پہلے ان کی اتباع کی بشارت دی گئی، بتایا گیا کہ حضورﷺ کی اتباع اورتابعداری جو لوگ کرپاتے ہیں ان پر اللہ رب العزت دنیا و آخرت کی راہیں کھولے گا اور وہ دونوں جہانوں کی اچھائی پالیں گے، اب کہیں پیغمبر صرف پیغام رسانی کے لیے آتے ہیں، یا ان کی اتباع بھی ان کی امتوں پر لازم ٹھہرتی ہے، اگر اتباع رسول ماموربہ نہ ہوتا تو اللہ رب العزت اس پیرایہ مدح میں اس کا ذکر نہ فرماتے ۔ نیز؛اس آیت میں تحلیل و تحریم کی نسبت حضورﷺ کی طرف کی ہے،حالانکہ تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ رب العزت کا ہے، معلوم ہوا اللہ رب العزت کی طرف سے تحلیل و تحریم آپ کے ذریعہ ہی ظاہر ہوئی ہے،قرآن کریم نے جن چیزوں کو حرام فرمایا ان کے علاوہ اوربہت سی چیزیں حرام ہیں، ان کا پتہ کہاں سے ملےگا؟ گندم کی بیع گندم سے کمی بیشی کے ساتھ یہ سود ہے، یہ کس سے پتہ چلے گا؟ آنحضرتﷺ سے، یہ ان کی شان میں ہے، "وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ" اگر آپ کی زبان مبارک اور عمل رفیع امت کے لیے سند اور دلیل نہ ہوتے اورآپ کی حدیث اورسنت مسلمانوں کے لیے حجت نہ ہوتی تو قرآن کریم کا پیرایہ بیان یہ نہ ہوتا اورحلال وحرام کے بیان کی آپ کی طرف نسبت نہ ہوتی۔ محقق ابن ہمامؒ (۸۶۱ھ) لکھتے ہیں: "الحاکم لا خلاف فی انہ اللہ رب العالمین"۔ (التحریر:۲/۲۹) ترجمہ :علماء میں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حاکم صرف اللہ رب العالمین ہی ہے۔ اور علامہ عینیؒ (۸۵۵ھ) فرماتے ہیں: "أن التحليل والتحريم من عند الله لا مدخل لبشر فيه"۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب:۲۵۵/۳) ترجمہ: بے شک کسی چیز کو حلال کرنا اورحرام کرنا اللہ کی طرف سے ہے،کسی انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: "وسر ذلك أن التحليل والتحريم عبارة عن تكوين نافذ في الملكوت أن الشيء الفلاني يؤاخذ به أو لا يؤاخذ به، فيكون هذا التكوين سببا للمؤاخذة وتركها، وهذا من صفات الله تعالى، وأما نسبة التحليل والتحريم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فبمعنى أن قوله أمارة قطعية لتحليل الله وتحريمه"۔ (حجۃ اللہ البالغۃ،باب اقسام الشرک:۱۲۹/۱) تحلیل و تحریم کی نسبت حضور اکرمﷺ کی طرف اس لیے ہوئی ہے کہ آپ کا کہنا اس بات کا قطعی نشان ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ بات قابل مواخذہ نہیں اوریہ بات قابل مواخذہ ہے، حرام ہے، لائق گرفت ہے اوراس چیز پر گرفت نہیں یہ حلال ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ کی زبان حق تعالی کی ترجمان ہے اوردین کے باب میں آپ جو کچھ کہتے ہیں خدا کی طرف سے کہتے ہیں اورآپ کی ہر کہی ہوئی بات ہم پر خدا کی حجت ہے، تحلیل و تحریم کسی انسان کا حق نہیں آپ تحلیل و تحریم کے فیصلے خدا کی نیابت میں کرتے تھے۔ خنزیر اور کتے بلی کا حرام ہونایہ سب خدا کے حکم سے تھا، یہ کہنا درست نہیں کہ حرام چیزیں اللہ اوررسول نے بانٹ رکھی تھیں، اس دور کے ایک صاحب "لحم الخنزیر" کی تشریح میں لکھتے ہیں: رب کی مرضی تھی کہ سؤر کا گوشت میں حرام کروں اوراس کے باقی اجزاء میرے حبیب حرام فرمائیں۔ اس نے صرف سؤر کو حرام کیا باقی کتا بلی وغیرہ اس کے حبیب نے۔ (نورالعرفان:۲۹) اس سوچ پر جو تحلیل وتحریم میں خدا اوررسول میں حصے کرے ہم سوائے افسوس کے اورکیا کہہ سکتے ہیں۔