انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ:ایک/دوہجری(۶۲۲ء) دارالندوہ میں قریش کا اجتماع بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد جب کفار قریش کو اس بیعت کی تفصیل معلوم ہوئی تو انھوں نے خیال کیا کہ مسلمانوں کو اب یثرب میں ٹھکانہ میسر آگیا ہے اور قبائل اوس و خزرج کی مدد بھی حاصل ہو گئی ہے، بہت ممکن ہے کہ عنقریب تمام مسلمان یثرب کو ہجرت کر جائیں، اس کے بعد کفارنے مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ اذیتیں دینے کا ارادہ کر لیا، کفّار ان قریش نے محسوس کیا کہ کچھ دن میں حضور ﷺ بھی ہجرت کر جائیں گے، چنانچہ دارالندوہ میں خفیہ اجتماع ہوا جس میں قریش کے چودہ روسأ شریک تھے جن کے نام یہ ہیں: ا- عتبہ ۲- شیبہ ۳-ابو سفیان۴-طعیمہ بن عدی ۵- جبیر بن مطعم ۶- حارث بن عامر ۷-نضر بن حارث ۸-ابو الخبتری بن ہشام ۹- زمعہ بن اسود ۱۰ - ابو جہل ا بن ہشام ۱۱-بنیّہ بن حجاج ۱۲ - مُنبّہ بن حجاج ۱۳-اُمیہ بن خلف ۱۴-حکیم بن حزام۔ اس مجلس مشاورت میں مختلف تجاویز پر غور کیا گیا، ایک نے کہا کہ محمدﷺ کے ہاتھ پاؤں میں زنجیر یں ڈال کر مکان میں بند کر دینا چاہیے، دوسرے نے کہا : جلا وطن کردینا کافی ہے، دشمن ِ رسول اللہﷺ ابو جہل نے کہا : ہر قبیلہ سے ایک شخص کاانتخاب ہو اور پورا مجمع ایک ساتھ مل کر محمد ﷺ کا خاتمہ کر دے، اس صورت میں ان کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گااور آل ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کر سکیں گے، دن، تاریخ اور وقت قتل بھی خفیہ طور پر طئے کر لیا گیا، لیکن اس مقررہ تاریخ سے عین ایک روز قبل اللہ تعا لیٰ نے حضور ﷺ کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور بذریعہ وحی حضور ﷺ کو کفارانِ قریش کی رازدارانہ کارروائی سے مطلع فرمایا، سورہ ٔ انفال کی آیت نمبر ۳۰ میں اس جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: " اور ( اے نبی وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ کفار تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا جلا وطن کر دیں، وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ( سورہ ٔ انفال :۳۰ ) ہجرت مدینہ کی اجازت کے ساتھ ساتھ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۸۰ کے ذریعہ اس دعا کی تلقین کی گئی: " اور کہو کہ اے پرودگار مجھے ( مدینہ میں) اچھی طرح داخل کیجیے اور ( مکہ سے)اچھی طرح نکالیے اور اپنے ہاں سے زور وقوت کو میرا مدد گار بنائیے" ۔ ( سورہ ٔ بنی اسرائیل : ۸۰ ) ( مصباح الدین شکیل سیرت احمد مجتبیٰ) صحابہ نے شکایت کی اور آپﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمھارا دارلہجرت مجھ کو خواب میں دکھایاگیا ہے( ابن سعد) ، بخاری شریف میں ہے کہ قبل ہجرت حضور اکرم ﷺ نے خواب دیکھا کہ دارلہجرت ایسا مقام ہے جہاں کھجور کے باغ ہیں، خیا ل تھا کہ وہ شائد یمامہ ہو یا حجر مگر تقدیر الہٰی میں مدینہ منورہ نکلا، بہر حال چند روز ٹھہرنے کے بعد حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا : مجھے تمہارے دارلہجرت کی خبر دے دی گئی ہے وہ یثرب ہے، یہ صورت حال دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے تمام مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے یثرب کے مسلمانوں کو تمھارا بھائی بنایاہے اور وہ سرزمین تمھارے لئے باعث امن ہے ، ہجرت کی اجازت پاکر مسلمان دو دو چار چار کی ٹولیوں کی شکل میں چھپتے چھپاتے نکلنے لگے ۔