انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** موسیٰ بن حازم موسی بن عبداللہ بن حازم کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اس نے ترمذ میں اپنی ایک خودمختار حکومت قائم کرلی تھی، یہ بھی ذکراوپر آچکا ہے کہ حریث وثابت پسران قطنہ خزاعی مہلب کے پاس سے فرار ہوکر موسیٰ بن عبداللہ کے پاس ترمذ میں چلے گئے تھے، مہلب جب خراسان کا گورنر ہوا تواس نے اپنے عہدحکومت میں موسیٰ بن عبداللہ سے مطلق چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور اپنے بیٹوں کوبھی نصحیت کی کہ تم لوگ موسیٰ سے ہمیشہ درگذر کا برتاؤ کرنا؛ کیونکہ اگرموسیٰ بن عبداللہ نہ ہوا توپھرخراسان کی گورنری پرکوئی شخص بنوقیس سے آئے گا، ہرات کے قریب جب عبدالرحمن بن محمد کویزید بن مہلب کے مقابلہ میں ہزیمت ہوئی توعبدالرحمن بن محمد اور عبدالرحمن بن عباس کے ہمراہی لوگ جواس جگہ سے فرار ہوئے وہ بھی سیدھے ترمذ میں موسیٰ بن عبداللہ کے پاس پہنچے ، جب عبدالرحمن بن محمد کا سرکاٹ کررتبیل نے حجاج کے پاس بھیجا توعبدالرحمن کے ہمراہی رتبیل کے پاس سے بھاگ کرموسیٰ بن عبداللہ کے پاس آئے اور ترمذ میں پناہ گزین ہوئے؛ اسی طرح موسیٰ بن عبداللہ کے پاس ترمذ میں آٹھ ہزار عربوں کی جمعیت فراہم ہوگئی، حریث وثابت دونوں بھائی وزارت وسپہ سالاری کی خدمات انجام دیتے تھے اور موسیٰ بن عبداللہ خود مختار بادشاہ تھا، حریث وثابت نے موسیٰ سے کہا کہ اہلِ بخارا اور تمام ترک سردار یزید بن مہلب سے ناراض ہیں، آؤ ان سب کواپنے ساتھ ملالکر یزید بن مہلب کوخراسان سے بے دخل کرکے ملکِ خراسان پرقبضہ کرلیں موسیٰ نے کہا کہ اگریزید کوخراسان سے نکال دیا توعبدالملک کا کوئی دوسرا گورنر آکر قابض ہوجائے گا اور ہم خراسان کوبچانہ سکیں گے، اس سے توبہتر یہ ہے کہ ماورءالنہر یعنی ترکستان کے علاقوں سے عبدالملک کے عاملوں کونکال دیں، اس ملک پرہم بآسانی اپنا قبضہ قائم رکھ سکیں گے؛ کیونکہ ادھر ہرطرف سے عبدالملک کی فوجیں نہیں آسکتیں اور تمام سرحدوں پرترک ومغل موجود ہیں جوہماری مدد کریں گے؛ چنانچہ ماورءالنہر کے علاقے سے تمام عاملوں کونکال دیا گیا اور موسیٰ بن عبداللہ کی حکومت ترمذ میں خوب مضبوط ومستقل ہوگئی۔ چند روز کے بعد ترکوں، مغلوں اور تبتیوں نے مل کرموسیٰ کے ملک پرحملہ کیا، ترکوں کا سردار دس ہزار فوج لیے ہوئے ایک ٹیلہ پرکھڑا تھا، حریث بن قطنہ نے اس پرحملہ کیا یہ حملہ اس شدت وسختی کے ساتھ کیا گیا کہ ترکوں کوٹیلے کے پیچھے پناہ لینے پڑی، اس ہنگامہ داروگیر میں ایک تیر حریث کی پیشانی پرآلگا، زخم ایسا کاری تھا کہ دودن کے بعد حریث فوت ہوگیا، اس روم چونکہ شام ہوگئی تھی، لڑائی ملتوی کردی گئی، اگلے دن موسیٰ نے حملہ کرکے ترکوں وغیرہ کوشکست فاش دی اور بہت سامالِ غنیمت لے کرترمذ کے قلعے میں واپس آیا، حریث کے مرنے کے بعد اس کا بھائی ثابت بن قطنہ موسیٰ کی طرف سے متوہم ہوکر موسیٰ سے جدا ہوا اور ترمذ سے بھاگ کرمقام حوشرا میں آکرقیام کیا اور اپنے پاس اہلِ عرب وعجم کی جمعیت فراہم کرنے لگا۔ موسیٰ بن عبداللہ اس کے مقابلے کوفوج لے کرترمذ سے چلا تواہلِ بخارا، اہلِ کش، اہلِ نسف وغیرہ سب ثابت کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، موسیٰ کومجبوراً ترمذ میں واپس آنا پڑا، چند روز کے بعد تمام اتراک جمع ہوئے، ثابت بن قطنہ کواپنے ہمراہ لیا اور اسی ہزار کی جمعیت عظیم نے ترمذ کا محاصرہ کرلیا، موسیٰ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ مدافعت کی، ثابت بن قطنہ مارا گیا اور اتراک بھی آوارہ وپریشان ہوک راور محاصرہ اٹھاکرچل دیئے۔ اس ہنگامے سے فارغ ہوئے صرف چند ہی روز گذرے تھے کہ یزید بن مہلب خراسان کی گورنری سے معزول ہوکر کوفہ سے روانہ ہوا اور اس کی جگہ مفضل بن مہلب اس کا بھائی خراسان کا گورنر مقرر ہوا، مفضل نے خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی عثمان بن مسعود کوایک لشکر دے کرموسیٰ بن عبداللہ بن حازم پرحملہ کرنے کے لیے مرو سے روانہ کیا اور اپنے بھائی مدرک بن مہلب کوجوبلخ میں تھا لکھا کہ تم بھی اپنی جمعیت لے کرترمذ پرحملہ کرنے کے لیے روانہ ہوجاؤ اس کے علاوہ رتبیل اور ترخون ترکی بادشاہوں کو لکھا کہ تم بھی اپنی اپنی فوجیں لے کرعثمان بن مسعود کی امداد کے لیے پہنچو، یہ ترک سردار پہلے ہی سے موسیٰ بن عبداللہ پرخارکھائے بیٹھے تھے اور بار بار اس کے ہاتھ سے شکستیں کھاچکے تھے، فوراً اپنی اپنی فوجیں لے کرترمذ کی طرف روانہ ہوگئے، اس طرح موسیٰ بن عبداللہ کے علاقے میں چار طرف سے دشمن فوجیں داخل ہوئیں اور موسیٰ بن عبداللہ بن حازم نے مجبور ہوکر قلعہ ترمذ میں محصور ہوکر مقابلہ کرنا شروع کیا، ان افواج کثیر کا محاصرہ دومہینے تک مسلسل جاری رہا اور کوئی امید فتح کی نظر نہ آئی، آخر موسیٰ بن عبداللہ نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ اب زیادہ صبر نہیں ہوسکتا، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم دفعۃً دشمنوں پرجاپڑیں، سب نے اس تجویز کومنظور کیا۔ موسیٰ نے اپنے بھتیجے نصر بن سلیمان کوشہر وقلعہ ترمذ میں اپنا قائم مقام بناکروصیت کی کہ اگرمیں لڑائی میں مارا جاؤں توشہروقلعہ عثمان بن مسعود کے سپرد نہ کرنا؛ بلکہ مدرک بن مہلب کے حوالے کرنا، موسیٰ نے اپنے ہمراہیوں میں سے ایک تہائی آدمیوں کوعثمان بن مسعود کے مقابلہ کے لیے مامور کرکے حکم دیا کہ تم اوّل حملہ نہ کرنا؛ بلکہ عثمان حملہ کرے تواس کے جواب میں حملہ آور ہونا اور دوتہائی آدمیوں کوخود لیکر رتبیل وطرخون کی طرف حملہ آور ہوا، یہ موسیٰ کے مقابلے کی تاب نہ لاکر بھاگےاور موسیٰ دور تک اُن کے تعاقب میں نکل گیا، جب موسیٰ واپس لوٹا تواہلِ صنور اور دوسرے ترک قلعہ ترمذ کے درمیان حائل ہوگئے، لڑائی ہونے لگی، موسیٰ کوہرچہار طرف سے ترکوں نے گھیر لیا، عثمان بن مسعود بھی اسی طرف متوجہ ہوگیا، اوّل موسیٰ کا گھوڑا مارا گیا؛ پھراس کے بعد موسیٰ بھی دادِ شجاعت دیتا ہوا مقتول ہوا، اس طرح پندرہ سال تک ترمذ میں خود مختارانہ حکومت کرنے کے بعد سنہ۸۵ھ میں موسیٰ بن عبداللہ بن حازم جوقبیلہ قیس سے تعلق رکھتا تھا، اس جہان سے رخصت ہوا، مفضل نے قتلِ موسیٰ کی بشارت حجاج کولکھی؛ لیکن وہ کچھ خوش نہیں ہوا، نضربن سلیمان نے ترمذ مدرک کے سپرد کیا اور مدرک نے عثمان کے سپرد کیا۔