انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قریش کا لشکر قریش مکہ بڑے سرو سامان سے نکلے تھے ، ایک ہزار کی فوج تھی، ایک سو سواروں کا رسالہ تھا، سب روسائے قریش شریک تھے ، ابو لہب مجبوری سے نہ آسکاتھااس لئے اپنی طرف سے قائم مقام بھیج دیا تھا، رسد کا یہ انتظام تھا کہ امرائے قریش باری باری ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے ، عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معززرئیس تھا فوج کا سپہ سالار تھا ، قریش کو بدر کے قریب پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ ابو سفیان کا قافلہ خطرہ کی زد سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے، باقی فوج آگے بڑھی اورمناسب موقعوں پر قبضہ کر لیا ، بر خلاف اس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں تک نہ تھا، تائید ایزدی اور حسن اتفاق سے بارش ہوئی جس سے گرد جم گئی اور جا بجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنائے گئے کہ غسل اور وضو کے کام آئیں۔ صحابہ نے میدان کے کنارے ایک چھپر کا سائبان تیار کیا کہ حضورﷺ اس میں تشریف رکھیں، حضرت سعدؓ بن معاذ دروازہ پر تیغ بکف کھڑے ہوئے تھے، مہاجرین کا علم حضرت مصعبؓ بن عمیر کو عنایت فرمایا ، خزرج کے علم بردار حضرت خباب ؓ بن منذر اور اوس کے حضرت سعدؓ بن معاذ مقرر ہوئے ، حضور اکرم ﷺ رات بھر بیدار اور مصروف دعا رہے ، صبح ہوئی تو لوگوں کو نماز پڑھنے کے لئے آواز دی ، بعدنماز جہاد پر وعظ فرمایا، اس کے بعد آپﷺ نے صف آرائی شروع کی، دست مبارک میں ایک تیر تھا، اس کے اشارہ سے صفیں قائم کرتے تھے، اب دو صفیں آمنے سامنے مقابل تھیں ، حق و باطل ، کفر و اسلام۔ یہ عجیب منظر تھا ، اتنی بڑی دنیا میں توحید کی قسمت صرف چند جانوں پر منحصر تھی، صحیحین میں ہے کہ آنحضرت ﷺ پر سخت خضوع کی حالت طاری تھی، دونوں ہاتھ پھیلا کرفرماتے تھے: " خدایا ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے آج پورا کر" محویت اور بے خودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر گر پڑتی اور آپﷺ کو خبر تک نہ ہوتی تھی، کبھی سجدہ میں گرتے تھے اور فرماتے تھے کہ : " خدایا ! اگر یہ چندنفوس آج مٹ گئے تو پھرقیامت تک توپوجا نہ جائے گا " قریش کی فوجیں اب بالکل قریب آگئیں تا ہم آپ ﷺ نے صحابہؓ کو پیش قدمی سے روکا اور فرمایا کہ جب دشمن پاس آجائیں تو تیر سے روکو،یہ معرکہ ایثار و جاں نثاری کا سب سے بڑا حیرت انگیز منظر تھا ، دونوں فوجیں سامنے آئیں تولوگوں کو نظر آیا کہ خود ان کے جگر کے ٹکڑے تلوارکے سامنے ہیں،حضرت ابو بکر ؓ کے بیٹے (جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)میدان جنگ میں بڑھے تو حضرت ابو بکرؓ تلوار کھینچ کر نکلے ، عتبہ میدان میں آیا تو حضرت حذیفہؓ ( عتبہ کے فرزند) اس کے مقابلہ کو آئے ، حضرت عمر ؓ کے مقابلہ میں ان کے ماموں تھے۔