انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بے سروسامانی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب اطمینان ہوگیا کہ تمام صحابہ جنگ اورمقابلے کے لئے آمادہ ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے روانگی کا عزم فرمایا،لڑنے اورمیدانِ جنگ میں جانے کے قابل آدمی کُل تین سو دس یا تین سو بارہ یا تین سو تیرہ تھے، شہر سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسلامی لشکر کی موجودات لی تو ان تین سو تیرہ میں بعض ایسی چھوٹی عمر کے لڑکے بھی تھے جو میدانِ جنگ میں جانے کے قابل نہ تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صغر سنی کے سبب واپس جانے کا حکم دیا،ان میں سے بعض نے اصرار کیا اور بمنت اپنے آپ کو لشکرِ اسلام میں شامل رکھنے کی اجازت حاصل کی،اس اسلامی لشکر کے سازوسامان کی یہ حالت تھی کہ صرف دو گھوڑے تھے جن پر حضرت زبیرؓ اور مقدار سوار تھے ، ستر اونٹ تھے،ایک ایک اونٹ پر تین تین چار چار آدمی سوار تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس اونٹ پر سوار تھے اس پر بھی دو تین شخص اور سوار تھے،بعض حضرات پیدل ہی رہے،یہ اسلامی لشکر بدر کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ کفار پہلے سے بلند قطعہ زمین پر قابض ومتصرف اور خیمہ زن ہیں، مسلمانوں کو نشیبی اور ریتلی جگہ ٹھہرنا پڑا ،مگر بدر کے چشموں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار میں سے جوشخص اس چشمہ سے پانی لینے آئے اس کو نہ روکو اورپانی لینے دو، صحابہ کرامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک چھوٹی سی جھونپڑی تیار کردی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں عبادت کرتے اور دعا مانگتے تھے ،صحابہ کرام قریشیوں کے مقابلے میں تعداد کے اعتبار سےتین فیصدتھے اور سامان حرب کے اعتبارسے ایک فیصد بھی نہ تھے،کفار سب زرہ پوش اورجوانِ توانا تھے،مسلمان عام طور پر فاقہ زدہ،ناتواں ،بیمار اورضعیف تھے، معمولی ہتھیار بھی سب کے پاس پورے نہ تھے کسی کے پاس تلوار تھی تو نیزہ اور کمان نہ تھی،کسی کے پاس صرف نیزہ تھا،تلوار نہ تھی، جب مسلمان جاکر خیمہ زن ہوگئے تو کفار نے عمیر بن وہب حجمی کو سراغ رساں بناکر روانہ کیا کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد معلوم کرکے آئے،عمیر نےجاکر کہا کہ مسلمانوں کی تعداد تین سو دس سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں صرف دو سوار ہیں ،کفار کےغرور کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے جب اس قلت تعداد کا حال سُنا تو کہا کہ ان تھوڑے سے آدمیوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہم کو بلاجنگ کئے ہوئے واپس ہونا چاہئے؛کیونکہ ہماری تعداد زیادہ ہے؛ لیکن ابو جہل نے مخالفت کی اورکہا کہ ان سب کا خاتمہ ہی کردینا چاہئے۔