انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۴)حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) حضرت امام مالکؒ امام دارالھجرۃ کے نام سے معروف ہیں، حدیث کی خدمت میں آپؒ نے حدیث کی مشہور کتاب مؤطا تالیف کی، اس کتاب کومرتب کرنے کے بعد سترعلماء کے سامنے پیش کیا گیا توسب نے مؤاطات (موافقت) ظاہر کی؛ اِسی لیے اس کا نام مؤطا رکھا گیا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے قول کے مطابق مؤطا میں سترہ سو کے قریب روایات ہیں، جن میں سے ۶۰۰/ مسند اور ۳۰۰/مرسل ہیں، بقایا فتاویٰ صحابہؓ اور اقوالِ تابعین ہیں، حضرت امام مالکؒ سے مؤطا پڑھنے والے حضرات میں امام شافعیؒ، یحییٰ اندلسیؒ اور امام محمدؒ کے اسماء سرفہرست ہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ المؤطا" (موطا مالک، روایت محمدبن الحسن:۱/۳۰، شاملہ،ناشر:دارالقلم، دمشق) مگر یہ بات اس وقت کی ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم تالیف نہ ہوئی تھیں۔ محدث نے الفاظِ حدیث کی خدمت کی تواس کا نام حافظِ حدیث ہوا اور مجتہد نے معانی حدیث کی خدمت کی تواس کا لقب عالمِ حدیث اور فقیہ ہوا، امام مالکؒ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں کہ احادیث کا ذخیرہ بھی جمع کیا اور فقہ کے بھی امام ٹھہرے: "اخرج إِبْنِ ابِیْ حَاتِم عَنْ طریق مَالِکْ بِنْ أَنَس عَنْ رَبِیْعَۃَ قَالَ ان اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالَیٰ أَنْزَلَ إِلَیْکم الْکِتَابَ مُفَصِّلاً وَتَرَکَ فِيهِ مَوْضِعًا لِلسُّنَّةِ، وَسَنَّ رَّسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعًا لِلرَّأْيِ"۔ (الدرالمنثور فی التأویل بالماثور، جلال الدین السیوطی:۴/۱۲۰، شاملہ،موقع التفاسیر) ترجمہ:امام مالکؒ امام ربیعہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ربیعہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل کتاب نازل فرمائی اور اس میں حدیث کے لیئے جگہ چھوڑی اور آنحضرتﷺ نے بہت سی باتیں حدیث میں بیان فرمائیں اور قیاس کے لیئے جگہ رکھی۔ الفاظ مقصود بالذات نہیں، مقصود اطاعت اور اتباع شریعت ہے اور یہ مقصد معانی کے سمجھنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، مقصود بالذات معنی ہیں، الفاظ نہیں الفاظ مقصود بالعرض ہیں، امام مالکؒ تبع تابعینؒ کے طبقہ میں تھے، آپؒ کے شیوخ واساتذہ کی تعداد نوسو تھی، جن میں تین سو تابعینؒ اور چھ سو تبع تابعینؒ تھے (تہذیب الاسماء للنووی:) امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ آپؒ کواگرحدیث کے ایک ٹکڑے پر بھی شک پڑجاتا توپوری کی پوری ترک کردیتے تھے، محدثینؒ کے نزدیک اصح الاسانید میں بحث ہے، مشہور ہے کہ جس کے راوی مالکؒ نافعؒ سے اور نافعؒ ابن عمرؓ سے ہوں وہ اسناد سب سے صحیح ہے (ترجمان السنہ:۱/۲۴۲) لیثؒ، ابنِ مبارکؒ، امام شافعیؒ اور امام محمدؒ جیسے مشاہیر امت آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور ابنِ وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایک منادی سے سنی کہ مدینہ میں ایک مالک بن انس اور ابن ابی ذئبؒ کے سوا کوئی فتوےٰ نہ دیا کرے (مشاہیرِامت:۲۹، از قاری محمدطیبؒ) امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اسحاق بن ابراہیمؒ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اگر امام مالکؒ امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تووہی مسئلہ حق اور سنت ہوگا؛ اگرچہ اس میں نص نہ موجود ہو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵) ابن سعدؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ ثقہ، مامون، ثبت، متورع، فقیہ، عالم اور حجت ہیں (تہذیب التہذیب:۱۰/۸) علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ الامام الحافظ فقیہ الامت شیخ الاسلام اور امام دارالھجرت تھے (تذکرہ:۱/۱۹۳) آپؒ کا مسلک زیادہ تراُندلس ومغرب پہنچا (بستان المحدیثن:۲۶) افریقی ممالک خصوصاً مغربی افریقہ میں زیادہ تراُنہی کے مقلد ہیں، اس جلالت علم کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ کے معتقد تھے "نظرمالک فی کتب ابی حنیفۃ وانتفعہ بھا کمارواہ الدراوردی وغیرہ" (الانتقاء:۱۴) سو یہ حقیقت ہے کہ امام مالکؒ کا امام ابوحنیفہؒ کی کتابوں کو دیکھنا اور ان سے نفع حاصل کرنا ثابت ہے۔