انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۱۔ابراہیم بن یزید تیمیؒ نام ونسب ابراہیم نام،ابواسماء کنیت،نسب نامہ یہ ہے،ابراہیم بن یزید بن شریک بن تیم الرباب تیمی،ابراہیم کوفہ کے عابد وزاہد تابعین میں تھے۔ فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے کوئی ممتاز شخصیت نہ رکھتے تھے،تاہم کوفہ کے علمائے باعمل میں شمار تھا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۲۳) حدیث حافظ ذہبی انہیں حفاظ میں شمار کرتے ہیں،حدیث میں انہوں نے انس بن مالکؓ ،حارث بن سوید،عمروبن میمون اوراپنے والد یزید سے استفادہ کیا تھا،حضرت عائشہؓ سے بھی روایت کی ہے؛لیکن یہ روایت مرسل ہے،بیان بن بشیر،حکم بن عتبہ،زبید بن حارث ، مسلم البطین اوریونس بن عبید وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں ہیں۔ (تہذیب التہذیب :۱/۱۷۶) زہد وعبادت ان کا امتیازی وصف زہد وتقویٰ ہے،ان کے والد یزید بنؓ شریک بڑے عابدوزاہد تابعی تھے،انہوں نے بڑی دولت پیدا کی،لیکن دنیا سے کبھی آلود نہ ہوئے،ان کے لباس تک پر ان کی ثروت کا اثرظاہر نہ تھا،ایک مرتبہ ابراہیم نے ان کے جسم پر روئی کا معمولی کرتہ جس کی آستینیں ہتھیلیوں تک لٹکتی تھیں دیکھ کر کہا، ابا کوئی قرینہ کا لباس کیوں نہیں پہن لیتے،جواب دیا بیٹا جب میں بصرہ میں آیا،اُس وقت ہزاروں پیدا کئے؛ لیکن اس سے میری خوشی اورمسرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوااور نہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ جو پاک لقمہ میں کھاتا ہوں وہ اس شخص کے منہ میں جائے جو مجھے سب سے زیادہ مبغوض ہو،کیونکہ میں نے ابودرداء سے سنا ہے کہ قیامت میں ایک درہم رکھنے والے سے زیادہ دودرہم رکھنے والے سے حساب ہوگا۔ (ابن سعد:۶/۲۰۰) ایسے زاہد باپ کی تعلیم وتربیت نے ابراہیمؑ کو ابتداء ہی سے دنیا سے بے نیاز اورزہد وعبادت کی جانب مائل کردیا تھا؛چنانچہ آگے چل کر وہ اپنے عہد کے ممتاز ترین عباد میں ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے عابد وزاہد تھے اور فاقہ کشی پر اُن کو بڑی قدرت تھی۔ (تہذیب التہذیب:۱/۱۷۶) عبادت میں اس قدر اہتمام تھا کہ تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوتی تھی اوراُس سے غفلت کرنے والے کو گیا گزرا سمجھتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ جسے تکبیر اولیٰ میں تساہل کرتے دیکھو اُس سے ہاتھ دھوڈالو۔ (طبقات کبریٰ شعرانی:۳۶) نماز میں کیف واستغراق کا یہ عالم تھا کہ سجدہ کی حالت میں چڑیاں پیٹھ پر اڑ اڑکے بیٹھتی تھیں اور چونچیں مارتی تھیں (ایضاً) دودو مہینے مسلسل روزے رکھتے تھے (ایضاً) اورمحض ایک انگور روزانہ پر پورا چلہ گذاردیتے تھے۔ (ایضا) لیکن اس زہد وعبادت پر بھی اپنے اعمال کو قابل اعتنانہ سمجھتے تھے اورفرماتے تھے کہ جب اپنے قول وعمل میں موازنہ کرتا ہوں توجھوٹا بننے سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ (طبقات کبریٰ:۳۶) ایثار کا بے مثل نمونہ اورشہادت ،ایثار اورقربانی کا مجسم پیکر تھے،اس کی آخری حد یہ ہے کہ دوسروں کے لیے جان تک دینے میں دریغ نہ کیا،انہوں نے ایثار،قربانی کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی مثالیں کم ملتی ہیں، حجاج ثقفی ابراہیم نخعی کا جو بڑے ممتاز عالم تابعی ہیں سخت دشمن تھا وران کے درپے آزاررہا کرتا تھا،لیکن دست رس حاصل نہ ہوسکا،اس کے آدمی ہمیشہ ان کی تلاش میں رہتےتھے،ایک مرتبہ وہ ابراہیم نخعی کو تلاش کررہے تھے،ابراہیم تیمی کو دونوں کی مخالفت کا علم تھا اس علم کے باوجود انہوں نے ان کے بچانے کے لیے کہہ دیا کہ ابراہیم میں ہوں تلاش کرنے والے آدمی ابراہیم نخعی کو پہچانتے نہ تھے،اس لیے ان کے اقرارپر انہی کو پکڑلے گئے،حجاج نے زنجیروں میں جکڑواکے دیماس کے قید خانہ میں جس کو اُس نے سنگین مجرموں کے لیے خاص طور سے بنوایا تھا ڈلوادیا، یہ قید خانہ کیا تھا موت کاگھر تھا،اس میں سردی اورگرمی پانی اوردھوپ سے بچنے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا، اس پر محن قید نے چند ہی دنوں میں ابراہیم کا رنگ وروپ ایسا بدل دیا کہ ان کی ماں تک ان کو پہچان نہ سکیں؛ لیکن وہ نہایت صبرواستقلال کے ساتھ ان مصائب کا مقابلہ کرتے رہےا وران کو جھیلتے جھیلتے بالآخر انتقال کر گئے،اُن کی شب وفات کو حجاج نے خواب میں دیکھا کہ آج شہر میں ایک جنتی مرگیا ہے،صبح کو اس نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ابراہیم نے قید خانہ میں انتقال کیا،یہ سن کر اس جفاشعار نے کہا خواب شیطانی وسوسہ معلوم ہوتا ہے اورابراہیم کی لاش گھوڑپر پھینکوادی۔ (ابن سعد:۶/۱۹۹) بعض اقوال ابراہیم کے بعض اقوال نہایت حکیمانہ ہیں،فرماتے تھے کہ انسان کے لیے علم کے نتائج میں سے خشیت الہی اورجہل کے نتائج میں سے اپنے عمل پر غرور کافی ہے اور طمعیں انسان کو بد کرداریوں پر آمادہ کرتی ہیں۔