انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافتِ بنواُمیہ خلافت بنواُمیہ سے پہلے خلافتِ راشدہ کے بعد اب سلطنتِ بنوامیہ کے حالات ہم کوشروع کرنے ہیں، خلافتِ راشدہ میں پہلے دوخلیفہ نہ بنی اُمیہ تھے نہ بنی ہاشم، ان دونوں کا عہد خلافت، خلافتِ راشدہ کا بہترین زمانہ تھا، تیسرے بنواُمیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور چوتھے بنوہاشم سے، خلافتِ راشدہ کے آخری نصف زمانہ میں بنواُمیہ اور بنوہاشم دونوں قبیلوں کے خلیفہ تخت پرمتمکن رہ، یہ آخری نصف زمانہ، پہلے نصف زمانے کے مقابلے میں ناکام زمانہ کہا جاسکتا ہے؛ اگرچہ بعد کی خلافتوں سے یقیناً اچھا تھا؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ ہی برسرِحکومت تھے اور اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں زندہ موجود تھے، اسلام دنیا میں شرک کومٹانے اور توحید قائم کرنے کے لیئے آیا، آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل توحید اور حقیقی کامرانی کا راستہ نسلِ انسانی کودکھایا، شرک سے بڑھ کرکوئی نقصان وزیان اور توحید سے بڑھ کرکوئی سعادت وکامیابی انسان کے لیئے نہیں ہوسکتی، شرک درحقیقت ایک ناانصافی اور ظلم کا نام ہے؛ اسی لیئے قرآن کریم میں اس کوظلمِ عظیم کہا گیا ہے، اس سے بڑھ کراور کیا ظلم ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے حقیقی معبود کوچھوڑ کران مجبور ہستیوں کومعبود ٹھہرائے جومعبود حقیقی کی مخلوق اور غلام ہیں؛ پس شرک میں وہی شخص مبتلا ہوسکتا ہے جوعدل کے خلاف ناانصافی اور ظلم کواپنا شعار بنائے، اس ظلم وناانصافی میں مبتلا کرنے والی سب سے بڑی چیز جہالت اور بے جامحبت ہے، جس کواصطلاحِ قرآنی میں اضلال اور گمراہی کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اب غور کرو اور سوچو کہ اپنے خاندان اور قبیلے کے بزرگوں کی بے جا محبت میں اُن کے ناموں اُن کی تصویروں اُن کے مجسموں، اُن کی قبروں کی بے جاتعظیم کے ذریعہ دنیا میں سب سے زیادہ شرک نے رواج پایا اور اسی گمراہی کے ذریعہ نوعِ انسان نے اپنے خالق ومالک ومعبود کوفراموش کرکے اپنے آپ کوہلاکت کے گڑھے میں گرایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہوکر جہاں شرک کے اور امکانات کومٹادیا وہاں اس بے جاخاندانی عصبیت اور عدل وانصاف سے دورومہجور کرنے والی گمراہ کن محبت بے جا سے نوعِ انسان کوبچایا، دوسری چیز جوانسان کوظلمِ عظیم میں مبتلا کرسکتی ہے اور کرتی رہی ہے، تکبر اور بے جاتفاخر ہے؛ اسی نے ابلیس کوابلیس بناکر شیطان الرجیم بنایا اور اسی کے ذریعہ اس نے اکثر انسانوں کوصراطِ مستقیم سے ہٹا کرہلاکت آفریں راہوں پرچلایا، یہ بے جا تفاخر جب محبت بے جا کے ساتھ مل جاتا ہے توگمراہی اور ہلاکت کا نہایت زوداثر معجون نوعِ انسان کے لیئے تیار ہوجاتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہلاکت آفرین سامانِ شرک کومٹانے اور دور کرنے کے لیئے فتح مکہ کے روز خانہ کعبہ کے دروازہ میں کھڑے ہوکر تمام باشندگانِ مکہ اور شرفائے عرب کے اجتماعِ عظیم کومخاطب فرمایا: يامعشر قريش إن الله قد اذهب عنكم نخوة الجاهلية وتعظمها بالآباء، الناس من آدم وآدم خلق من تراب، ثم تلارسول الله صلى الله عليه و سلم ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّاخَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ﴾ ۔ (تاریخ ابنِ خلدون:۲/۴۵، شاملہ،موقع یعسوب) ترجمہ:اے گروہِ قریش! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور باپ دادا کے فخر کودور کردیا، تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے، خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگو! ہم نے تم کونَرومادہ سے پیدا کیا اور تمہاری شاخیں اور قبائل بنائے؛ تاکہ الگ الگ پہچان ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بزرگ تم میں وہی ہے جومتقی ہے۔ نسلی وقبائلی تفاخر کومٹانا اور حقیقت شرک کے امکانات کومٹاکر توحید کی استعداد کا پیدا کرنا تھا، ساتھ ہی قبیلوں اور شعبوں کے وجود اور ان کے امتیازات سے بھی انکار نہیں ہے؛ لیکن بزرگی اور فضیلت کونسل وخاندان سے متعلق نہیں رکھا گیا، بزرگی وبرتری صرف حدا شناسی وخدا ترسی سے تعلق رکھتی ہے، ہرایک شخص متقی وباخدا بن کرمستحق کرامت بن سکتا ہے اور ہرایک قبیلہ کا ہرایک شخص اپنی بداعمالیوں کے ذریعہ رذالت وذلت کماسکتا ہے، اس صحیح روش اور جادۂ مستقیم پرگامزن کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوفلاحِ دارین اور سعادتِ انسانی تک پہنچایا، خلافتِ راشدہ کے ابتدائی نصف زمانہ میں مسلمانوں کوترک کردہ سامانِ گمراہی اور فراموش شدہ عصبیتِ خاندانی سے کوئی تعلق نہ تھا، بلالِ حبشی کواکابر قریش سیدی کہہ کرپکارتے اور اعمالِ نیک کی بناپر اُن کواپنے آپ سے زیادہ مکرم ومعظم جانتے تھے، اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں بڑے بڑے خاندانی مہاجرین وانصار کومحکوم بناکر بھیجنے میں یہی حکمت تھی کہ کسی کے گوشہ میں یہ خیال باقی نہ رہ سکے کہ محض قوم یانسل یاخاندان کی وجہ سے کوئی مکرم ومعظم بن سکتا ہے، حکومت وخلافت اگرکسی خاص قبیلہ اور خاص خاندان کا حق ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صوبوں اور ولایتوں کی حکومت میں بنی ہاشم کے سوا کسی دوسرے کوعامل بناکر نہ بھیجتے اور فوجوں کی سپہ سالاری سوائے بنی ہاشم کے کسی دوسرے کو عطانہ فرماتے؛ لیکن آپ نے بہت ہی کم کسی ہاشمی فوج کی سپہ سالاری یاکسی ولایت کی حکومت پرمامور فرمایا، آپ نے ہمیشہ ذاتی قابلیت کے موافق لوگوں کوسرداریاں اور حکومتیں عطا فرمائیں اور کسی خاندان یاقبیلہ سے تعلق رکھنے کوحکومت وسرداری کے لیے جائز استحقاق نہیں سمجھا؛ یہی سبب تھا کہ دربارِ نبوی سے غلاموں تک کوقابلیت کے سبب اکابر قریش کی سرداری اور عظیم الشان فوجوں کی سپہ سالاری حاصل ہوسکتی تھی، توحید کامل سکھانے والے استاد کامل سے اس کے سوا کسی دوسرے طرزِ عمل کی توقع بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ قبیلہ بنی امیہ اور بنی ہاشم میں پہلے سے ایک رقابت اور مسابقت چلی آتی تھی، یعنی ان دونوں میں سے ہرایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتا تھا، غالباً یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی (جوبنوہاشم میں سے تھے) بنوامیہ نے ابتداً زیادہ مخالفت کی اور بنوہاشم سے نسبتاً آپ کوامداد پہنچی، جب ملکِ عرب سے مشرکوں کا استیصال ہوگیا اور ان دونوں قبائل کی عنادی مشرک بھی قتل ہوکر بقیہ خوش نصیب اسلام میں داخل ہوگئے توان مسلمان ہوجانے واے بنوامیہ میں ایک کافی تعداد ذی حوصلہ اور قابل آدمیوں کی موجود تھی، جن کی قدردانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علیٰ قدر قابلیت ضروری سمجھی؛ چنانچہ فتح مکہ کے روز ابوسفیان کے گھر کوامان کے معاملہ میں کعبہ کا ہمسر ٹھہراکرانھیں خوش کردیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جوبنوامیہ میں سے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے، ان کے لیئے بیعتِ رضوان ہوئی، اُم المؤمنین اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا بھی بنوامیہ کے قبیلہ سے یعنی ابوسفیان کی بیٹی اور معاویہ کی بہن تھیں، ابوسفیان کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنجران کا عامل مقرر فرمایا تھا، عثمان بن ابوالعاص، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، ان کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف اور اس کے متعلقات کا گورنرمقرر فرمایا تھا، فاروق اعظم نے ان کوعمان وبحرین کا حکم مقرر فرمایا، عتاب بن اسیدابوسفیان کے چچا ابوالعیص کے پوتے تھے، مکہ کی فتح کا دن مسلمان ہوئے اور مکہ کے حاکم مقرر کئے گئے، خالد بن سعید ابوسفیان کے چچا عاص کے پوتے تھے، اُن کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا عامل مقرر فرمایا تھا، یہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے، عثمان بن سعید کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا اور اُن کے بھائی ابان کوبحرین کا عامل مقرر فرمایا تھا؛ اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ذرابھی بنوامیہ اور بنوہاشم کی قدیمی رقابت کا کوئی شائبہ ہوتا اور آپ ذاتی قابلیتوں پرنسلی وخاندانی تعلقات کوترجیح دیتے توبنوامیہ کے افراد کواس طرح صوبوں کے عامل ہرگز مقرر نہ فرماتے؛ مگرنسلی امتیازات کوذاتی قابلیت پرآپ ہرگز ترجیح نہیں دیتے تھے، ہاں نسلی امتیازات کوآپ تسلیم کرتے تھے؛ مگراسی حد تک کہ جن خاندانوں میں انتظامی قابلیت اور سرداری کی لیاقت ہمیشہ زیادہ پائی گئی آپ نے بھی انتظامی کاموں اور سپہ سالاریوں کے لیئے انھیں خاندانوں کے افراد میں سے قابل آدمیوں کوزیادہ تلاش کیا۔ بنوامیہ اور بنوہاشم دونوں قبیلوں کی پرانی رقابت اسلام نے ابھی نئی نئی مٹائی تھی؛ لہٰذا احتیاط اس کی متقاضی تھی کہ ان کوخلافت کے معاملہ میں اور کچھ دنوں ایسا موقع نہ دیا جاتا کہ وہ اپنی فراموش شدہ رقابت کوپھرتازہ کرسکیں؛ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرہ کا بخوبی احساس فرمایا اور اپنے بعد محض قابلیت کی بناپرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کونمازوں کا امامبناکر ان کی خلافت کے لیئے اشارہ فرمایا جس پرصحابہ کرام کی فہم وفراست والی جماعت نے بخوبی عمل کیا؛ اسی طرح ابوبکر صدیق نے بھی اپنے بعد ایسا جانشین مقرر فرمایا جوقابلیت کے اعتبار سے سب پرفائق اور مذکورہ بالا دونوں قبیلوں میں سے کسی ایک سے بھی تعلق نہ رکھتا تھا؛ اسی طرح حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بعد اگرحضرت ابوعبیدہ بن الجراح یاسالم مولی میں سے کوئی ایک خلیفہ ہوتا جیسا کہ عمرفاروق کی آرزو تھی تویہ مردہ رقابت دوبارہ زندہ نہ ہوتی؛ مگریہ دونوں بزرگ فاروق اعظم سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے؛ پھراگرہرشش اصحاب شوریٰ اپنے آپ میں سے کسی کوانتخاب کرنے میں صرف اسی اصول پرکاربند ہوتے کہ کوئی بنوامیہ اور کوئی بنوہاشم خلیفہ نہ بنایا جائے توآئندہ پیش آنے والے خطرات ممکن ہے کہ پیش نہ آتے اور کم از کم ان دونوں قبیلوں کواپنی فراموش شدہ رقابت یاد نہ آتی؛ اگرحضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عمر کے بعد خلیفہ ہوتے تب بھی بہت زیادہ ممکن تھا کہ یہ آتش خاموش دوبارہ مشتعل نہ ہوتی؛ کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ بنوہاشم کی اس طرح غیرمعمولی اور قابل احساس رعایت کرتے جیسی کہ حضرت عثمان غنی کے ہاتھوں بنوامیہ کی ہوئی؛ بہرحال ہم کویہ ایمان رکھنا چاہیے جوکچھ ہوا، مشیتِ ایزدی کے ماتحت ہوا اور یہی ہونا چاہیے؛ کیونکہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے کہ ہم وقوع یافتہ اعمال وافعال کے نتائج پراپنی نابودہ وغیرہ واقع شدہ تجاویز کے نتائج کویقینی طور پرترجیح دے سکیں، ہاں! ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کی رقابت کا عہد اسلامی میں دوبارہ پیدا ہوکر تادیر باقی رہنا اسلام کے لیے بے حد نقصان رسان تھا اور آج اس رقابت کے قائم اور باقی رکھنے والے اور کسی خاندان یاقبیلہ کے تعلق کوخلافت کے لیئے ضروری سمجھنے والے لوگ تعلیم اسلامی کے سخت مخالف اور اسلام کے لیے بے حد نقصان رساں ثابت ہورہے ہیں۔ بنوامیہ اپنی ذاتی قابلیتوں کی وجہ سے پہلے ہی خلافتِ اسلامیہ کے ایک ضروری جزوبنے ہوئے تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد ان کی نرم مزاجی اور مروان بن الحکم کے اقتدار سے فائدہ اٹھا کربنی امیہ نے اپنی طاقت اور اثر کویک لخت اس قدر بڑھالیا کہ تمام عالم اسلامی پرچھاگئے اور اپنی سیادت تمام ملک عرب پرقائم کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہوگئے، جس کووہ عہدِ جاہلیت میں بنوہاشم کے مقابلہ میں قائم نہ کرسکے تھے، حضرت عثمان غنی کی شہادت نیزمنافقوں اور مسلم نمایہودیوں کی سازشوں نے ان کواور بھی امداد پہنچائی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کواپنے عہد خلافت میں زیادہ پریشانیوں اور دقتوں کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑا کہ وہ بنی ہاشم تھے، تمام اہلِ عرب کی نگاہوں میں بنوہاشم اور بنوامیہ کی رقابتوں کے نقشے گھومنے لگے؛ انھوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہراس کوشش کوجومعاویہ اور بنوامیہ کے خلاف وہ کرتے تھے اسی رقابت پرمحمول کرکے ان کا پورے طور پرساتھ نہ دیا؛ کیونکہ وہ ان دونوں قبیلوں کی پرانی رقابتوں کودوبارہ زندہ کرنے میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتے تھے؛ اگرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جگہ کوئی دوسرا غیرہاشمی خلیفہ ہوتا تویقیناً اس کوعرب قبائل کی زیادہ امداد حاصل ہوتی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگر خود خلیفہ نہ ہوتے توحضرت امیرمعاویہ کے شکست دینے اور بنی امیہ کونیچا دکھانے میں زیادہ کام کرسکتے اور اس غیرہاشمی خلیفہ کوکامیاب بنانے میں اپنی قوت اور اثر کوبہت زیادہ پاتے۔ اس موقع پربے اختیار حضرت امام حسن علیہ السلام کے وہ آخری الفاظ یاد آجاتے ہیں جوانھوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کوفوت ہوتے وقت بطورِ وصیت سنائے تھے کہ: آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی تک خلافت پہنچی توتلواریں میانوں سے نکل آئیں اور یہ معاملہ طے نہ ہوا، اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں جمع نہیں رہ سکتیں۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ان الفاظ کی صداقت پرمستقبل جوآج تک ماضی بن چکا ہے، اپنی مہرِصداقت ثبت کرچکا ہے، خلافتِ راشدہ کے بعد قریباً نوے سال تک بنوامیہ نے دمشق کودارالخلافہ بناکر تمام عالمِ اسلام پرحکومت کی، اندلس میں بھی کئی سوسال تک ان کی شان دارخلافت وحکومت قائم رہی، خاندانِ بنوعباس کی حکومت بغداد میں پانچ سوبرس سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی، بنوعباس، بنوہاشم توضرور ہیں؛ لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی اولاد ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی اولاد نہیں ہیں، یعنی سادات کوخاندانِ نبوت کہا جاسکتا ہے؛ کیونکہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خون حضرت فاطمہ کے ذریعہ شامل ہے؛ لیکن عباسیوں میں خاص آنحضرت صلعم کے خون کی آمیزش نہیں ہے؛ لہٰذا ان کوخاندانِ نبوت نہیں کہا جاسکتا، مصر کے ایک حکمران خاندان نے اپنے آپ کوفاطمی کہا لیکن محققین نے ان کواپنے اس دعویٰ میں جھوٹا پایا، ہندوستان میں بھی ایک حکمران خاندان گذرا ہے، جس کوخاندانِ سادات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؛ مگریہ حقیقت عالم آشکارا ہے کہ حضرخاں حاکمِ ملتان جواس خاندان کا مورثِ اعلیٰ تھا ہرگز سیدنہ تھا، اس کے سیدمشہور ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک بزرگ صوفی نے اس کوسید (سردار) کہہ کرپکارا تھا، آج کل بھی لوگ مغل اور پٹھان سرداروں کو سیدی کہہ کرمخاطب کرلیتے ہیں؛ غرض کہ آج تک کسی ملک میں سادات کی کوئی قابل تذکرہ خود مختار حکومت اور بادشاہت کبھی قائم نہ ہوسکی، ایک طرف یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے، دوسری طرف امام حسن علیہ السلام کے اُن آخری الفاظ کودیکھتے ہیں توبے اختیار ہمارا دل ان الفاظ کی پرعظمت صداقت کا مقر اور اُن الفاظ کی ہیبت وشوکت سے مرعوب ہوجاتا ہے۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت جوکچھ اپنے بھائی حسین علیہ السلام سے فرمایا یہ صرف انھیں کا اجتہاد یاالہام نہ تھا؛ بلکہ صحابہ کرام کی اس تمام جماعت کا جس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں زیادہ رہنے کا موقع ملا تھا؛ یہی خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ہاشمی کونہ کسی صوبے کی مستقل حکومت عطا فرمائی، نہ کسی بڑی فوج کا خود مختار اور ذمہ دار سپہ سالار بنایا، جنگ موتہ میں آپ نے جعفر بن ابی طالب کوسپہ سالاری پرنامزد فرمایا؛ مگراپنے آزاد کردہ غلام زید بن حاردث کوان پرمقدم اور فائق رکھا، حضرت علی کوچند روز کے لیئے یمن کے خراج کی وصولی پرمقرر فرمایا؛ مگریمن کی اعلیٰ حکومت وافسری معاذ بن جبل اور ابوموسیٰ اشعری کوتفویض کی؛ اسی طرح ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق نے بنوہاشم کوذمہ دارانہ عہدوں اور صوبوں کی حکومتوں پرمامور نہیں فرمایا؛ حالانکہ یہ دونوں اولین خلیفہ بنوہاشم کی بڑی تعظیم وتکریم بجالاتے اور ان کی رحت وخوشنودی کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے، اپنے کاموں میں انھیں سے مشورہ طلب کرتے اور عموماً انھیں کے مشوروں پرعمل بھی کرتے تھے، فاروق اعظم نے ایک موقع پرصاف فرمادیا تھا کہ اگرشرفِ نبوت کے ساتھ ان لوگوں کوحکومت بھی مل گئی تووہ لوگوں کواپنا حد سے زیادہ محکوم ومغلوب پاکر غرور قومی میں مبتلا ہوجائیں گے اور اس طرح اسلام کی حقیقی روح کوضائع کرکے خود بھی ضائع ہوجائیں گے، ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ جوشخص عہد جاہلیت کی عصبیت کی طرف ترغیب دلائے وہ واجب القتل ہے؛ پھرایک مرتبہ فرمایا کہ اگرکسی شخص نے اپنی قرابت داری یادوستی کی وجہ سے کسی کوامیر یاحاکم بنادیا؛ حالانکہ مسلمانوں میں اس سے بہتر شخص مل سکتا تھا تواس نے خدا ورسول اور تمام مسلمانوں کی خیانت کی؛ غرض صرف حضرت امام حسن علیہ السلام ہی کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ خاندانِ نبوت کے لیئے شرفِ نوت ہی کافی ہے اور اس کے ساتھ شرفِ حکومت کوجمع نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ یہی عقیدہ اکثردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کاک بھی تھا اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا سے شرک کے مٹانے اور شرک کے امکانات کا استیصال کرنے کے لیے ساداتِ عظام کوجوسردارِ دوجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، دنیا کی حکومت اور مادّی دولت کا خواہش مند بھی نہ ہونا چاہیے؛ تاکہ وہ فرزندیٔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اپنے آلِ رسول ہونے کا پورا پورا ثبوت پیش کرسکیں؛ اگرآں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم نہ فرماتے کہ ساداتِ عظام کے لیئے صدقہ حرام ہے توہم کویہ توقع ہوسکتی تھی کہ سادات یعنی خاندانِ نبوی ہی مستحقِ خلافت اور شہنشاہی کا حقدار ہے؛ لیکن آپ کا خاندان نبوت کے لیئے یہ انتظام فرمانا سب سے بڑی دلیل اس امر کی ہے کہ دنیوی حکومت وسلطنت اور مادّی دولت سے بے تعلق ہونا اپنے خاندان والوں کے لیئے آپ پہلے تجویز فرماچکے، یاالہامِ الہٰی سے معلوم کرچکے تھے، ساداتِ عظام کے لیئے یہ اتنا بڑا فخر ہے اور ان کے مرتبہ کواس قدر بلند کردیتا ہےکہ دنیا کی دوسری قومیں جوشریعتِ اسلام سے تعلق رکھتی ہیں، ان پرجس قدر رشک کریں کم ہے، دنیوی دولت اور حکومت بھی وہ چیز ہے جوانسان کوخدا سے دورمہجور کردیتی ہے اور اسی لیئے قرآن وحدیث میں دولتِ دنیا کوحقارت کی نظر سے دیکھا گیا ہے، تاریخ ہم کوبتاتی ہے کہ دولت وحکومت کی وجہ سے علمِ صحیح بھی اعمالِ صالحہ پرلوگوں کوآمادہ نہیں کرسکا؛ پس شریعت حقہ کی حفاظت انھیں لوگوں نے کی ہے جودولت وحکومت سے کچھ زیادہ تعلق نہ رکھتے تھے اور اسی قسم کے لوگ قیامت تک اسلام کی حفاظت کا کام کرتے رہیں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام غریبوں ہی سے جاری ہوا اور غریبوں ہی میں انجام کار رہے گا، اب اس کے بعد اس حدیث پرغور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں قرآن اور اپنی آل یعنی سادات کوچھوڑتا ہوں؛ پس یہ حدیث بھی دلیل اس بات کی ہوجاتی ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے عین منشائے حدیث کے موافق فرمایا تھا کہ: میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں جمع نہیں رہ سکتیں۔