انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ترکِ تقلید کے نتیجہ میں نئے نئے مذاہب ہندوستان میں مغلیہ عہد میں صرف دوہی فرقے پائے جاتے تھے، سنی تھے یاشیعہ، نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں: "ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ سے مذہب شیعی یاحنفی رکھتے ہیں"۔ (ترجمانِ وہابیہ:۸۶) انگریزوں نے جب یہاں مذہبی آزادی کا اعلان کیا توسلاطینِ مغلیہ کی وہ گرفت جوعام مسلمانوں کوایک ہی مذہب پر رکھے ہوئے تھی ڈھیلی پڑگئی، نواب صاحب گورنمنٹ کی پالیسی کے بارے میں لکھتے ہیں: "جوامن وآسائش وآزادگی اس حکومت انگریزی میں تمام خلق کونصیب ہوئی کسی حکومت میں بھی نہ تھی اور وجہ اس کی سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھی گئی کہ گورنمنٹ نے آزادی کامل ہرمذہب والے کو دی ہے"۔ (ترجمانِ وہابیہ:۱۰۱) شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب نے اس آزادی سے فائدہ اُٹھایا توسرسیداحمد خان نے کل اسلاف سے ہی علمی بغاوت کردی اور نیچری فرقہ کے عنوان سے معتزلہ ایک نئی شکل میں سامنے آئے، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی اور مرزا غلام احمد قادیانی جومدتوں اہلِ حدیث مسلک پر اکٹھے کام کرتے رہے تھے، ان میں سے مرزا غلام احمد کل پرانے اسلام سے بغاوت کرگئے اور قادیانی مذہب وجود میں آیا، میاں نذیر حسین صاحب کے شاگرد مولانا سلامت اللہ جیراجپوری اہلِ حدیث (باصطلاح جدید) کے نامور عالم تھے؛ مگر اُن سے ان کے بیٹے حافظ اسلم جیراپوری ترکِ تقلید میں آگے بڑھ کرترکِ حدیث کی سرحد پر آگئے، ڈپٹی نذیراحمد صاحب کے شاگرد مولوی عبداللہ چکڑالوی جولاہور میں جماعت اہلِ حدیث کی پہلی مسجد (چینیاں والی) کے امام اور خطیب تھے، رفتہ رفتہ منکرینِ حدیث کے پیشوا بنے اور برطانوی ہندوستان میں قادیانی، نیچری، چکڑالوی سب اپنے اپنے محاذوں پرآکھڑے ہوئے، اس تلخ تجربے نے علمائے "اہلِ حدیث" کوپھر سوچنے پر مجبور کیا کہ ترکِ تقلید کا یہ انداز آخر کہاں تک چلتا رہے گا، کہیں یہ ساری جماعت کوہی اسلام سے لاباہر نہ کرے۔