انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عرب کے یہوداور ہجرت اُوپرذکر آچکا ہے کہ مختلف اسباب کی بناپر یہود شام وفلسطین کی سرسبز وشاداب سرزمین چھوڑ کرجزیرۂ عرب جیسے بے آب وگیاہ مقام کا رُخ کرتے تھے؛ لیکن بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ عرب کے یہود کہیں باہر سے نہیں آئے تھے؛ بلکہ یہ عرب ہی کی نسل سے تھے، جنھوں نے یہودیت قبول کرلی تھی، یعقوبی کا رحجان بھی یہی معلوم ہوتا ہے، چنانچہ وہ بنی نضیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: وهم فخذ من جذام إلا انهم تهودوا ونزلوا بجبل يقال له النضير، فسموا به۔ (تاريخ اليعقوبي،وقعة بني النضير:۱/۱۲۲، شاملہ، موقع الوراق۔دوسری طباعت:۲/۴۹) ترجمہ:یہ جذام کی ایک شاخ تھی؛ مگریہ یہودی ہوگئے تھے اور جہاں یہ آباد ہوئے اس مقام کا نام نضیر تھا؛ اسی لیے وہ اس نام سے مشہور ہوگئے۔ پھربن قریظہ کے متعلق لکھتا ہے: وهي فخذ من جذام أخوه النضير، ويقال أن تهودهم كان في أيام عاديا أي السموأل، ثم نزلوا بجبل يقال له قريظة، فنسبوا إليه۔ (تاريخ اليعقوبي،وقعة بني قريظة:۱/۱۲۳، شاملہ، موقع الوراق۔دوسری طباعت:۲/۵۴) ترجمہ:یہ بھی جذام کی ایک شاخ ہے، بنونضیرکے بھائی بند تھے، کہا جاتا ہے کہ یہ عادیا بن سموأل کے زمانے میں یہودی ہوئے؛ پھرجبل قریظہ کے پاس آباد ہوئے اور اسی نسبت سے اس کا یہ نام پڑگیا۔ جولوگ اس خیال کے موید ہیں، یعقوبی کے بیان کے علاوہ ان کا قیاسی استدلال یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے حصوں کے یہود اپنے عادات واطوار اور اپنے تمدنی اثرات کے اعتبار سے وہاں کے باشندوں سے ہمیشہ ممتاز رہے؛ لیکن عرب کے یہود کسی حیثیت سے بھی عربوں سے ممتاز نہیں تھے اور نہ انھوں نے کوئی تمدنی یاعلمی یادگار چھوڑی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربی ہی جنس سے تھے، صرف انہوں نے کسی وجہ سے اپنا مذہب تبدیل کرلیا تھا؛ لیکن صرف یعقوبی کے بیان اور فرضی قیاسات پریہ فیصلہ کرلینا کہ عرب کے تمام کے تمام یہود عربی النسل تھے، صحیح نہیں ہے۔ اوپرجن واقعات کا تذکرہ آچکا ہے، ان ہی سے اس کی پوری تردید ہوجاتی ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں دوتین باتیں قابل لحاظ ہیں: (۱)یعقوبی نے بنی قریظہ اور بنونضیر کے متعلق جوکچھ بیان کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے، انشاء اللہ ان قبائل کے تذکرے کے وقت اس کے دلائل ہم پیش کریں گے۔ (۲)یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ عرب کے یہود دنیا کے دوسرے حصوں کے یہود سے ممتاز نہیں تھے، یاان کاکوئی تمدنی امتیاز نہیں تھا، اس گوشہ پریہود کے تمدنی اثرات کے تحت آئندہ ہم مفصل بحث کریں گے؛ لیکن یہاں دوایک باتیں سرسری طور سے کہی جاتی ہیں۔ پہلی بات تویہ ہے کہ یہود کودُنیا کے کسی گوشہ میں کوئی امتیاز کبھی بھی حاصل نہیں تھا، اس لیے ان کے پاس وہ اسباب وذرائع (خصوصیت سے حکومت) موجود ہی نہیں تھے جن کی بناپرقومیں امتیاز حاصل کرتی ہیں، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ کہیں بھی ممتاز تھے، دوسری بات یہ ہے کہ عرب کے یہود کوشاید سب سے زیادہ امتیازی حیثیت حاصل تھی، اس لیے کہ قرآن نے زیادہ تران ہی کے عقائد اور اخلاق ومعاملات سے بحث کی ہے، اس خیال کی زیادہ ترتائید غالباً یہودی مستشرقین نے بھی کی ہے، اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے ان بیانات کی اہمیت گھٹائی جائے، جن کا تعلق یہود سے ہے؛ لیکن یہ خیال تاریخی حیثیت سے صحیح نہیں ہے۔ یہ بات کہ یہود باہر سے نہیں آئے، پورے جزیرہ کے متعلق تویہ کہنا صحیح نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ جزیرۂ عرب کے باشندوں کی ایک بڑی آبادی نے یہودیت قبول کرلی تھی، خصوصیت کے ساتھ یمن کے یہود تواکثر وبیشتر عرب ہی تھے، اس لیے اس سلسلہ میں صحیح مسلک یہ ہے کہ یہود باہر سے بھی آئے اور خود عربوں کے بعض قبائل اور افراد نے بھی اسے قبول کیا، جن کا تذکرہ آگے آئے گا، خصوصیت سے صمالی حجاز کے یہود زیادہ ترباہر سے آئے تھے۔