انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قبا میں آمد ۸ ربیع الاول ۱۴ نبوت مطابق ۲۳ ستمبر ۶۲۲ ء بروز دوشنبہ یہ مقدس قافلہ قبا پہنچا ، مکہ سے قبا تک کا سفر آٹھ روز میں طئے ہوا ، مکہ سے آپﷺ کی رو انگی کی خبر پہلے ہی پہنچ گئی تھی، ہر روز تمام شہر کے لوگ شہر کے باہر جمع ہوجاتے اور شام تک ایک سیاہ چٹان پر جسے" حرّہ العصبہ " کہتے ہیں آکر بیٹھ جاتے اور انتظار کر کے چلے جاتے، ۸ ربیع الاول کو بھی انتظار کرکے سب لوگ جا چکے تھے کہ ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا اور پہچان کر پکارا ، اے بنی قیلہ (اوس و خزرج کی ماں کا نام) جن صاحب کا تم انتظار کر رہے تھے وہ آگئے، تمام اہلِ قبا نے نعرۂ تکبیر کیساتھ آپﷺ کا استقبال کیا ، قبا کی بستی مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں قبیلہ اوس کے خاندان آباد تھے، ان میں سب سے ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا جس کے سردار اس وقت حضرت کلثومؓ بن ہدم تھے، حضورﷺ حضرت کلثومؓ بن ہدم کے مہمان ہوئے ، انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور جوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے۔ (صحیح بخاری ، طبقات ابن سعد بحوالہ سیرت النبی جلد اول ) لوگوں سے ملاقات حضرت سعدؓبن خشیمہ کے مکان پر ہوتی، یہ مکان " منزل العزآب" (کنواروں کا گھر )کے نام سے مشہور تھااس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھے،حضرت کلثومؓ بن ہدم کے مکان میں حضرت ابو عبیدہؓ، حضرت مقدادؓ، حضرت خبّابؓ،سہیلؓ، حضرت صفوان ؓ ، حضرت عیاضؓ ، حضرت وہبؓ بن سعد، حضرت معمرؓ بن ابی برح، عمیرؓ بن عوف پہلے سے مقیم تھے ، چند روز بعد حضرت علیؓ اپنے رفقاء کے ساتھ آگئے اور اسی گھر میں انھوں نے بھی قیام کیا،امام ابن کثیر کا بیان ہے کہ حضوراکرمﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے قبل ہی حضرت کلثوم ؓ بن ہدم مسلمان ہوچکے تھے اور حضورﷺ کے مدینہ میں آنے کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت کلثومؓ بن ہدم فوت ہوئے،صحیح بخاری کے بموجب حضور ﷺ کا قیام قبا میں چودہ روز رہا، یہاں آپﷺ کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا، حضرت کلثومؓ کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں، یہیں آپﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی، گارا بنانے والے ایک صحابی عمیسؓ یہ مصرعہ پڑھ رہے تھے: " اَ فَلح مَن یّعاَلِج المسَاجد" (کامیاب ہیں وہ جو مساجد تعمیر کرتے ہیں) مہاجرین و انصار نے مل کر جواب دیا، " وَ یَقر ئَ ا لقُراٰن قَا ئِماً وَّقَاعِدَا" ( وہ اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتے رہتے ہیں ) پھر سب ایک زبان ہوکرپڑھتے: "وَ لاَ یُبَیتَ ا للَّیل عَنہ رَ اقِد ا " (اور جو راتوں کو عبادت کے لئے جاتے ہیں) مسجد قبا اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا، سب مسلمانوں نے جوش وخروش کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا، خود حضور ﷺ بھی اپنی عادت کے مطابق عام مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور پتھروں کو اٹھانے اور ردّے جمانے میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے، یہی وہ مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی ۱۰۸ ویں آیت میں فرمایا گیا: " (اے پیغمبر) تم اس مسجد میں کبھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ واقعی اس لائق ہے کہ تم اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اﷲ پاک صاف رکھنے والوں کو پسند کرتاہے" (قرآن - سورۂ توبہ : ۱۰۸ ) اس شرف کی بناء پر حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ سے ہر ہفتہ کو قباء تشریف لایا کرتے تھے ، حضرت عمرؓ ہفتہ میں دو دن تشریف لے جایاکرتے تھے اور اس کے خس و خاشاک دور کرکے اور جاروب کشی کرکے برکت اندوزی فرماتے تھے، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص فرمایا کرتے تھے کہ مسجد قباء میں دو رکعت نماز بیت المقدس کی دو مرتبہ کی زیارت سے میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے، (پیغمبر عالم ) قباء سے روانگی قبا میں چودہ روز قیام کے بعد آپ ﷺ نے ۲۲ ربیع الاول ۱۴ نبوت مطابق ۷ اکٹوبر ۶۲۲ ء بروز جمعہ کوچ کا ارادہ ظاہر فرمایا ، عمرو بن عوف کے قبیلہ والوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ : کیا ہم سے کوئی خطا سر زد ہوئی جس کی وجہ سے آپﷺ ہم سے ناراض ہو کر یہاں سے تشریف لے جارہے ہیں؟ہمارے ماں باپ آپﷺ پر قربان آپﷺ یہیں قیام فرمائیے، اس پر آپﷺنے فرمایا : مجھے آگے جانے کا حکم ہوا ہے، چنانچہ آپﷺوہاں سے روانہ ہوئے، جب قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہنچے تو نماز جمعہ کاوقت ہو چکا تھا، آپﷺنے وہاں مختصر قیام کر کے مسجد غیب میں نماز جمعہ ادا فرمائی جو بعد میں مسجد جمعہ کے نام سے مشہور ہوئی، یہ تاریخ ِ اسلام کا پہلا جمعہ تھا جو حضورﷺ کی امامت میں ادا ہواجس میں شرکاء کی تعداد( ۱۰۰)تھی، نماز سے قبل آپﷺنے جمعہ کاخطبہ ارشاد فرمایا، اس خطبہ میں آپﷺ نے اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری پر زور دیا اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی، اس خطبہ میں اہل مکہ کے مظالم کی شکایت کے متعلق ایک حرف بھی نہ تھا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺکی سواری آگے بڑھی، (سیرت طیبہ )