انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مولانا محمد الیاس صاحبؒ (م:۱۹۴۴ ء) ۱۔دنیا کا مفہوم نگاہ میں بہت غلط ہے،معیشت دنیا کے اسباب میں مشغول ہونے کا نام دنیا ہرگز نہیں ہے، دنیا پر لعنت ہے اور لعنت کی چیز کا خدائے پاک کی طرف سے حکم نہیں ہوسکتا، لہذا جس چیز کا حکم ہے اس کا حکم سمجھ کر اس کے اندر سرگرمی یعنی حکم کو تحقیق کرنا اورحکم کی عظمت کے ماتحت اس کے حلال وحرام کا دھیان کرنا اسی کا نام دین ہے اور حکم سے قطع نظر کرکے خود اپنی ضرورتوں کو محسوس کرنا اور حکم کے علاوہ کوئی اور وجہ اس کے ضروری ہونے کی قراردینا اس کا نام دنیا ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۰۵) ۲۔جب تک عوام کے سامنے عملی نمونہ نہ ہو، محض منبروں پر تقریر عمل پر پڑنے کے لئے کافی نہیں ہوسکتی، اگر تقریر کے بعد عمل پر پڑنے کی تجویز وتشکیل نہ ہو تو عوام کے اندر ڈھٹائی اوربے ادبی کے لفظ بولنے کی عادت پڑجائے گی۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۰۸) ۳۔عرصہ سے میرا اپنا خیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اشاعت دین کے لئے خود جاکر عوام کے دروازوں کو نہ کھٹکھٹائیں اورعوام کی طرح یہ بھی گاؤں گاؤں اورشہر شہر اس کام کے لئے گشت نہ کریں، اس وقت تک یہ کام درجہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ عوام پر جو اثر اہل علم کے عمل وحرکت سے ہوگا وہ ان کی دھواں دھار تقریروں سے نہیں ہوسکتا، اپنے اسلاف کی زندگی سے بھی یہی نمایاں ہے جو کہ حضرات اہل علم پر بخوبی روشن ہے۔ ۴۔علم کے فروغ اورترقی کے بقدر اورعلم کے فروغ اورترقی کے ماتحت دین پاک فروغ اورترقی پاسکتا ہے،میری تحریک سے علم کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے یہ میرے لئے خسران عظیم ہے،میرا مطلب تبلیغ سے علم کی طرف ترقی کرنے والوں کو ذرا بھی روکنا یا نقصان پہنچانا نہیں ؛بلکہ اس سے بہت زیادہ ترقیات کی ضرورت ہے اور موجودہ جہاں تک ترقی کررہے ہیں یہ بہت ناکافی ہے۔ ۵۔کاش تعلیم کے ہی زمانہ میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی استادوں کی نگرانی میں مشق ہوجایا کرے تو علوم ہمارے نفع مند ہوں ورنہ افسوس کہ بے کار ہو رہے ہیں،ظلمت اورجہل کا کام دے رہے ہیں۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے:مولانا الیاس ؒ اور ان کی دینی دعوت،ص:۱۱۰) ۶۔مؤ منین کی خدمت عبدیت کا اصل مقام ہے،عبدیت کیا ہے؟ مؤ منین کے لئے ذلیل ہونے کی عزت حاصل کرنا، یہی ہماری تحریک کا اولین اصول ہے اوریہ ایک ایسا اصول ہے کہ کوئی اجتہادی (یعنی علماء کرام) تقلیدی (عوام الناس) یا مادی (جو لوگ ہرکام کو دولت یا دنیا کے حصول کے لئے کرتے ہیں) اس کی تردید نہیں کرسکتا۔ ۷۔ہم رسول کریمﷺ کے راستے سے صرف بھٹکے ہی نہیں ؛بلکہ بہت زیادہ بھٹک گئے ہیں، کبھی حکومت یا اورکسی قسم کا سیاسی اقتدار مسلمانوں کا مقصد نہیں ہوسکتا،رسول کریم ﷺ کے راستے پر چلتے ہوئے اگر حکومت مل جائے تو اس سے ہمیں ہٹنا نہیں،لیکن یہ ہمارا مقصد ہرگز نہیں،بس اس راہ میں ہمیں سب کچھ ؛بلکہ جان تک بھی لٹوادینا ہے۔ ۸۔مسلمانوں کی برائیوں کا انسداد ان کی برائیوں کی برائی بیان کرنے سے نہیں ہوسکتا؛بلکہ چاہئے کہ ان میں جو ایک آدھ بھی اچھائی موجود ہو اس کی تکثیر کی جائے، برائیاں خود بخود دور ہوجائیں گی۔ ۹۔باطن مذہب،ایمان ،واحتساب ہے،بہت سے اعمال میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے "ایمانا واحتسابا" لہذا ہر عمل کے بارے میں جو خطابات وارد ہوئے ہیں ان میں دھیان کرنا اوراس کے ذریعہ حق تعالیٰ کی عظمت، اس کی بڑائی اور اس کے قرب اوریقین کو بڑھانا اوران اعمال پر جو دینی ودنیوی مصالح اورانعامات وعطیات کا وعدہ فرمایا گیا ہے ان کو بطور عطا کے نہ بطور معاوضہ کے یقین کرنا یہ باطن ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۶۸) ۱۰۔اعمال اپنی ذات سے کوئی قیمت نہیں رکھتے،ان کے اندر جو قیمت آتی ہے وہ اللہ کے حکم کے امتثال کے ذریعہ اس ذات عالی کی وابستگی سے آتی ہے، تو جس قدر وجوہ وابستگی پر قابو ہوگا اوروہ ملکہ قوی ہوگا اورجتنا بھی عمل زیادہ طمانینت اوردل سے اورقوت سے ہوگا، ان اعمال کی اصلی قدر وقیمت اسی قدر ہوگی۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۶۸) ۱۱۔بسا اوقات تھوڑے سے کئے ہوئے کو دیکھ کر ان پر خوش ہوجانا باقیوں کی کوتاہیوں کو محسوس ہونے سے حجاب ہوجاتا ہے اوراپنے اس مغالطہ سے بچنے کی بہت زیادہ فکر رکھیں، کرنے والوں کو دیکھ کر ان کی خوشی کا صرف اتنا ہی اثر لیں کہ فطرتا اپنی غلطی سے اثرات مرتب ہونے کو جو ہم اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ نہ ہونی چاہئے اصل کامیابی کوشش میں لگ جانا ہے نہ کہ ثمرات کا مرتب ہونا؛چنانچہ دینی امور کا ثمرہ اجر وثواب ہے،وہ محض کام میں مشغول ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۶۹) ۱۲۔دنیا کی زندگی کی اس سے زیادہ بساط نہیں کہ کسی دروازہ کا ایک پٹ پہلے بند کیا پھر دوسرا پٹ، اس طرح انسان آگے پیچھے دنیا سے جاتا ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۷۸) ۱۳۔لا یعنی میں اشتغال کام کی رونق کو کھودیتا ہے۔ ۱۴۔آدمی کی لذتیں اوردلچسپیاں جو دنیا کی بہت سی چیزوں میں بٹی ہوئی ہیں،سب سے نکل کر کسی ایک چیز میں سمٹ آئیں یہی عشق ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۸۲) ۱۵۔دین کو فروغ دینے کی کوشش میں لگنا ہی بلاؤں کو ٹال سکتا ہے اور مقاصد کو تروتازہ کرسکتا ہے اور اس طرز زندگی سے غافل ہوتے ہوئے بہبودی کا انتظار اوربلاؤں کے کم ہونے کا وہم ایک مجنونانہ اورغلط خیال ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۸۹) ۱۶۔میں بہت ہی دل وایمان سے متمنی ہوں کہ بہت ہی اہتمام کے ساتھ ہمت کو لگا کر یہ دعا کریں کہ میری یہ تحریک سراسر عمل ہو، اقوال کی کثرت اس کے عمل کو مکدر نہ کرے؛بلکہ قول اور تقریر قدر ضرورت اعانت کے درجہ میں رہے۔ ۱۷۔دین کے فروغ کے لئے جان دینے کے شوق کو زندہ کرنا اورجان کو بے قیمت کردینا ہماری تحریک کا مقصود اورخلاصہ ہے۔ ۱۸۔جبل جہد(محنت وتکلیف کے پہاڑ)کے پرلی طرف خدا ہے جس کا جی چاہے مل لے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۹۱) ۱۹۔دنیاوی معیشت کے اندر کے اسباب کی کوشش اور سعی کو جب تک دین کے درست کرنے کی چیزوں میں کوششوں اورسعی سے مغلوب نہیں کیا جائے گا اس وقت تک غیرت خداوندی دین کی دولت سے مالا مال نہیں کرسکتی۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۱۹۴) ۲۰۔ایک دوسرے کے ساتھ عزت وحرمت اورمحبت کو ہرچیز سے بہتر سمجھتے رہیں،ہزار مسائل حقہ کی حمایتوں سے اس ایک حق کی نگہداشت اوراس پر پختہ ہونا افضل واعلیٰ اورموجب رضاء خداوندی ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۲۰۷) ۲۱۔ہماری اس تحریک کی صحیح ترتیب یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ کام دل کا ہو(یعنی اللہ پاک کے سامنے تضرع اوراس کی نصرت پر کامل اعتماد کے ساتھ اس سے استعانت اوردنیا ومافیہا سے بالکل منقطع ہوکر اس کی طرف انابت )اس کے بعد دوسرے درجہ میں جوارح کا کام ہو(یعنی اللہ تعالی کی مرضیات کے فروغ کے لئے دوڑ دھوپ اورمحنت ومشقت) اورتیسرے درجہ میں زبان کا کام ہو(مطلب یہ کہ سب سے کم مقدار تقریر کی ہو اس سے زیادہ مقدار سعی وجہد کی ہو اورسب سے زیادہ مقدار دل کے کام کی ہو، یعنی اللہ تعالی کی طرف انابت اوراس سے استغاثہ واستعانت) (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۲۲۳) ۲۲۔کوئی شخص اورکوئی مسلم ہرگز ایسا نہیں کہ کچھ خوبیوں اورکچھ خرابیوں سے خالی ہو،ہر شخص میں یقیناً کچھ خوبیاں اورکچھ خامیاں ہوتی ہیں اگر خرابیوں کے ساتھ نظر اندازی اورستر(پردہ پوشی) کا اورخوبیوں کی پسندیدگی اوران کے اکرام کا ہم مسلمانوں میں رواج ہوجائے تو بہت سے فتنے اوربہت سی خرابیاں اپنے آپ اٹھ جائیں اورہزاروں خوبیوں کی اپنے آپ بنیاد پڑجائے،مگر دستور اس کے خلاف ہے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۲۴۰) ۲۳۔جس قوم کی پستی لا الہ الا اللہ کے لفظوں سے بھی گرچکی ہو وہ ابتداء سے درستی کئے بغیر انتہاء کی درستی کے کب قابل ہوسکتی ہے، انتہاء ابتداء کے درست ہوئے بغیر نہیں ہوسکتی،اس لئے میں نے درمیانی اورانتہائی خیالات بالکل نکال دئیے،ابتداء درست ہوکر راستہ پر پڑجائیں گے تو انتہا پر خود ہی پہنچ جائیں گے اورابتداء کے بگڑےہوئے انتہاء کی درستی کا خیال ہوس اوربوالہوسی کے سوا کچھ نہیں۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۲۴۲) ۲۴۔اس بات کا ضرور یقین کرنا چاہئے کہ جو شخص اسلام کے مٹنے کا درد لئے ہوئے بغیر مرے گا،اس کی موت بدترین موت ہے، مذہب کے فروغ سے غفلت والا اوراپنی ہی لذت اوردنیاوی زندگی میں مست رہنے والا قیامت کے دن روسیاہ اٹھے گا۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۲۴۸) ۲۵۔یادرکھو کوئی عالم علم میں ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ جو کچھ سیکھ چکا ہے دوسروں تک نہ پہنچائے جو اس سے کم علم رکھتے ہیں اورخصوصا ان تک جو کفر کی حد تک پہنچے ہوئے۔ (مولانا الیاسؒ اوران کی دینی دعوت،ص:۲۵۷)