انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تمدن اوپر گذرچکا ہے کہ نبطی ،بنواسماعیل میں سب سے زیادہ متمدن تھے،انصار کو چونکہ ہم نبطی الاصل سمجھتے ہیں،اس لئے ہم کو دیکھانا چاہئے کہ ان میں تمدن کا کہاں تک اثر تھا؟ ذیل کی سطور میں اسی کو پیش کرنا ہے۔ نظامِ اجتماعی انسان چونکہ بالطبع مدنیت کا دلدادہ واقع ہوا ہے،اسی لئے وحشی قبائل بھی ایک نظام بناکر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان قبائل میں بھی ایک شخص سردار ضرور ہوتا ہے،پھر جب تمدن پھیلتا ہے اوروحشت کم ہوتی ہے تو یہ نظام بھی وسیع ہوتا ہے اوراس میں متعدد شاخیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ انصار میں مازن بن ازو سے حارث الغطریف کے زمانہ تک صرف سرداروں کے نام نظر آتے ہیں،عمرو بن عامر عف مزیقیا کے وقت میں سردار قبیلہ کے ساتھ ایک اورنام بھی معلوم ہوتا ہے (مالک بن یمان) لیکن یہ نہیں پتہ چلتا کہ اس کی حیثیت کیا تھی؟ عمرو کے بیٹے ثعلبۃ العنقا کے عہد میں جب وہ غسان میں مقیم تھا، عک سے نہایت خونریز جنگ ہوتی ہے،تو اس موقع پر ثعلبہ کی قوم ایک باقاعدہ فوج نظر آتی ہے،جو جذع بن سنان کے اشاروں پر حرکت کرتی تھی؛چونکہ جذع نے فوج کا تمام نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا،اس لئے مورخین اس کو سپہ سالار لکھتے ہیں۔ (کتاب المعارف ابن قیتبہ) غرض ثعلبہ کے وقت سے انصار میں دو عہدے قائم ہوئے،رئیس اورسپہ سالار اوریہ دونوں ایک زمانہ تک برقرار رہے؛بلکہ بسا اوقات ایسا ہوا کہ رئیس ہی نے سپہ سالاری کی خدمت بھی انجام دی؛چنانچہ مالک بن عجلان خزرجی اورعمروبن طلحہ نجاری کے متعلق اسی قسم کے واقعات ملتے ہیں۔ اس وقت تک چونکہ انصار کے قبائل باہم متحد تھے،اس لئے ان میں رئیس ایک شخص ہوتا اوروہ عموماً قبیلۂ خزرج سے ہوتا تھا؛چنانچہ مدینہ کی سکونت کے زمانہ میں ہم کو روسائے انصار میں سے جس شخص کا نام سب سے قدیم ملا ہے وہ مالک بن عجلان ہے جو سالم بن عوف بن خزرج کی اولاد تھا،سید سمہودی اس کی نسبت لکھتے ہیں: وسووہ الحیان الاوس والخزرج (خلاصۃ الوفاء:۸۳) اس کو اوس اورخزرج دونوں نے سردار بنایا تھا مالک کے بعد ریاست خاندان سالم سے نکل کر خاندان نجار میں چلی گئی؛چنانچہ تبع اور انصار سے جو جنگ ہوئی اس میں عمرو بن طلحہ نجاری سپہ سالار افواج تھا،جس کے متعلق علامہ طبری نے تصریح کی ہے کہ وہی اس زمانہ میں انصار کا رئیس بھی تھا،(طبری:۲/۹۰۱) ان دونوں روایتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انصار کی ریاست جمہوری اصول پر قائم تھی،ورنہ شخصی ہونے کی صورت میں رئیس صرف ایک خاندان سے ہوتا اوردوسرے خاندان میں انتقال ریاست کے وقت خانہ جنگیاں پیش آتیں،حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن جب انصار میں نزاع پیدا ہوئی تو ریاست دوحصوں میں منقسم ہوگئی اوس اور خزرج،اوس میں عبدالاشہل اورخزرج میں ساعدہ کا خاندان اپنے اپنے قبائل پر حکومت کرتا تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اوس کے سعد بن معاذ اورخزرج کے سعد بن عبادہ رئیس تھے۔ (صحیح بخاری:۲/۵۹۵، باب حدیث الافک) یہ تقسیم کچھ یہیں تک محدود نہیں رہی؛بلکہ ان دونوں قبیلوں میں جتنے خاندان تھے سب نے اپنے لئے علیحدہ علیحدہ رئیس تجویز کرلئے؛چنانچہ قبیلہ اوس میں سے حججبا نےا حیحہ بن جلاح کو سردار بنایا،(ابن اثیر:۱/۴۹۵) خزرج میں بھی اس طرح تفریق ہوئی بنو مازن بن نجار کی سیادت عاصم کو ملی بنو سلمہ نے امۃ بن حرام کو سردار بنایا،امۃکے بعد بنو سلمہ باہمی خونریزیوں کی بدولت متفرق ہوگئے تھے؛لیکن پھر جدبن قیس نے سب کو مجتمع کیا اورخود سردار بن بیٹھا،آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بنوسلمہ کا یہی سردار تھا۔ جنگ بعاث کے بعد جب دونوں قبیلوں نے زچ ہوکر ہمت ہاردی تو پھر قدیم نظام پر عمل کرنے کا خیال پیدا ہوا؛چنانچہ قبیلہ خزرج میں سے ایک شخص عبداللہ بن ابی پر سب نے اتفاق کیا اوراس کو یثرب کا رئیس بنانے کی تجویز پیش کی،صحیح بخاری میں حضرت سعدؓ بن عبادہ سردار خزرج کی زبانی منقول ہے۔ "لَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ "۔ ( بخاری،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنْ الَّذِينَ،حدیث نمبر:۴۲۰۰) اس شہر کے باشندوں نے اس (ابن ابی) کو تاج پہنانے اوربادشاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ابن ابی پر اتفاق کی وجہ یہ تھی کہ وہ زمانہ جاہلیت میں بھی جنگ وجدال سے حتی الامکان گریز کرتا تھا؛چنانچہ جنگ فجار کے ضمن میں گذرچکا ہے کہ اس نے عمربن نعمان کو یہودی غلاموں کے قتل سے منع کیا تھا، (ابن اثیر:۱/۵۱) اسی طرح وہ جنگ بعاث میں بھی بالکل الگ تھا،(ابن اثیر:۱/۵۱۱) ایک موقع پر اس نے انصار اور قریش کی جنگ کو بھی ٹالا تھا، (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۵۰) لیکن ابھی تخت نشینی کی نوبت نہ آئی تھی کہ انصار نے اسلام قبول کرکے آنحضرتﷺ کو دین دنیا کی حکمرانی کے لئے مدینہ بلایا اورابن ابی کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ ریاست کے ساتھ سپہ سالاری کا بھی یہی حشر ہوا،جب دونوں قبائل میں جنگ کا آغاز ہوا تو ہر قبیلے کا سپہ سالار علیحدہ علیحدہ تھا؛چنانچہ حضیر بن سماک (اسدالغابہ:۱/۹۲) ابو قیس بن اسلت اورعمرو بن نعمان بیاضی (اسدالغابہ:۱/۵۰۶،۵۱۰) مختلف جنگوں میں دونوں قبیلوں کی طرف سے اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، اسلام سے پہلے قبیلہ اوس کا یہ عہدہ حضیر کے بیٹے اسید کو تفویض ہوا تھا۔ (سیرت ابن ہشام:۲۳۸) امیر اور سالار لشکر کے عہدوں کے ساتھ انصار میں ایک اور اعزاز بھی تھا یعنی بتخانہ کی تولیت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس عہدہ پر عمرو بن قیس نجاری ،بنو نجار کی طرف سے مامور تھا،(سیرت ابن ہشام:۲۹۵) اور قبائل میں بھی کچھ لوگ رہے ہوں گے ؛لیکن ہم کو ان کے نام معلوم نہیں۔ نظام عسکری انصار نے چونکہ باقاعدہ ایک چھوٹی سی ریاست کی بنیاد قائم کی تھی اس لئے ان کو ریاست کے تمام لوازمات رکھنے پڑتے تھے،مثلاًفوج قلعے فصیلیں قبرستان فوج کے متعلق یہ تصریح نہیں کہ تعداد میں کتنی تھی،جہاں تک قرائن سے پتہ چلتا ہے کوئی مخصوص فوج نہ تھی ؛بلکہ قبیلہ کا ہر شخص سپاہی ہوتا تھا،جو وقت پر اپنے قبیلہ اوروطن کی طرف سے جان نثاری کے لئے بڑہتا تھا؛چنانچہ بنوسلم(اوس) میں ایک زمانہ میں ہزار جوان موجود تھے، (خلاصۃ الوفاء:۸۶) بنومالک بن غضب کی بنی زریق کے علاوہ بھی یہی تعداد تھی۔ (خلاصۃ الوفاء:۸۸) لڑائی کے وقت صف بندی کا طریقہ نہ تھا؛چنانچہ حضرت ابو ایوبؓ نے جنگِ بدر میں صف آرائی کی نسبت بیان کیا ہے کہ ہم لوگ جس وقت تیار ہوئے تو کچھ لوگ صف سے باہر نکل کر کھڑے ہوئے،آنحضرﷺ نے فرمایا "میرے ساتھ رہو"(مسند ابن حنبل: ۵/۴۲۰) انصار کی لڑائیوں کے حالات پڑہنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت بے ترتیبی کے ساتھ گتھ جاتے تھے،البتہ ہزیمت کے وقت یہ قاعدہ تھا کہ جب ایک فریق بھاگ کر اپنے محلہ میں چلا جاتا تو دوسرا فریق تعاقب چھوڑدیتا تھا؛لیکن کبھی یہ قانون ٹوٹ بھی جاتا اورگھروں میں بھی پناہ نہ ملتی اس وقت دوسرا فریق قلعہ بند ہوجاتا تھا۔ (ابن اثیر:۱/۵۰۴) جب آتش منافرت زیادہ بھڑکتی تو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل عام شروع ہوتا،مالک ابن غضب کے دو قبیلے اسی طرح لڑکر فنا ہوئے (خلاصۃ الوفاء:۸۸) کہ ایک رونے والا بھی ان میں باقی نہ رہا،جنگ بعاث میں اس نے خزرج کی گردنوں پر تلوار رکھی ؛لیکن پھر باز آگئے۔ (ابن اثیر:۱/۵۱۱) فوج میں جو لوگ صرف حالات معلوم کرنے اورلڑائی دیکھنے کے لئے آتے،ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا تھا،جنگِ جسر میں عینیہ اورخیار لڑائی کا نظارہ کررہے تھے (ابن اثیر:۱/۵۰۴) جنگ بعاث میں عبداللہ بن ابی گھوڑے پر چڑھ کر میدان کے ارد گرد پھر رہا تھا اورحالات پوچھ رہا تھا۔ (ابن اثیر:۵۱۱) لڑائی کے لئے کوئی ایک میدان مقرر نہ تھا؛بلکہ ہر قبیلے کا سکونت گاہ میدانِ جنگ کا کام دیتی تھی؛کیونکہ قلعے ہر قبیلے اورہر محلے میں تھے کبھی کبھی قلعوں کو چھوڑ کر باغوں میں بھی لڑائی ہوتی تھی۔ قلعے نہایت کثرت سے تھے اور ایک ایک قبیلے کے پاس متعدد تھے،مثلاً زید بن مالک کے پاس (خلاصۃ الوفا:۸۶) قلعے تھے،عبدالاشہل خطمہ کے پاس بھی چند تھے اوربنواجدع نے ۲۰ قلعے تعمیر کیے تھے۔ (خلاصۃ الوفا:۸۸)