انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جعفر کی تقریر یہ سن کر نجاشی نے حضرت جعفرؓ سے پوچھا ، مجھے بتاؤ کہ وہ کس بات کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟ " حضرت جعفر ؓ نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عرب جاہلیت کی حالت اور اسلامی تعلیمات کا بہترین خلاصہ پیش کیا جسے اہلِ بلاغت نے " ابلغ الخطبات" کا نام دیاہے،حضرت جعفرؓ نے کہا : " اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مر دار کھاتے تھے ، بدکاریاں کرتے تھے ، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، قوی لوگ کمزوروں کو کھا جاتے تھے، ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کی شرافت اورصدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے ہی واقف تھے، اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں ، سچ بولیں ،خونریزی سے باز آئیں ، یتیموں کامال نہ کھائیں ، ہمسایوں کو چین سے رہنے دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں ، نماز پڑھیں ، روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں، صرف ایک خدا کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، ہم اس پر ایمان لائے ، شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام بُرے کاموں سے باز آئے ، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی او رہم کو مجبور کررہی ہے کہ اُسی گمراہی میں پھر واپس آجائیں ، آخرہم مجبور ہو کر آپ کے ملک میں نکل آئے، دوسروں کے بجائے آپ کے پاس آنا پسند کیااس امید پر کہ ائے بادشاہ ! یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا" (شبلی نعمانی ، سیرۃ النبی جلد ۱ ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ ) نجاشی نے کہا ! جو کلام الہٰی تمہارے پیغمبر پر اترا ہے اس کا کچھ حصہ سناؤ ، حضرت جعفرؓ نے سورۂ مریم کی چند آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی جسے سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی اور آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہو گئی، پھر کہا ، خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں،یہ کہہ کر سفرائے قریش سے کہا ! تم واپس چلے جاؤ ، میں ان مظلوموں کو ہر گز ہر گز تمہارے حوالے نہ کروں گا، مسلمان مہاجروں سے مخاطب ہو کر بولا ! جاؤ ، میری مملکت میں امن کے ساتھ زندگی بسر کرو، پھر تین بار کہا ! اگر تمہیں کوئی گالی بھی دے گا تو اس پر تاوان لگے گا، یہ سنتے ہی قریش کے دونوں سفراء بڑے بے آبرو ہو کر دربار سے نکل گئے ۔ دوسرے دن عمرو بن العاصؓ نے دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے عرض کیا!حضورﷺ کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟ نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا ، تمام راہب اور علماء بھی دربار میں بلائے گئے ، مسلمانوں کو تردد ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی ناراض ہو جائے گا، اس لئے کہ وہ عیسائی ہے ، نجاشی نے حضرت جعفر ؓ سے پوچھاکہ عیسیٰ ؑ بن مریم کے بارے میں تم لوگوں کا کیا عقیدہ ہے ؟ حضرت جعفر ؓ نے کہا! ہمارے پیغمبر ﷺ نے بتا یا ہے کہ " عیسیٰ ؑ خدا کا بندہ اور پیغمبر اور کلمتہ اللہ ہے، " یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا یا اور کہا ! " واللہ جو تم نے کہا حضرت عیسیٰ ؑ اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں" ( مستدرک حاکم ج ۲ بحوالہ سیرۃ النبی جلد ۱ ، شبلی نعمانی ) پادری اور راہب جو دربار میں موجود تھے نہایت بر ہم ہوئے ، ان کے نتھنوں سے خر خراہٹ کی آواز آنے لگی، نجاشی نے ان کے غصہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کے سفیر ناکام نکل آئے ، نجاشی نے حکم دیا کہ قریش کے وفد کے تمام تحائف واپس کر دئے جائیں اور وہ ملک چھوڑکر چلے جائیں، حضرت اُم سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم لوگ وہاں بہترین ملک میں بہترین پڑوسی کے ساتھ مقیم رہے۔ اسی اثناء میں کسی دشمن نے نجاشی کے ملک پر حملہ کر دیا، اس وقت مسلمانوں نے نجاشی کی طرف سے جنگ میں شرکت کی اس خیال کے تحت کہ یہ جنگ ہمارے لئے سب سے اہم جنگ ہے کیونکہ ہمیں اس وقت یہ خوف تھا کہ نجاشی تو ہمارے حقوق پہچانتا ہے اس پر کہیں ایسا شخص غالب نہ آجائے جو ہمارے حقوق کو پہچانتا ہی نہ ہو ۔ (کامل ابن اثیر ، سیرت رسول کریم ، بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ) اللہ تعالیٰ نے نجاشی کو فتح عطا فرمائی ،نجاشی کے دربار میں مسلمانوں اور نجاشی کے درمیان ہونے والی گفتگو سے حضور اکرم ﷺ کی بعثت کی خبر عام ہوگئی ، اس کے بعدایک دن جب کہ حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں تشریف فرماتھے حق کے متلاشی بیس (۲۰) عیسائیوں کا ایک وفد مکہ پہنچا اور حضور ﷺ سے بہت دیر تک سوالات کرتے رہے ، حضور ﷺ نے انھیں دعوت اسلام دی اور انہیں کلام اللہ سنایا ، حضور ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن مجید سن کر وہ سب ایمان لے آئے جس پر ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے انھیں احمق کہتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمہارے ملک والوں نے تمہیں یہاں دریافت حال کے لئے بھیجا تھا اور تم نے اپنا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرلیا، انہوں نے صرف یہ جواب دیا کہ ہمارے اعمال کے ہم ذمہ دار ہیں اور تمہارے اعمال کے تم ، جب نجاشی کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے پانچ پادریوں اور سات راہبوں پر مشتمل ایک وفد تحقیق حال کے لئے مکہ بھیجا ، جب انہوں نے حضورﷺ کی زبان ِمبارک سے قرآن سنا تو وہ بھی ایما ن لے آئے۔ نجاشی کا جوابی خط طبری اور ابن اسحق کے حوالے سے ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنی کتاب " رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی" میں نجاشی کے جوابی خط کو بھی نقل کیا ہے ، ممکن ہے کہ یہ خط اسی وفد کے ذریعہ روانہ کیا گیا ہو گا، خط کا مضمون حسب ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت محمد ﷺرسول اللہ… از طرف نجاشی اصحم بن ابجر تجھ پر اے نبی ﷺ سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ، اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی ،یا رسول اللہ ! آپﷺ کا خط مجھے ملا جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر تھا، زمین اور آسمان کے مالک کی قسم آپ ﷺ کی بیان کردہ چیز سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام رتی بھر بھی زیادہ نہیں ہیں، وہ ویسے ہی تھے جیسے آپﷺ نے فرمایا ، ہم نے آپﷺ کے فرستادوں سے تعارف حاصل کیا ، اور آپﷺ کے چچا زاد بھائی اور اس کے ساتھیوں کی مہمان داری کی، میں اقرار کرتا ہوں کہ آپﷺ سچے اور تصدیق یاب رسول ہیں ، میں نے آپﷺ کے چچا زاد بھائی اور اسکے ساتھیوں سے بیعت کی اور اس ہاتھوں خدائے رب العالمین کے سامنے سرِ اطاعت خم کیا ، میں نے آپﷺ کی خدمت میں اپنے بیٹے ارھا بن اصحم بن ابجر کو بھیجا ہے ، کیونکہ اپنی ذات کے سوا کسی کا مالک نہیں ، اگر آپﷺ چاہیں میں آپﷺ کے پاس آجاؤں گا کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں کہ آپﷺ جو فرماتے ہیں حق ہے ، والسلام علیک یا رسول اللہ (ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، سیاسی وثیقہ جات بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ) نجاشی نے اپنے ایک بیٹے کو کشتی کے ذریعہ حجاز روانہ کیا ؛لیکن وہ کشتی تمام مسافروں کے ساتھ سمندر میں ڈوب گئی ، نجاشی کا ایک اور بیٹا ابو نیزر مکہ کے ایک تاجر کے پاس تھا، حضرت علیؓ نے نجاشی کے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بدولت اسکے بیٹے کو خرید کر آزاد کردیا،یہ لڑکا نوجوان تھا اور ساتھ ساتھ خوبصورت بھی، حبشہ سے کچھ لوگ اس کے پاس آکر ایک مہینہ مقیم رہے اور اس سے حبشہ چلنے کے لئے کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ اس کو اپنا بادشاہ بنا لیں گے ؛لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اسلام قبول کرچکا ہوں اس لئے واپس نہیں جاؤں گا،بعد میں آنحضرت ﷺ کی مدینہ کو ہجرت کی اطلاع جب حبشہ پہونچی تو مہاجرین میں سے (۳۳) مرد اور (۸ ۲۴ صحابہؓ کو غزوۂ بدر میں شرکت کا موقع ملا