انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۱۰)کتاب سعد بن عبادہ ؓ حضرت سعد بن عبادہؓ سرداران انصار میں سے تھے، قبل از اسلام بھی لکھنا جانتے تھے،حدیث کی مدون کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے حدیث کا کوئی مجموعہ ترتیب دے رکھا تھا،ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (۱۳۶ھ) کہتے ہیں کہ انہیں سعد بن عبادہؓ کے ایک لڑکے نے اپنے باپ سعدؓ (۱۵ھ) کی کتاب سے ایک حدیث سنائی،امام ترمذی لکھتے ہیں: "قَالَ رَبِيعَةُ وَأَخْبَرَنِي ابْنٌ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ وَجْدنَا فِي كِتَاب سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ"۔ (سنن الترمذی،باب ماجاء فی الیمین مع الشاھد،حدیث نمبر:۱۲۶۳) ترجمہ: حضرت ربیعہ (۱۳۶ھ) کہتے ہیں مجھے سعد بن عبادہ کے بیٹے نے بتلایا کہ ہم نے حضرت سعد کی (جمع کردہ)کتاب میں یہ حدیث پائی؛کہ آنحضرتؐ ﷺنے قسم پر ایک گواہ کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ حدیث کی یہ وہ تحریریں اوردستاویزات ہیں جو بیشتر عہد نبوی میں ہی قلمبند ہوچکی تھیں، یہ صحیح ہے ؛کہ ان کا تبین حدیث میں آپ کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ (۵۸ھ) حضرت ابوہریرہ ؓ (۵۷ھ) اورحضرت انس بن مالکؓ(۹۱ھ) کا نام نہ ملے گا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ہاں حدیثوں کو زبانی یاد رکھنا اورآگے روایت کرنا زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا،لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں؛کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی مرویات کو ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر نےاور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کو ان کے شاگرد ہمام بن منبہ (۱۰۱ھ)اور بشیر بن نہیک(۹۹ھ)نےاورحضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرویات کو ان کے شاگرد حضرت ابان بن عثمان (۱۰۵ھ) نے استاد کے سامنے قلمبند کرنا شروع کردیا تھا،تو پھر یہ موضوع اوربھی بہت واضح ہوجاتا ہے،خود حضرت انس کے پاس بھی حدیث کی کئی بیاضیں موجود تھیں جن کی شہادت سعید بن ہلال کے بیان میں بہت واضح طورپر ملتی ہے کہ حدیث کی تدوین اس پہلے دور میں ہی شروع ہوچکی تھی۔ (دیکھئے مستدرک حاکم۔ معرفۃ الصحابہ:۳/۵۷۴) (مزید تفصیل:اٰثارالحدیث:۳۷۰) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دو ہزار دوسو دس حدیثیں مروی ہیں جن میں سے ۲۲۸/ صحیح بخاری ہیں اور ۲۳۲/ صحیح مسلم میں منقول ہیں،ان میں سے ۱۷۴/ پردونوں امام متفق ہیں، باقی مرویات دیگر حدیثی ذخائر میں ملتی ہیں،حضرت ابوہریرہؓ سے پانچ ہزار تین سو چوہتر حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے صحیح بخاری میں: ۴۴۸/ اورصحیح مسلم میں: ۵۴۵/ منقول ہیں:۲۵۵/ پر دونوں امام متفق ہیں اور باقی روایات دیگر کتب حدیث میں موجود ہیں،حضرت انس بن مالکؓ جن کی زیارت شرف امام ابو حنیفہؒ نے بھی پایا ان سے دوہزار دو سو چھیاسٹھ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے: ۲۵۱/صحیح بخاری میں اور:۲۵۹/صحیح مسلم میں مروی ہیں،ان میں سے: ۱۶۸/ پردونوں امام متفق ہیں،ان کی باقی احادیث دیگر کتابوں میں منقول ہیں، ان جہابذہ علم صحابہ کرامؓ کے سامنے ان کے شاگردوں(تابعین کرامؒ)نے حدیث لکھنی شروع کردی تھی، صحابہؓ کی اپنی تحریرات کےبعد تدوین حدیث کا دوسرا دور تھا، ایک ایک حدیث کے لیے یہ حضرات دور دراز کے سفر کرتے تھے اوراس تمام محنت کو اللہ تعالی کی راہ میں عبادت سمجھا جاتا رہا،حضرت ابوالدرداءؓ شام کی ایک مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے کہا: "يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ"۔ (سنن ابی داؤد،كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب الْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ، حدیث نمبر:۳۱۵۷) ترجمہ: میں مدینہ منورہ سے آپ کے پاس حضوراکرمؐﷺ کی ایک حدیث سننے کے لیے حاضر ہوا،مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ حدیث آپ نے حضورؐﷺ سے سنی تھی میں یہاں کسی اور کام کے لیے حاضر نہیں ہوا۔ حضور کے زمانے میں روایت حدیث اور تدوین حدیث کی یہ کوششیں صرف اسی ماحول میں جاری تھیں جہاں قرآن میں غیر قرآن کے التباس کا اندیشہ نہ تھا اور وہ بھی زیادہ تر اسی لیے کہ یہ حضرات ان روایتوں کو بھول نہ جائیں، ورنہ جو حضرات اپنی قوت حافظہ پر زیادہ اعتماد رکھتے تھے،ان کے ہاں مدتوں زبانی نقل وروایت اورباربار کے مذاکرات حدیثی سے ہی اس متاعِ علمی کا پہرہ دیا جاتا رہا، آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انس بن مالکؓ اورامیر معاویہؓ وغیرہم نے بھی احادیث کے مجموعے تیار کیے، حضرت براء بن عازبؓ (۷۲ھ) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (۴۵ھ) اورحضرت امیر معاویہؓ کے ذوق حدیث اوران کی مرویات کے قلمبند کیے جانے سے کون آشنا نہیں، عبداللہ بن حنش کہتے ہیں: میں نے حضرت براء کے پاس لوگوں کو کلکیں ہاتھ میں لیے (حدیثیں) لکھتے پایا (سنن دارمی:۱۰۶۔ جامع بیان العلم:۱/۷۲) حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے ایک حدیث سنی تو اسے فورا لکھوالیا (مسند امام احمد:۱/۱۸۲) حضرت زید بن ثابتؓ گو حدیث لکھنے کے خلاف تھے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ آپکی مرویات بھی (گوآپ کی مرضی سے نہیں) قلمبند کی جاتی رہیں (سنن دارمی:۱/۱۰۱) اورانہیں اکابرتابعین نے آگے روایت کیا تو اس وقت اس بات کا قطعا کوئی مظنہ باقی نہ رہا تھاکہ قرآن کریم غیر قرآن سے مختلط ہوجائے،اس لیے یہ حضرات اس دور میں بڑے اہتمام اوربڑی ہمت سے احادیث قلمبند کرتے رہے اورحضرت عمربن عبدالعزیزؓ نے اس سلسلہ میں خاص محنت فرمائی تھی۔