انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت ان کے شہید ہوتے ہی حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے بڑھ کر جھنڈا لے لیا اور گھوڑے پر سوار آگے بڑھے ، جذبہ جہاد ایسا طاری تھا کہ خود اپنے سے مخاطب ہوتے اور کہتے " ائے نفس! تجھ کو قسم ہے گھوڑے سے اتر اور دشمن سے قتال کر ، چاہے خوشی سے اتر چاہے ناگواری سے ، آج تو قتل نہ ہوا تو کبھی نہ کبھی مرے گا ضرور ، جس چیز کی تو نے تمنا کی وہ سامنے ہے ، زید اور جعفر کی راہ پر چلا تو ہدایت پائے گا ۔ یہ خیال آتے ہی گھوڑے سے کود پڑے اور تلوار لے کر دشمنوں کی صفوں میں گُھس گئے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ، ابن سعد کا بیان ہے کہ اس دن تمام سردار پیادہ لڑے ،یہ دشمنوں کی صف بندی کو توڑنے کے لئے امیر لشکر کی حکمت عملی تھی(ابن سعد)۔ حضرت خالدؓ بن ولید کی امارت حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کی شہادت کے بعد بنو عجلان کے حضرت ثابتؓ بن اخرم نے علم سنبھال لیا اور مجاہدین سے مخاطب ہو کر کہا … " مجاہدو میں علم سنبھالے ہوئے ہوں ، بہتر ہے کہ تم کسی کو امیر بنا لو " مجاہدین نے کہا کہ تم ہی ہمارے سردار ہو اس لئے کہ اللہ نے یہ علم تمہارے ہاتھ بلند کر وایا ہے ، جواب دیا ! میں اس اہل نہیں ، پھر جھنڈا حضرت خالدؓ بن ولید کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ فنون حرب کے ماہرہیں ، حضرت خالد ؓ نے تامل کیا اس لئے کہ اس سے پہلے انہو ں نے کبھی مسلمانوں کی قیادت نہیں کی تھی ،تمام مسلما نو ں نے جب اصرار کیا تو اس اتفاق پر انہو ں نے علم ہاتھ میں لے لیا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ جب حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ شہید ہوئے تو مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے ، تب حضرت قطبہؓ بن عامر نے آواز دی … ائے مسلمانو ! فرار سے زیادہ بہتر شہادت ہے ‘ اپنی جگہ جمے رہو ، اس موقع پر حضرت خالد ؓ بن ولید نے بڑی بہادری سے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کو دشمن کے نرغے سے بچا کر ایک طرف جمع کیا ، آپ کی اس بہادرانہ کارروائی کا رومی فوج پر بہت اثر ہوا ، رات ہوئی فریقین میدان سے چلے گئے ، حضور اکرمﷺ کو جب یہ اطلاع ہوئی تو عام جہاد کا اعلان ہوا ، مجاہدین پھر شام کی طرف بڑھنے لگے ، جاسوسوں کے ذریعہ جب عیسائیوں کو اس بات کی اطلاع ملی تو وہ میدان جنگ چھوڑنے لگے، نقشہ جنگ پر غور کرنے کے بعد حضرت خالدؓ بن ولیدنے دوسرے دن کے لئے نئی منصوبہ بندی کی اور لشکر کی ترتیب بدل دی، میمنہ کی جگہ میسرہ والے اور میسرہ کی میمنہ والوں کوکیا، پیچھے کے مجاہدین کو سامنے کیا اور سامنے کے مجاہدین پیچھے ، دوسرے دن جب دشمن نے یہ دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ تازہ کمک آ گئی ہے اور ان کے دلوں پر ہیبت چھا گئی، حضرت خالدؓ بن ولید نے خود کمان سنبھال لی اور خود آگے رہ کر مجاہدین کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ، اس روز ان کے ہاتھ پر نو تلواریں ٹوٹیں اور دسویں تلوار " صحیفہ یمانیہ " نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ۔ حضور اکرمﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے موتہ کے میدان جنگ کو نظروں کے سامنے کر دیا،یہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا: زید کے ہاتھ میں جھنڈا تھا وہ شہید ہو گئے ، پھر جعفر نے جھنڈا لیا اور لڑائی میں وہ بھی شہید ہو گئے ، پھراس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے علم سنبھالا اور وہ بھی شہید کر دئیے گئے ، یہ تینوں جنت میں اٹھا لئے گئے ، اب خالد ؓ بن ولید نے علم اسلام سنبھالا ہے پھر دعا فرمائی… اے اللہ ! " خالد سیف من سیوف اللہ" یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے ، تو ہی اس کی مدد فرما ، ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا ۔ حضرت خالد ؓ بن ولید نے پہلے دن حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ کی شہادت کے بعد محسوس کر لیا تھا کہ اگر مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے تو دشمن تعاقب کر کے ان کا صفایا کر دیں گے ، اس لئے دوسرے دن انہوں نے جنگی تدبیر سے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا جس سے دشمن پر رعب طاری ہو گیا، انہوں نے بطور ایک ماہر فوجی جرنل کے مسلمانوں کے لشکر کا رخ جنوب کی طرف موڑ دیا جس سے نرغہ ختم ہو گیا، رومی تعاقب کرنے سے ڈر رہے تھے اس خیال سے کہ کہیں مسلمانوں نے ان کو گھیرے میں لینے کے لئے یہ چال چلی ہو ، نتیجۃ دشمن مجبور ہو کر پیچھے ہوتا گیا ، جنگ موتہ کا کیا نتیجہ نکلا اس کے بارے میں مختلف روایتں ہیں، ایک خیال ہے کہ یہ معرکہ فیصلہ کن ثابت نہ ہوا، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ دونوں لشکر بغیر کسی فیصلہ کے کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی میدان جنگ سے ہٹ گئے، ابن سعد کابیان ہے کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ رومیوں کی فوج دو لاکھ تھی اور مسلمان صرف تین ہزار تھے اور رومی اپنے ہی علاقے میں لڑ رہے تھے جبکہ مسلمان اپنے مرکز سے سینکڑوں میل دور تھے، ان نازک حالات میں دشمنوں کے تعاقب سے بچ کر مسلمانوں کو بغیر کسی نقصان کے بچالے جانا حضرت خالد ؓ بن ولید کی جنگی صلاحیتوں کا ثبوت اور حیرت انگیز کارنامہ ہے ، اسی لئے حضور اکرم ﷺ نے انہیں " سیف اللہ " کا خطاب عطا فرمایا ،