انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اولاد چغتائی خان ابن چنگیز خان چنگیز خان نے ترکستان خراسان بلخ غزنین تاحدوددریائے سندھ کا تمام علاقہ اپنے بیٹے چغتائی خان کو دیا تھا اور اورامیر قراچار برلاس کو امیر الامرا بناکر اُس کے ساتھ کیا تھا چنگیز خان کی وفات کے بعد چغتائی خان اپنے بڑے بھائی اوکتائی خان ک کی اطاعت و فرما نبرداری کا ہمیشہ اقرار کرتا رہا، چغتائی خان بہت عقلمند اور بہادر شخص تھا،۶۴۰ ھ میں فوت ہوا، چغتائی خان کی وفات کے بعد امیر الامراقراچار نے چغتائی خان کے پوتے قرابلا کو خان کو تخت نشین کیا،یہ خبر سُن کر کیوک خاں ابن اوکتائی خان نے کہا کہ چغتائی خان کا بیٹا میسومنکوخان جب موجود ہے تو پوتے کو کیوں جانشین بنایا گیا،چونکہ قراقورم کا دربار تمام مغلوں پر حکمران تھا لہذا کیوک خان کے حکم کے موافق قرابلا کو خان کوتخت سے اُتار کر میسو منکوخان کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا گیا مگر جب چند روز کے بعد میسو منکوخاں فوت ہوگیا تو میرا قراچار کی تجویز کے موافق قرابلا کو خان دوبارہ تخت نشین ہوا، ۶۵۲ ھ میں امیر قراچار بھی فوت ہوگیا، اس کے چند روز بعد جب قرابلا کو خان فوت ہوا تو اُس کی بیوی ورغنہ خاتون کو مغلوں نے تخت پر بٹھا یا،اس کے بعد الغوخان کو قبیلہ چغتائیہ کی حکومت سپرد ہوئی،مگر ایک سال حکومت کرکے وہ بھی فوت ہوگیا ،اُس کے بعد اُس کا بیٹا مُبارک شاہ چغتائی قبیلۂ چغتائیہ کا سردار قرار پایا۔ قبیلۂ چغتائیہ حکومت وسلطنت میں تولی خان کی اولاد کے ساتھ شریک رہا، ابتداءً ان دونوں قبیلوں میں رقابت بھی رہی،تولی خان ابن چنگیز خاں کی اولاد میں ہلاکو خان کی وجہ سے دونوں قبیلوں میں رقابت بھی رہی،تولی خان ابن چنگیز خاں کی اولاد میں ہلاکو خان کی وجہ سے عظمت و شوکت نے بہت ترقی کرلی تھی اور چغتائی خان کی اولاد اس کے مدِّ مقابل نہ رہ تھی چغتائیوں نے ہرات اوراُس کے متعلقہ علاقہ پر ہمیشہ اپنا قبضہ جاری رکھا،مگر کبھی وہ ہلاکو خاں اوراس کی اولاد کی سیادت کو تسلیم کرتے اوراپنے آپ کو ان کا نائب السلطنت کہتے اور کبھی خود مختاری کا اعلان کرتے تھے،ان میں مبارک شاہ کے بعد سلطان غیاث الدین محمد براق خان ابن میسون تو ان خان ابن مواتو خان مشہور شخص ہوا جس نے اباخان کے ساتھ خراسان میں سخت معرکۂ کار زار گرم کیا تھا،غیاث الدین محمد براق خان کا بیٹا دواخان اوردواخان کا بیٹا السینوخان اورایسنوخان کا بیٹا کیک خان بھی خوب طاقتور اورصاحب داعیہ سلاطین تھے،دواخانہ کے دوسرے بیٹے تیمور خان وترمہ شیرین خان بھی خوب طاقتور اورصاحب داعیہ سلاطین تھے دواخان کے دوسرے بیٹے تیمور خان وترمہ شیرین خان بھی برسر حکومت وایالت رہے۔ ترجمہ شیرین خان نے قندہار پر حملہ کیا اور ۷۱۶ ھ میں امیر حسن سلدوز اورترمہ شیرین خان کی نواح غزنین میں سخت لڑائی ہوئی،جس میں ترمہ شیرین خان کو شکست ہوئی،ترمہ شیرین خان کی نواح غزنین میں سخت لڑائی ہوئی،جس میں ترمہ شیرین خان کو شکست ہوئی،ترمہ شیرین خان نے ہندوستان پر بھی ایک حملہ کیا تھا،ترمہ شیرین خان کے بعد اُس کا بھائی فولاد خان قبائل چغتائیہ کاسلطان ہوا،اُس نے ۷۳۵ ھ میں وفات پائی،فولاد خان کے بعد غازان ابن میسور اغلن بن دواخان تخت نشین ہوا،اُس کے بعد دانشمند اغلن اُس کے بعد قلی خان ابن سورغدد ابن دواخان ابن براق خان چغتائی بادشاہ ہوا،پھر تو غلوق تیمور خان ابن السینون خان ابن دواخان تخت نشین ہوا اُتس کے بعد الیاس خواجہ خان ابن تو غلوق تیمور خان تخت نشین ہوا،اس کے بعد خضر خواجہ خان تو غلوق تیمور خان تخت نشین ہوا،اس کے قبضہ سے خراسان کے تو تمام حصص نکل گئے تھے لیکن مغولستان کے اکثر حصے پر اُس کا قبضہ تھا۔ اُسی کے عہد حکومت میں امیر تیمور صاحب قران نے خراسان میں تخت سلطنت پر جلوش کیا اورخضر خواجہ خان اورتیمور صاحب قران نے خراسان میں تخت سلطنت پر جلوش کیا،اورخضر خواجہ خا ن اورتیمور صاحب قران کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں،آخر خضر خواجہ امیر تیمور کے مقابلہ سے عاجز ہوا اوراپنی بیٹی تغل خانم کی شادی امیر تیمور کے ساتھ کرکے صلح کی اوررشتہ داری قائم کی،امیر تیمور کو اسی شادی کے سبب گورکان کہنے لگے،یعنی خاندان چنگیزی کے ساتھ امیر تیمور کو رشتۂ دامادی حاصل ہوا،مغلوں کی زبان میں داماد کو گورکان کہتے تھے، خضر خواجہ خان کے بعد اُس کا بیٹا محمد خان مغولستام کا بادشاہ ہوا اُس کے بعد اس کا بھائی جہاں اغلن ابن خجر خواجہ خان تخت نشین ہوا،جہاں اغلن کے بعد شہر محمد خاں ابن خضر خواجہ خان بادشاہ ہوا،شیر محمد خان بادشاہ مغولستان اور انع بیگ تیموری بادشاہ خراسان و ماوراء النہر کے درمیان سخت جنگ واقع ہوئی جس میں شیر محمد خان کو شکست ہوئی شیر محمد خان کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا اویس خان اُس کے بعد اُس کا بیٹا یونس خان ابن اویس خان تختِ حکومت پر متمکن ہوا، یونس خان کے بعد اُس کے بیٹے محمود خان واحمد اولجہ خاں حاکم مغولستان ہوئے،ان دونوں بھائیوں سے ظہیر الدین محمد بابر نے شیبانی خان ازبک کے مقابلہ میں مدد طلب کی انہوں نے بابر کی مدد کی اورمیدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے دونوں بھائی اسیر ہوگئے جب شیبانی خان کے سامنے پیش کئے گئے تو اُس نے ان دونوں کو رہا کردیا،لیکن یہ دونوں فرطِ غیرت سے آزاد ہوتے ہی خود کشی کرکے مرگئے اور چغتائی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ان کے بعد بھی منصور خان ابن سلطان احمد اولجہ خان برائے نام مغولستان کا بادشاہ ہوا،مگر حقیقتاً مغولستان پر شیبان خان کی حکومت تھی،یہاں تک چنگیز خانی مغلوں کی حکومت و سلطنت کے مختصر حالات بیان کرچکے ہیں،اس کے بعد تیموری مغلوں کے کار نامے بیان ہوں گے مغلوں کی حکومت و سلطنت کے دو حصے یا دو طبے قرار دیئیے جاسکتے ہیں ایک مغولانِ چنگیزی دوسرے مغولان تیموری،ہم اس وقت مغولان چنگیزی کا حال بیان کرچکے ہیں،مغولان تیموری کا حال بیان کرنے سے پہلے چند اورضروری حالات کا بیان کرنا ازبس ضروری ہے،تاکہ سلسلۂ تاریخ اسلام میں ہم بہت دور آگے نہ نکل جائیں،حالات مذکورہ کے ذۃن نشین کرنے اورآئندہ حالات کے سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خاندانِ چنگیزی کا شجرہ نسب اس جگہ درج کردیا جائےاوپر جو شجرہ درج ہوچکا ہے،اُس سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ چنگیز خان اورامیر تیمور کتنی پشتوں کے بعد اوپر جاکر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں،ابن چنگیز خاں کی اولاد کس طرح متفرع ہوئی۔