انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
جیلوں چھاؤنیوں اور ائیرپورٹ پرنماز جمعہ اور اذن عام کی تحقیق جیل میں جمعہ کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں فقہاء متقدمین کی کتابوں میں کوئی صریح جزئیہ مذکور نہیں؛ اسی بناء پراس مسئلے میں علماءِ عصر کے فتوے بھی مختلف رہے، اصل اشکال کی وجہ یہ ہے کہ فقہاء حنفیہ نے جمعہ کے جواز کی شرائط میں اذن عام کوبھی ذکر فرمایا ہے اور چونکہ جیل میں داخلے کا اذن عام نہیں ہوتا؛ اس لیے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جمعہ جائز نہیں، ہمارے زمانے میں یہ مسئلہ صرف جیل کا نہیں بلکہ ان تمام فوجی چھاؤنیوں، صنعتی آبادیوں اور ائیرپورٹوں کا بھی ہے جہاں عام لوگوں کوداخلے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے یہ تحقیق ضروری ہے کہ اذن عام کی شرط کس درجے کی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے۔ بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ اذن عام کی شرط اس وقت تھی جب پورے شہر میں جمعہ ایک ہی جگہ ہوتا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی کا جمعہ فوت نہ ہو؛ لیکن جب ایک شہر میں کئی جگہ جمعہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوا اور عملاً متعدد جگہوں پرجمعہ ہونے لگا تواب چونکہ اس بات کا اندیشہ نہیں رہا کہ اذنِ عام کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی کا جمعہ فوت ہوجائے گا اس لیے اب یہ شرط باقی نہیں رہی یہ حضرات دلیل میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں: وَكَذَا السُّلْطَانُ إذَاأَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ بِحَشَمِهِ فِي دَارِهِ فَإِنْ فَتَحَ بَابَهَا وَأَذِنَ لِلنَّاسِ إذْنًا عَامًّا جَازَتْ صَلَاتُهُ شَهِدَتْهَا الْعَامَّةُ أَوْلَاوَإِنْ لَمْ يَفْتَحْ أَبْوَابَ الدَّارِ وَأَغْلَقَ الْأَبْوَابَ وَأَجْلَسَ الْبَوَّابِينَ لِيَمْنَعُوا عَنْ الدُّخُولِ لَمْ تَجُزْ لِأَنَّ اشْتِرَاطَ السُّلْطَانِ لِلتَّحَرُّزِ عَنْ تَفْوِيتِهَا عَلَى النَّاسِ وَذَا لَايَحْصُلُ إلَّابِالْإِذْنِ الْعَامِّ اهـ قُلْت: وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مَحَلُّ النِّزَاعِ مَاإذَاكَانَتْ لَاتُقَامُ إلَّافِي مَحَلٍّ وَاحِدٍ، أَمَّالَوْتَعَدَّدَتْ فَلَالِأَنَّهُ لَايَتَحَقَّقُ التَّفْوِيتُ كَمَا أَفَادَهُ التَّعْلِيلُ تَأَمَّلْ۔ (شامی:۲/۱۵۲، مطبوعہ سعید) لیکن اس پریہ اشکال ہوتا ہے کہ اگراذنِ عام کی شرط کی وجہ سے صرف تفویت جمعہ کا خوف ہوتو جس شہر میں متعدد مقامات پرجمعہ ہوتا ہو وہاں اگرکوئی شخص اپنے ذاتی گھر میں دروازہ بند کرکے جمعہ کی جماعت کرلے تووہ بھی جائز ہونا چاہیے اور یہ کہ جب سے تعدد جمعہ کا رواج ہوا ہے اس وقت سے اذن عام کی شرط کوکتب فقہ سے بالکل خارج ہوجانا چاہیے تھا یااگریہ شرط مذکورہ ہوتی توساتھ یہ تصریح بھی ذکر کرنی چاہپےتھی کہ اب یہ شرط واجب العمل نہیں؛ حالانکہ فقہاء تعدد جمعہ کے رواج کے باوجود اس شرط کوذکر کرتے چلے آرہے ہیں، یہ اشکال خاصا قوی ہے؛ لیکن کتب فقہ کی مراجعت کے بعد جوصورتِ حال نظر آتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: (۱)اذنِ عام کی شرط ظاہر الروایۃ میں موجود نہیں؛ چنانچہ علامہ کاسانی تحریر فرماتے ہیں: وَذَكَرَ فِي النَّوَادِر شَرْطًا آخَرَ لَمْ يَذْكُرْهُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ وَهُوَ أَدَاءُ الْجُمُعَةِ بِطَرِيقِ الِاشْتِهَارِ حَتَّى إنَّ أَمِيرًا لَوْجَمَعَ جَيْشَهُ فِي الْحِصْنِ وَأَغْلَقَ الْأَبْوَابَ وَصَلَّى بِهِمْ الْجُمُعَةَ لَاتُجْزِئُهُمْ۔ (بدائع الصنائع:۱/۲۶۹، طبع، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ) چنانچہ صاحب ہدعایہ نے بھی اذن عام کوشرط کے طور پرذکر نہیں فرمایا؛ اسی طرح متعدد فقہاء نے اس شرط کوذکر نہیں کیا جن میں شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ علامہ سغدی رحمۃ اللہ بھی داخل ہیں۔ (ملاحظہ ہو، النتف فی الفتاویٰ:۱/۹۰، مطبع الارشاد، بغداد) (۲)نوادر کی اس روایت کے مطابق فقہاء متاخرین نے یہ شرط اپنی کتابوں میں ذکر فرمائی ہے؛ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اذن عام کے مفہوم میں فقہاء کرام کا کچھ اختلاف رہا ہے، بعض حضرات نے تواس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہروہ شخص جس پرجمعہ فرض ہوا ہے اس مقام پرآنے کی اجازت ضروری ہے؛ چنانچہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ برجندی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں: أَيْ أَنْ يَأْذَنَ لِلنَّاسِ إذْنًا عَامًّا بِأَنْ لَايَمْنَعَ أَحَدًا مِمَّنْ تَصِحُّ مِنْهُ الْجُمُعَةُ عَنْ دُخُولِ الْمَوْضِعِ الَّذِي تُصَلَّى فِيهِ وَهَذَا مُرَادُ مَنْ فَسَّرَ الْإِذْنَ الْعَامَّ بِالِاشْتِهَارِ۔ (شامی:۲/۱۵۱، مطبوعہ سعید) دوسری طرف بعض حضرات فقہاء کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ؛ اذنِ عام کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس آبادی میں جمعہ پڑھا جارہا ہے اس آبادی کے لوگوں کووہاں آنے کی پوری اجازت ہو؛ خواہ باہر کے لوگوں کوآنے کی اجازت نہ ہو؛ چنانچہ علامہ بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: وَفِیْ فَتْحُ الْقَدِیْرِ، إِنَّ أَغْلَقَ بَابَ الْمَدِیْنَۃَ لَمْ یَجُزْ وَفِیْہِ تَأْمَلُ فَإِنَّہُ لَایُنَافِیْ الْإِذْنَ الْعَامِ لِمَنْ فِیْ الْبَلَدِ وَأَمَّامَنْ فِیْ خَارِجِ الْبَلَدِ فَالظَّاھِرِ أَنَّھُمْ لَایَجِیْئُوْنَ لِإِقَامَۃِ الْجُمْعَۃِ بَلْ رُبَمَا یَجِیْئُوْنَ لِلشَّرِّ وَالْفَسَادِ۔ (رسائل الارکان:۱۱۵، طبع قدیم مطبع یوسفی فرنگی محل، لکھنؤ) نیزدرمختار میں کہا گیا ہے کہ: لَايَضُرُّ غَلْقُ بَابِ الْقَلْعَةِ لِعَدُوٍّ أَوْلِعَادَةٍ قَدِيمَةٍ؛ لِأَنَّ الْإِذْنَ الْعَامَّ مُقَرَّرٌ لِأَهْلِهِ وَغَلْقُهُ لِمَنْعِ الْعَدُوِّ لَاالْمُصَلِّي نَعَمْ لَوْلَمْ يُغْلَقْ لَكَانَ أَحْسَنَ کَمَافِیْ مَجْمُعِ الْأَنْھَر۔ (الدرالمختار:۲/۱۵۲، مطبوعہ سعید) مجمع الانہر میں ہے: وَمَالَايَقَعُ فِي بَعْضِ الْقِلَاعِ مِنْ غَلْقِ أَبْوَابِهِ خَوْفًا مِنْ الْأَعْدَاءِ أَوْكَانَتْ لَهُ عَادَةٌ قَدِيمَةٌ عِنْدَ حُضُورِ الْوَقْتِ فَلَابَأْسَ بِهِ لِأَنَّ إذْنَ الْعَامِّ مُقَرَّرٌ لِأَهْلِهِ وَلَكِنْ لَوْلَمْ يَكُنْ لَكَانَ أَحْسَنَ كَمَا فِي شَرْحِ عُيُونِ الْمَذَاهِبِ، وَفِي الْبَحْرِ وَالْمِنَحِ خِلَافُهُ لَكِنْ مَاقَرَّرْنَاهُ أَوْلَى لِأَنَّ الْإِذْنَ الْعَامَّ يَحْصُلُ بِفَتْحِ بَابِ الْجَامِعِ وَعَدَمِ الْمَنْعِ وَلَامَدْخَلَ فِي غَلْقِ بَابِ الْقَلْعَةِ وَفَتْحِهِ وَلِأَنَّ غَلْقَ بَابِهَا لِمَنْعِ الْعَدُوِّ لَالِمَنْعِ غَيْرِهِ تَدَبَّرْ۔ (مجمع الأنھر:۱/۲۴۶، بیروت) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن حضراتِ فقہاء کرام نے اذنِعام کی شرط کوتفویت جمعہ کی خوف پرمبنی قرار دیا ہے ان کی مراد یہ ہے کہ اذنِ عام کا پہلا عام مفہوم اس علت کے ساتھ معلول تھا جوتعدد جمعہ کی صورت میں باقی نہیں رہا؛ لیکن دوسرا مفہوم اب بھی کافی ہے؛ کیونکہ وہ اس علت پرمبنی نہیں تھا بلکہ بقول صاحب بدائع: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَانُودِي لِلصَّلاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (الجمعۃ:۹) کے اشارۃ النص پرمبنی تھا؛ چنانچہ علامہ شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: قلت اطلعت على رسالة العلامة بن الشحنة وقد قال فيها بعدم صحة الجمعة في قلعة القاهرة لأنها تقفل وقت صلاة الجمعة وليست مصرا على حدتها، وأقول في المنع نظر ظاهر لأن وجه القول بعدم صحة صلاة الإمام بقفله قصره اختصاصه بها دون العامة والعلة مفقودة في هذه القضية فإن القلعة وإن قفلت لم يختص الحاكم فيها بالجمعة لأن عند باب القلعة عدة جوامع في كل منها خطبة لايفوت من منع من دخول القلعة الجمعة بل لوبقيت القلعة مفتوحة لايرغب في طلوعها للجمعة لوجودها فيما هوأسهل من التكلف بالصعود لها وفي كل محلة من المصر عدة من الخطب فلاوجه لمنع صحة الجمعة بالقلعة عند قفلها۔ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی:۲۷۸، قدیمی کتب خانہ) اگرچہ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے تحت علامہ شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات پراعتراض فرمایا ہے؛ لیکن علامہ شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تعدد جمعہ کی صورت میں اذن عام کا وہ عام مفہوم لینے کی ضرورت نہیں جس کے تحت ہروہ شخص جس پرجمعہ واجب ہو اس کووہاں آنے کی اجازت ہو؛ بلکہ اگرکوئی ایسی آبادی موجودہو جس میں گھروں کی یارہنے والوں کی قابل لحاظ تعداد موجود ہو اور اس آبادی کے تمام لوگوں کووہاں جمعہ کے لیے آنے کی اجازت ہو تویہ بات اذن عام کے تحقق کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ اس آبادی کے بارہ کے لوگوں کوآنے سے ممانعت کرنے کی وجہ نماز سے روکنا نہ ہو؛ بلکہ کسی دفاعی یاانتظامی وجہ سے مجرد داخلے سے روکنا ہو؛ اگرعلامہ شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا عبارت کا یہ مفہوم لیا جائے تواس پروہ اعتراض وارد نہیں ہوگا جوعلامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ نے وارد فرمایا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تعدد جمعہ کی صورت میں اذن عام کی شرط فقہاء حنفیہ کے نزدیک بالکلیہ ختم تونہیں ہوئی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ جس آبادی میں (نہ کہ کسی انفرادی گھر میں) جمعہ پڑھا جارہا ہے اس آبادی کے لوگوں کووہاں آنے کی اجازت ہو؛ اگرآبادی سے باہر کے لوگوں کودفاع یاانتظام کے پیش نظر اس آبادی سے داخلے سے روکا گیا ہوتویہ اذن عام کے منافی نہیں؛ بشرطیکہ روکنے کا اصل محرک نماز سے روکنا نہ ہو؛ بلکہ کوئی دفاعی یاانتظامی ضرورت ہو اور اس آبادی سے باہر کے لوگ اس پابندی کی بناپرجمعہ سے محروم نہ ہوتے ہوں؛ اس پرصرف یہ اشکال باقی رہتا ہے، وہ یہ کہ فقہاء کرام نے یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ مسجونین کے لیے جمعہ کے دن اپنی علیحدہ ظہر کی جماعت کرنا مکروہ ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر:۲/۳۵، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجونین کے لیے جمعہ جائز نہیں؛ ورنہ ان کو ظہر کی جماعت کی حاجت ہی نہ ہوتی؛ لیکن اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ علامہ شامی اور علامہ شرنبلالی رحمہم اللہ کی عبارتوں کی روشنی میں یہ حکم اس دور کا ہے جب جمعہ ایک ہی جگہ سلطان کی قیادت میں ہوتا تھا اور سلطان کی طرف سے دوسری جگہ اقامت جمعہ کی اجازت نہیں ہوتی تھی؛ اس کے علاوہ قید خانے بھی مختلف نوعیتوں کے ہوتے تھے؛ ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ قید خانہ ہو جوکسی ایک ہی گھر یاایک ہی احاطے پرمشتمل ہو اور اس پرکسی مستقل آبادی کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو، ایک اور اشکال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بدائع میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ: السُّلْطَانُ إذَاصَلَّى فِي فَهَنْدَرَةٍ وَالْقَوْمُ مَعَ أُمَرَاءِ السُّلْطَانِ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ قَالَ: إنْ فَتْحَ بَابَ دَارِهِ وَأَذِنَ لِلْعَامَّةِ بِالدُّخُولِ فِي فَهَنْدَرَةٍ جَازَ وَتَكُونُ الصَّلَاةُ فِي مُوضِعَيْنِ وَلَوْلَمْ يَأْذَنْ لِلْعَامَّةِ وَصَلَّى مَعَ جَيْشِهِ لَاتَجُوزُ صَلَاةُ السُّلْطَانِ وَتَجُوزُ صَلَاةُ الْعَامَّةِ ۔ (بدائع الصنائع:۱/۲۶۹، طبع، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ) یہ مسئلہ تعدد جمعہ کی صورت میں مفروض ہے؛ اس کے باوجود سلطان کے اذنِ عام نہ دینے کی صورت میں نماز جمعہ کوغیرمنعقد قرار دیا گیا ہے؛ لیکن بظاہر اس صورت سے مراد یہ ہے کہ سلطان اپنے محل میں صرف اپنے لشکروں اور سپاہیوں کے ساتھ نماز پڑھ لے اور باقی لوگوں کووہاں آنے کی اجازت نہ ہو؛ چنانچہ مذکورہ عبارت میں إنْ فَتْحَ بَابَ دَارِهِ الخ، کا لفظ اس پردلالت کررہا ہے؛ لہٰذا یہاں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ سلطان کا محل اس کی اپنی انفرادی جگہ ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ انفرادی مقامات پراس وقت تک جمعہ جائز نہیں ہوتا جب تک کہ اسے عام لوگوں کے لیے کھول نہ دیا گیا ہو؛ لیکن اگرکوئی ایسی آبادی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں تواُس کواس جزئیہ پرقیاس نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ: (۱)اگرکسی شہر میں جمعہ کی اجازت حاکم کی طرف سے صرف ایک جگہ پڑھنے کی ہو توجمعہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہروہ شخص جس پرجمعہ ہے اس کووہاں آکر جمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو ایسی عام اجازت کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوگا۔ (۲)اسی طرح اگرکسی کا کوئی انفرادی گھر، محل یادوکان ہو تواس میں بھی جمعہ پڑھنا اس وقت تک جائز نہ ہوگا جب تک اس گھر، محل یادوکان میں عام لوگوں کوآنے کی اجازت نہ دیدی گئی ہو؛ خواہ شہر میں دوسری جگہ بھی جمعہ ہوتا ہو۔ (۳)اگرکوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے؛ لیکن دفاعی، انتظامی یاحفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہرشخص کوآنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بناپر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تواس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے، جہاں اس آبادی کے افراد کوآکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو، مثلاً بڑی جیل، فوجی چھاؤنی ، بڑی فیکٹریاں ایسے بڑے ائیرپورٹ جوشہر کے اندر ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہروقت موجود رہتے ہیں؛ لیکن ان میں داخلہ کی اجازت مخصوص قواعد کی پابندی ہے توان تمام جگہوں پرجمعہ جائز ہوگا؛ بشرطیکہ وہ شہر میں داخل ہو اور اس جیل چھاؤنی، بڑی فیکٹری ائیرپورٹ یاریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کونماز کی جگہ آکر نمازِ جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو۔ (فتاویٰ عثمانی:۱/۵۷۱، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، یوپی)