انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ ؓبن عامر نام ونسب عبداللہ نام،باپ کا نام عامر تھا، نسب نامہ یہ ہے،عبداللہ بن عامر بن کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد مناف بن قصی قرشی عبثمی،عبداللہ حضرت عثمانؓ کے قریبی بھائی تھے۔ پیدایش ان کی پیدایش کے بارہ میں روایات مختلف ہیں،ایک روایت یہ ہے کہ اپنے والد عامر کے اسلام کے بعد جو فتحِ مکہ کے زمانہ میں ہوا تولد ہوئے (تہذیب الکمال:۱۹۸،واستیعاب:۱/۳۶۶) اس صورت میں اُن کی پیدایش ۸ھ یا ۹ھ میں ہوئی ہوگی، لیکن عبداللہ کی آیندہ زندگی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہجرت کے ابتدائی برسوں میں پیدا ہوچکے تھے،تمام ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ عبداللہ عہدِ عثمانؓ ۲۹ھ میں ۲۵ سال کی عمر میں بصرہ کے عامل مقرر ہوئے تھے،اس حساب سے ان کی پیدایش ۴ھ یا ۵ھ میں ماننی پڑتی ہے اوریہی روایت زیادہ صحیح ہے۔ بہرحال مدینہ وہ بچپن میں آئے اورحصولِ برکت کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کئے گئے،آپ نے ان کے منہ میں لعاب دہن ڈال کر دعا فرمائی ،یہ اس آب حیوان کو گھوٹ گئے، آنحضرتﷺ نے فرمایا:"یہ مسقی’سیراب کرنے والا ہوگا۔ (مستدرک حاکم:۳/۶۳۹) عہدِ عثمانی شیخین کے پورے عہد اورحضرت عثمانؓ کے ابتدائی زمانہ میں کم سن تھے، اس لیے اس عہدِ کا کوئی واقعہ قابل ذکر نہیں ہے، ۲۹ھ میں حضرت عثمانؓ نے انہیں بصرہ کا عامل بنایا،گو اس وقت ان کی عمر ۲۵ سال سے زیادہ نہ تھی،لیکن بڑے حوصلہ مند اوربہادر تھے، اس لیے بصرہ کی زمامِ حکومت ان کے ہاتھ میں آتے ہی عجم میں فتوحات کا دروازہ کھل گیا، اسی سنہ میں انہوں نے ایران کے غیر مقبوضہ علاقوں کی طرف پیشقدمی شروع کردی اور سب سے پہلے اصطخر کو تسخیر کیا، اس کے بعد جور کی طرف بڑھے، انہیں جور کی طرف متوجہ دیکھ کر اصطخر کے باشندے باغی ہوگئے اوریہاں کے مسلمان حاکم کو قتل کردیا،جور کی واپسی کے بعد عبداللہ نے اصطخر کو مطیع بنایا،اصطخر کے بعد کاربان اور میشجان فتح کیا، (اسد الغابہ:۲/۱۹۱،وفتوح البلدان بلاذری:۴۱۰)کرمان کا علاقہ ان ہی کے زیر امارت تسخیر ہوا ۳۰ھ میں ابن عامر نے خراسان پر فوج کشی کی اورمختلف حصوں پر علیحدہ علیحدہ آدمی مقرر کئے؛ چنانچہ احنف بن قیس کو قہستان پر مامور کیا،انہوں نے ترکوں سے مقابلہ کرکے باختلاف روایت بزور شمشیر فتح کیا یا ترکوں نے ابن عامر کے پاس آکر صلح کرلی، یزید جرشی کو نیشاپور کے علاقہ رستاق زام پر بھیجا انہوں نے رسنا ق زام، باحزز اورجو بن پر قبضہ کیا، اسود بن کلثوم کو نیشا پور کے ایک اور رستاق بہق پر مامور کیا تھا۔ یہ اس معرکہ میں شہید ہوئے اوران کے قائم مقام ادھم بن کلثوم نے بہق فتح کیا۔ ایک طرف ابن عامر نے ان لوگوں کو متعین کیا تھا، دوسری طرف خود برسر پیکار تھے؛چنانچہ وہ بست،اشبند،روخ،زادہ، خواف،اسبرائن اور ارغیان وغیرہ فتح کرتے ہوئے نیشا پور کے پایہ تخت ابر شہر تک پہنچ گئے، اوراس کا محاصرہ کرلیا، کئی مہینہ محاصرہ قائم رہا، آخر میں ابر شہر کے ایک حصہ کے محافظوں نے امان لیکر راتوں رات مسلمانوں کو شہر میں داخل کردیا ،لیکن شہر کا مرزبان ایک جماعت کے ساتھ قلعہ بند ہوگیا،مگر یہ بھی زیادہ دنوں تک استقلال نہ دکھا سکا اورجان بخشی کرا کے باختلافِ روایت دس لاکھ یا سات لاکھ درہم سالانہ پر صلح کرلی۔ پایہ تخت کو تسخیر کرنے کے بعد ابن عامر نے عبداللہ بن خازم کونساء کے علاقہ حمز اندز روانہ کیا انہوں نے ا س کو فتح کرلیا، اورنساء کے فرمان روانے تین لاکھ درہم پر صلح کرلی ان فتوحات نے قرب و جوار کے رؤساء کو مرعوب کردیا؛چنانچہ ابیورد کے حاکم بہمنہ نے خود آکر یا عبداللہ بن خازم کی کوشش سے چار لاکھ پر صلح کرلی، اس سے ابن عامر کا حوصلہ اوربڑھا اور انہوں نے عبداللہ بن خازم کو سرخس روانہ کیا، انہوں نے جاکر اہل سرخس کا مقابلہ کیا یہاں کے مرزبان زاودیہ نے بھی صلح کرلی اور پورا سرخس کا علاقہ زیر نگیں ہوگیا،سرخس کی تسخیر کے بعد ابن خازم نے یزید بن سالم کو کیف اوربینہ روانہ کیا، یزید نے یہ دونوں مقامات فتح کئے اور طوس کے مرزبان کناز تک نے ابن عامر کے پاس آکر ۶ لاکھ درہم پر صلح کرلی ۔ اس سلسلہ کی تکمیل کے بعد ابن عامر نے اوس بن ثعلبہ کی سر کردگی میں ایک فوج ہراۃ روانہ کی، ہراۃ کے فرمان رواکو اس کی خبر ہوئی، تو وہ خود ابن عامر کے پاس پہنچا اور ہراۃ، باوقیس اوربوشنج کے لیے جزیہ دیکر صلح کرلی،البتہ اس علاقہ کے دو مقام طاغون اورباغون اس صلح نامہ میں داخل نہ تھے،کیونکہ یہ دونوں بزور شمشیر فتح ہوچکے تھے،ایک روایت یہ ہے کہ ابن عامر نے بہ نفس نفیس ہراۃ پر حملہ کیا تھا، لیکن اس روایت کی رو سے بھی آخر میں مرزبان نے صلح کرلی تھی۔ ان بڑے بڑے فرمان رواؤں کی مصالحت کو دیکھ کر مرد شاہجہان کے مرزبان نے بھی ابن عامر سے صلح کی درخواست کی ،انہوں نے حاتم بن نعمان کو عقد مصالحت کے لیے بھیجا،اور ۲۲ لاکھ پر صلح ہوگئی،ایک قریہ نہج کے علاوہ مرد کا پورا علاقہ صلحاً مطیع ہوا، صر نہج پر زبردستی قبضہ کیا گیا تھا۔ مرد کے بعد ابن عامر نے احنف بن قیس کو طخار ستان روانہ کیا،انہوں نے مرد الردذ کے ایک قلعہ کا جو بعد میں قصر احنف کے نام سے مشہور ہوا محاصرہ کیا ،اس کے متعلق ایک بہت بڑا پرگنہ شق الجرذ تھا، یہاں کے باشندوں نے بھی پورے پرگنہ پر ۳ لاکھ دیکر صلح کرلی، اس صلح کے بعد احنف نے اصل شہر مروالروز کا محاصرہ کیا، یہاں کے باشندوں نے شروع میں نہایت سخت مقابلہ کیا، لیکن انجام کار شکست کھاکر مرد الردذ کے قلعہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے،یہ صورت دیکھ کر یہاں کے مرزبان نے ۶۰ ہزار پر صلح کرلی، مرد الردذکو لینے کے بعد احنف لوٹے تو معلوم ہوا کہ مخالفین جو زجان میں جمع ہیں، انہوں نے اقرع بن حابس تمیمی کو ان کے مقابلہ کے لیے بھیجا اقرع نے جوز جان کو فتح کیا اس کے بعد احنف طالقان اورفاریاب کو فتح کرکے بلغ پہونچے ،اہل بلغ نے ۴ یا ۷ لاکھ پر صلح کرلی۔ جب ابن عامر نیشا پور کو فتح کرتے ہوئے، نہر جیحوں کے اس پار تک پہنچ گئے اور ماوراء النہر کے باشندوں کو اس کی خبر ہوئی ،تو انہوں نے پیش قدمی کرکے صلح کرلی،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عامر نے ماور النہر کے علاقہ کو عبور کرکے خود ہر ہر مقام پر جاکر عقد مصالحت منعقد کیا اوربعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ماوراء النہر والوں نے خود آکر مصالحت کی، اس مصالحت میں بے شمار مویشی،لونڈی، غلام اورکپڑے ملے،مادرالنہر کے علاقہ کو مطیع بنانے کے بعد قیس بن ہثیم کو اپنا قائم مقام بناکر دار الخلافہ لوٹ آئے۔ (یہ تمام حالات فتوح البلدان بلاذری :۴۱۰،۴۱۵ سے ملخصاً ماخوذ ہیں) عبداللہ بن عامر کی فتوحات کا رقبہ نہایت وسیع ہے،ایران کے غیر مفتوحہ علاقوں سے لیکر خراسانِ اور ماوراء النہر تک کا علاقہ سب ان ہی کی زیر قیادت زیر نگیں ہوا، علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ عبداللہ نے اطراف فارس خراسان کا پورا علاقہ،اصفہان ،حلوان،اور کرمان فتح کیا (استیعاب:۱/۳۸۷)ان مذکورہ مقامات کے علاوہ سجستان اورغزنہ بھی ان ہی کے زیر امارت فتح ہوئے (اسد الغابہ:۳/۱۹۱)غرض عہدِ عثمانی میں مشرقی مفتوحات کا بیشتر حصہ ان ہی نے زیر نگیں کیا۔ حج شکرانہ ان فتوحات کے بعد حج شکرانہ ادا کیا،پھر مکہ سے مدینہ آئے اورمالِ غنیمت کا بڑا حصہ مہاجرین وانصار میں تقسیم کیا،اس کااہلِ مدینہ پر بڑا اثر پڑا،ان فرائض سے سبک دوش ہوکر پھر اپنے دارالحکومت بصرہ آئے۔ (ایضاً) جنگ جمل حضرت عثمانؓ کی شہادت تک اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے،حضرت عثمانؓ کی شہادت کا حادثہ ایسا الم انگیز تھا،کہ غیر متعلق اشخاص تک اس سے سخت متاثر تھے اور عبداللہ تو ان کے عزیزی قریب تھے،اس لیے وہ اس حادثہ کی خبر اور بدامنی کےحالات سن کر بیت المال کا روپیہ لیکر مکہ چلے گئے،یہان حضرت طلحہؓ حضرت زبیرؓ اورحضرت عائشہؓ صدیقہ سے ملاقات ہوئی، یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے قصاص کی نیت سے شام جانے کا قصد کررہے تھے،ابن عامر نے کہا آپ لوگ میرے ساتھ بصرہ چلئے وہ دولت مند شہر ہے، وہاں مدد گار بھی ملیں گے اورمیرے اثرات بھی ہیں،ان کی دعوت پر یہ بزرگوار بصرہ آئے (اسد الغابہ:۳/۱۹۱) جنگ جمل میں شروع سے آخرتک ساتھ رہے، اس جنگ میں بنی قیس، بنی ثقیف اورانصار کی کمان ان ہی کےہاتھوں میں تھی۔ ( اخبارالطوال:۱۹۶) جنگ صفین جنگِ صفین میں البتہ کہیں نمایاں طور پر نظر نہیں آتے تاہم بالکل غیر جانب دار بھی نہ تھے؛چنانچہ التوائے جنگ پر جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں بحیثیت شاہد کے ان کے دستخط بھی تھے۔ امام حسنؓ کے مقابلہ میں معاویہ کی حمایت چونکہ عبداللہ بن عامر حضرت عثمانؓ کے عزیز تھے،اس لیے وہ شروع سے آخر تک حضرت علیؓ کے مخالف رہے؛چنانچہ آپ کی شہادت اورحضرت حسنؓ کی مسند نشینی کے بعد جب امیر معاویہ نے حضرت حسنؓ پر فوج کشی کی تو مقدمۃ الجیش میں ابن عامر کو بھیجا ،یہ حضرت حسنؓ کے مقابلہ کے لیے مدائن پہنچے، حضرت حسنؓ کو ان کی پیشقدمی کی خبر ہوئی،تو آپ بھی مقابلہ کو نکلے،لیکن مقام ساباط میں پہنچ کر ان کی فوج نے کمزوری دکھائی اوربعض خارجیوں نے حملہ کرکے زخمی کردیا،اس لیے حضرت حسنؓ پھر مدائن لوٹ گئے اور زخم بھرنے تک قصرابیض میں مقیم رہے،شفایاب ہونے کے بعد پھر مقابلہ کے لیے نکلے، اس دوران میں امیر معاویہ بھی انبار پہنچ چکے تھے،جب حضرت حسنؓ اورعبداللہ بن عامر بالمقابل ہوگئے تو ابن عامر اس موقع پر ایک چال چلے، حضرت حسنؓ کی فوج کو مخاطب کرکے کہا کہ میں خود لڑنا نہیں چاہتا،میری حیثیت محض معاویہ کے مقدمۃ الجیش کی ہے اور وہ خود انبار تک پہنچ چکے ہیں،اس لیے حسنؓ کو سلام کے بعد میرا یہ پیام پہنچا دو کہ ان کو اپنی ذات اوراپنی جماعت کی قسم کہ وہ جنگ ملتوی کردیں ،ان کا یہ افسوں کار گر ہوگیا، حضرت حسن کے ساتھی یہ پیام سن کر جنگ سے پیچھے ہٹنے لگے،حضرت حسنؓ نے اسے محسوس کیا، تو وہ پھر مدائن لوٹ آئے،اس کے بعد عبداللہ نے مدائن کا محاصرہ کرلیا، حضرت حسنؓ پہلے ہی سے کشت وخون سے برداشت خاطر تھے اپنے ساتھیوں کی کمزوری دیکھ کر چند شرائط پر امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے،ابن عامر نے یہ شرطیں امیر معاویہ کے پاس بھجوادیں، انہوں نے تمام شرطیں منظور کرلیں۔ بصرہ کی ولایت حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد جب عراق بھی امیر معاویہ کے قبضہ میں آگیا اورانہوں نے جدید انتظامات کے سلسلہ میں کسی کو یہاں کا گور نر بنانا چاہا، تو عبداللہ بن عامر نے کہا،بصرہ میں میرا بہت سا مال و متاع ہے، اگر میرے علاوہ کوئی دوسرا عامل بنایا جائے گا تو وہ سب ضائع ہوجائے گا ؛چنانچہ معاویہ نے ان ہی کو عامل بنادیا اور یہ دوبارہ تین سال تک یہاں کے عامل رہے، پھر معزول کردیئے گئے۔ (اسد الغابہ:۳/۱۹۲) وفات معزولی کے بعد مدینہ چلے آئے، باختلافِ روایت ۵۷ھ یا ۵۸ھ میں یہیں وفات پائی۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۷۳) تمول عبداللہ بن عامر قریش کے بڑے صاحبِِ ثروت اشخاص میں تھے، سیکڑوں فتوحات حاصل کیں ،ان میں مال غنیمت کا پانچواں حصہ ملتا رہا، دو مرتبہ بصرہ کے گورنر ہوئے اس میں کافی دولت پیدا کی ان کا لاکھوں روپیہ مختلف کاموں میں لگا ہوا تھا، اس کے علاوہ مکہ کے قرب وجوار میں باغات اور فصلیں تھیں۔ (اسد الغابہ:۳/۱۹۲) فیاضی خدانے جس طرح انہیں صاحبِ ثروت بنایا تھا ویسے ہی وہ فیاض بھی تھے، کان احدا لاجوادالممدوحین، یعنی وہ عرب کے مشہور ممدوح فیاضوں میں سے ایک فیاض تھے (اسد الغابہ:۳/۱۹۲) حج سے واپسی کے بعد جب مدینہ گئے تو مالِ غنیمت کے حصہ میں سے ہزاروں روپیہ مہاجرین وانصار میں تقسیم کیا (ایضاً) ان کی وفات پر زیاد اعجم نے ان کی فیاضی کا نہایت پر زور مرثیہ لکھا تھا (استیعاب:۱/۳۸۸) بڑے بڑے صحابہ ان کی فیاضی کے معترف تھے،حضرت عثمانؓ نے جب حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو بصرہ سے معزول کرکے ان کی جگہ عبداللہ کو مقرر کیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے جاتے وقت اہلِ بصرہ کو ان الفاظ میں عبداللہ کی آمد کی اطلاع دی کہ تمہارے پاس قریش کا ایک معزز نوجوان آرہا ہے جو تم میں اس طرح (ہاتھوں سے بتاکر) روپیہ پیسہ برسا ئیگا۔ (طبری ولادیت عبداللہ بنعامر) انتظامی قابلیت گو عبداللہ بن عامر مذہبی علوم میں کوئی پایہ نہیں رکھتے تھے،لیکن انتظامی امور میں بڑا ملکہ تھا وہ جہاں گیری کے ساتھ جہاندار بھی تھے،انہوں نے اپنے زمانہ حکومت میں رعایا کے آرام و آسایش کے لیے بصرہ میں نہر کھدوائی اور بہت سے مکانات خرید کر بازار بنوایا۔ (اسد الغابہ:۳/۱۹۲) اس کے علاوہ اوربہت سے رفاہ عام کے کام کئے،خصوصاً عرب کی خشک سرزمین میں بکثرت پانی رواں کیا، عرفات میں حجاج کو پانی کی تکلیف ہوتی تھی، عبداللہ نے بڑے بڑے حوض اور تالاب بنواکر ن میں نہر وں سے پانی اُتارا، عرفات کے علاوہ مختلف مقامات پر بکثرت کنویں کھدوائے ‘ولہ اٰبارنی الارض کثیرۃ’ یہ غالباً آنحضرتﷺ کی اس پیش گوئی کا اثر تھا کہ یہ "مسقی" سیراب کرنے والا ہوگا۔