انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۳)صحابہ ؓ کی درایت میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ (۶۷ھ) نے حفاظت حدیث کی عملی صورت یہ بیان کی کہ راوی اپنی ذات میں (اپنے ضبط میں) اور دین میں (اپنی دیانت میں) قابل بھروسہ ہونا چاہئے، آپ سے پوچھا گیا"فکیف بما جاء من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" (ترجمہ: سو اس باب میں کہ وہ حدیث رسول بیان کرے کیا ہونا چاہئے) تو آپ نے فرمایا: "مااخذ تموہ عمن تامنونہ علی نفسہ و دینہ فاعقلوہ"۔ ترجمہ: جو تم ایسے شخص سے لو جسے تم اس کی ذات(اہلیت) میں اور اس کے دین (دیانت) میں لائق بھروسہ سمجھتے ہو تو اس سے جان لیا کرو۔ ہاں! جب عقائد میں بدعت والحادراہ پالے تو پھر اخبار احاد سے پرہیز کی جائے،اس لیے کہ عقائد دلائل قطعیہ یقینیہ سے ثابت ہوتے ہیں اوران کے لیے قرآن کریم اور حدیث متواتر ہی روشنی کے دومینارہیں، بدعت والحاد کے اندھیروں میں خبر واحد سے چلنا صحابہ کرامؓ کی درایت کے خلاف تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ) فرماتے ہیں: "إناكنا نحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذلم يكن يكذب عليه فلما ركب الناس الصعب والذلول تركنا الحديث عنه"۔ (التمھید لما فی الموطا،مقدمۃ:۱/۴۳) ترجمہ: ہم آنحضرتﷺ سے حدیثیں روایت کیا کرتے تھے اوران دنوں حضورﷺ پر جھوٹ نہ باندھا جاتا تھا، جب لوگ آپ پر رطب ویا بس کہنے لگے تو ہم نے آپ سے روایات لانا چھوڑدیا (کہ کہیں غلط کارلوگ بھی اس طرح حضورﷺ کا نام لے کر اپنی باتیں نہ کہنے لگیں)۔ حضرت ابوہریرہؓ(۵۷ھ) نے فرمایا: "إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذونه"۔ (التمہید لما فی الموطا من،مقدمۃ:۴۵/۱) ترجمہ: بے شک یہ علم"دین"ہے سو تم دیکھو کہ تم کن لوگوں سے دین لے رہے ہو۔ حضرت امام سیرینؒ نے بھی یہی بات کہی: "إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ"۔ (صحیح مسلم،باب حدثنا حسن بن الربیع حدثنا حماد:۱/۳۳) راوی میں نظر کرنا مقدمہ الواجب واجب کے قبیل سے خود دین ہے؛ پھر اہل حق کی یہی کاوش رہی کہ کسی غیر محتاط آدمی سے حضورﷺ کے نام پر کوئی بات قبول نہ کی جائے۔ حضرت عقبہ بن نافع اپنے بیٹوں کو نصیحت فرماتے تھے: "يابني لا تقبلوا الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلامن ثقة"۔ (تمہید لما فی الموطا من، مقدمۃ:۱/۴۵) ترجمہ: اے میرے بیٹو! تم حضورﷺ کے نام سے کوئی بات کسی سے نہ لو،جب تک کہ وہ شخص قابل اعتماد نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ (۱۵۶ھ) نے بھی کہا: "الْإِسْنَادُ مِنْ الدِّينِ وَلَوْلَاالْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَاشَاءَ"۔ (مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸) ترجمہ:سند لانا بھی دین کا ہی کام ہے؛ اگر سند لانا نہ ہو تو جو شخص جو چاہے کہتا رہے۔ صحابہ کی یہ درایت اس کے حقیقی پہلوؤں میں تھی،حضورؐ ﷺ نے کیا فرمایا اورکیا کیا، اس بارے میں ان کی پوری کاوش تھی؛کہ صحیح نتائج ان کے ہاتھ لگیں،اصول روایت ان کے اصول درایت پر مبنی تھے،جہاں تک متن حدیث کا تعلق ہے اسے وہ اپنی درایت میں نہ اتارتے،صرف اکابر صحابہ جو اپنے علم و فہم میں نہایت ممتاز سمجھے جاتے، وہ کبھی روایات کو قرآن سے منطبق کرتے اوران پردرایۃً بحث کرتے؛ لیکن یہ مقام ہر ایک صحابی کا نہ تھا، نہ ہر ایک کا اجتہاد اس درجے کا تھا؛کہ وہ حضورﷺ کے ارشادات میں ان رقیق مباحث میں پڑیں، ایسے مباحث کہیں کہیں حضرت عمرؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہاں ملتے ہیں۔ ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہؓ (۵۸ھ) فرماتی ہیں: "أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْآيَةَ"۔ (بخاری،وقال مجاھد ذومرۃ،حدیث نمبر:۴۴۷۷) ترجمہ: تم ان تین باتوں میں کہا ں ہو؟جو کوئی تم سے یہ بیان کرے اس نے درست نہیں کہا، جو تمہیں یہ کہے کہ حضورﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے صحیح نہیں کہا، حضرت ام المومنین نے اس پر یہ آیت پڑھی "آنکھیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ آنکھوں کو پائے ہوئے ہے اور وہ ہے باریک بین خبر والا، اورپڑھا اور یہ کسی انسان کے لیے نہیں کہ خدا اس سے ان تین صورتوں کے علاوہ کلام کرے، (۱)اشارہ سریعہ (۲)پردہ کے پیچھے سے اور (۳)کسی فرشتے کو بھیج کر اور جو کوئی تم سے یہ بیان کرے کہ آپ جانتے تھے: کل کیا ہونے والا ہے، اس نے بھی درست نہیں کہا اورآیت پڑھی اور کوئی جی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا اور جو کوئی تم سے یہ بیان کرے ؛کہ آپ نے دین کی کوئی بات چھپائی (تقیہ کرتے رہے ) سو اس نے بھی غلط کہا اور آیت پڑھی، اے رسول! جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے آگے ضرور بیان کردیں۔ آپ نے دیکھا حضرت ام المومنین کس طرح حدیث کو قرآن کے سائے میں لارہی ہیں،حدیث وہی صحیح ہے جو قرآن سے نہ ٹکرائے،اکابر صحابہ کئی دفعہ حدیث بیان کرتے ہوئے اس پر قرآن کریم کی آیت پڑھ دیتے تھے، اس قسم کی روایات سے پتہ چلتا ہے؛کہ صحابہ نے حدیث کی حفاظت کا ایک یہ بھی انداز اختیار کیا تھا؛کہ وہ قرآن سے نہ ٹکراتی ہو۔