انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علماءِ جرح وتعدیل پھرمحدثین کا وہ طبقہ سامنے آتا ہے جن کا موضوع زیادہ تررواۃِ حدیث کی جانچ پڑتال رہا، وہ جرح وتعدیل کے امام تھے، ان کی توجہ تحقیق رواۃ پر اس درجہ مبذول رہی کہ ایک نیا مستقل فن وجود میں آیا، جسے علمِ اسماء الرجال کہا جاتا ہے، جس طرح معانی حدیث میں فقہ وتعمق اس موضوع کا ایک اہم حصہ ہے، معرفتِ رجال بھی اس موضوع کا نصف علم ہے، امام علی بن المدینیؒ (۲۳۴ھ) کی یہ رائے آپ پہلے سن آئے ہیں: "الفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم ومعرفۃ الرجال نصف العلم"۔ (مقدمہ خلاصہ تذہیب تہذی الکمال، للحافظ صفی الدین الخزرجی (المتوفی:۹۲۳ھ) مطبع کبریٰ بولاق، طبع ۱۳۰۱ھ) ترجمہ: حدیث کے معانی میں غور وفکر کرنا اس موضوع کا نصف علم ہے اور نصف ثانی حدیث کے رجال کی معرفت ہے۔ سوعلم دو ہی ہیں: (۱)فقہ اور (۲)فن اسماءالرجال، ایک علم متن حدیث سے متعلق ہے تودوسرا سند حدیث سے۔ علماء جرح وتعدیل نے رواتِ حدیث کے مختلف درجات معلوم کیئے، اُن کا فنی تجزیہ کیا، باہمی اختلاف کی صورت میں نتیجہ خیزی کی راہیں قائم کیں، یہ حضرات اس جہت سے ائمہ حدیث قرار پائے، بعد کے آنے والے محققین ان کی کاوشوں سے ہی فیصلوں کی راہیں تلاش کرتے ہیں اور اس گروہ کوجتنا خراج تحسین ادا کیا جائے کم ہے، مولانا حالی لکھتے ہیں: ؎ گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا لگایا پتہ اس نے ہرمفتری کا نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا کیا قافیہ تنگ ہرمدعی کا کیئے جرح وتعدیل کے وضع قانون نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسون اس طبقے میں ہم امیرالمؤمنین فی الحدیث عبداللہ بن مبارک (۱۵۶ھ)، امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ)، وکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)، عبدالرحمان بن مہدی (۱۹۸ھ)،سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ)، علی بن المدینی (۲۳۴ھ) اور یحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) کا تذکرہ کریں گے؛ پھران کے بعد ائمہ تالیف کا ذکر ہوگا، جنھوں نے کتابیں لکھیں۔