انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو سلیمان دارانیؒ (م:۲۱۵ھ) ۱۔دنیا اپنے بھاگنے والے کا پیچھا کرتی ہے،اگر وہ بھاگنے والے کو پکڑلے تو زخمی کرکے چھوڑتی ہے اوراگر طالب دنیا اسے پکڑ لے تو اسے قتل ہی کر ڈالتی ہے۔ ۲۔وسوسوں اورخوابوں کی کثرت کمزور آدمی کو ہوتی ہے،اگر مکمل اخلاص پیدا ہوجائے تو خواب اوروسوسے دونوں بند ہوجائیں۔ اس کے بعد پھر اپنے بارے میں فرمایا: "بعض اوقات مجھے کئی کئی سال گزرجاتے ہیں اور کوئی خواب نہیں آتا" ۳۔اگر تم سے کوئی نفلی عبادت فوت ہوجائے تو اس کو بھی قضا کرلیا کرو، اس سے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی تم سے نہیں چھوٹے گی۔ ۴۔بعض اوقات مجھے قرآن مجید کی صرف ایک آیت پر غور کرتے ہوئے پانچ پانچ راتیں گزر جاتیں ہیں، اگر میں خود سے اس پر سوچنا نہ چھوڑدوں تو اس سے آگے نہ بڑھ سکوں۔ ۵۔ایک شاگرد نے ایک مرتبہ آپ سے کہا ‘‘ مجھے بنی اسرائیل پر رشک آتا ہے کہ ان کی عمر بہت لمبی ہوتی تھیں اور وہ اتنی عبادت کرتے تھے کہ ان کی کھالیں سکڑ کر پرانے مشکیزہ کی طرح ہوجاتی تھی، حضرت دارانی ؒ نے فرمایا: "خدا کی قسم ! اللہ تعالی ہم سے یہ نہیں چاہتے کہ ہماری کھالیں ہڈیوں پر خشک ہوجائیں، اللہ تعالی ہم سے صدق نیت کے سوا کچھ نہیں چاہتے،اگر ہم میں سے کوئی شخص دس ہی دن میں یہ صدق پیدا کرلے اسے وہ درجہ مل سکتا ہے جو بنی اسرائیل کے کسی شخص نے پوری عمر میں حاصل کیا ہو" ۶۔عبادت یہ نہیں کہ تم تو قدم جوڑے نماز میں کھڑے رہو اور کوئی دوسرا شخص تمہارے لئے روٹیاں پکاتا رہے؛بلکہ پہلے اپنی دو روٹی کا انتظام کرلو، پھر عبادت کرو۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم:۹/۲۵۴،۲۶۴ ملخصاً) ۷۔بسا اوقات میرے قلب میں معارف وحقائق اورعلوم صوفیاء میں سے کوئی خاص نکتہ عجیبہ وارد ہوتا ہے اور ایک زمانہ دراز تک وارد ہوتا رہتا ہے،مگر میں اس کو دو عادل گواہوں کی شہادت کے بغیر قبول نہیں کرتا اوروہ دو عادل گواہ کتاب وسنت ہیں۔ (ثمرات الاوراق:۷۶) ۸۔جس نے دن کے وقت کوئی نیک کام کیا، اسے اسی رات جزا دی جاتی ہے اورجس نے رات کو کوئی نیک عمل کیا، اسے دن میں جزادی جاتی ہے اورجس نے صدق دل سے خواہشات کو چھوڑا، اللہ تعالی ان خواہشات کو اس کے دل سے نکال دیتے ہیں،اللہ تعالی اس سے زیادہ مہربان ہیں کہ وہ کسی دل کو اس کی اس خواہش کی وجہ سے عذاب دیں، جو اللہ کی خاطر ترک کی گئی ہو۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۲) ۹۔جس دل میں دنیا سکونت پذیر ہوجاتی ہے،آخرت وہاں سے کوچ کرجاتی ہے۔ ۱۰۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میرے دل پر صوفیاء کے نکات معرفت وارد ہوتے ہیں اور کئی دنوں تک رہتے ہیں،مگر جب تک کتاب وسنت کے دونوں عادل گواہ اس کی تائید نہ کریں، انہیں قبول نہیں کرتا۔ ۱۱۔ہر چیز کی علامت ہے اور رسوائی وذلت کی علامت یہ ہے کہ ہم بارگاہ رب العزت میں آہ زاری کرنا چھوڑدیں ۔ ۱۲۔ہر وہ چیز جو تجھے اللہ سے غافل کردے خواہ وہ گھر بار ہو یا اولاد وہ تمہارے لئے منحوس ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۳) ۱۳۔ہر اس چیز کو ترک کردینے کا نام زہد ہے،جو اللہ کی طرف مشغولیت سے روکے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۲) ۱۴۔سیر ہوکر کھانا دنیا کی کنجی ہے اوربھوک آخرت کی کنجی۔ ۱۵۔میرے نزدیک رات بھر قیام میں گزارنے سے بہتر یہ ہے کہ میں رات کو ایک لقمہ کم کھاؤں۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۹۶) ۱۶۔اگر سب لوگ اس بات پر اکھٹے ہوجائیں کہ وہ میری عزت کو(میری نظروں میں) اس قدر گھٹادیں،جس قدر کہ میں نے خود اسے گھٹا رکھا ہے تو وہ یہ نہ کرسکیں گے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۰۱) ۱۷۔جس شخص نے یہ خیال کیا کہ اس کی کوئی قیمت ہے تو وہ خدمت کی مٹھاس کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۰۴) ۱۸۔جس شخص نے رات کے وقت کوئی نیک کام کیا، اسے اسی دن اس کی جزاء مل جاتی ہے اورجس نے دن کے وقت نیک کام کیا، اسے اسی رات کو بدلہ مل جاتا ہے اور جس نے اپنی خواہشات کو صدق دل سے ترک کیا، اللہ تعالی اسے ان خواہشات کی تکلیف سے کفایت کرتا ہے اوراللہ تعالی اس سے بہت زیادہ کریم ہے کہ وہ اس دل کو سزا دے جس نے اپنی خواہشوں کو اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کیا۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۱۱) ۱۹۔رضا کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ نہ تو اللہ تعالی سے جنت مانگے اورنہ دوزخ سے پناہ طلب کرے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۷۰) (۱)دین میں ہر بھلائی کی اصل اللہ کا خوف ہے ، دنیا کے برائیوں کی اصل پیٹ کا بھرا رہنا ہے ، اور آخرت کے کمالات کی اصل بھوکا رہنا ہے ۔ (۲)خشک روٹی کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اور پھر بھی اپنے آپ کو زاہد مت جانو ، کیونکہ دنیا سے تھوڑا حصہ بھی بڑے گناہ کی طرف کھینچ لے جاتا ہے اور آدمی کو معلوم بھی نہیں ہوتا ۔ (۳)یہ خوبی نہیں ہے کہ تم اپنے پاؤں کو عبادت کے لئے باندھ رکھو اور دوسرا تمہاری خاطر مصیبت اٹھائے ، بلکہ خوبی یہ ہے کہ اپنی روٹی کو پہلے گھر میں جمع کرو اور پھر نماز پڑھو اس کے بعد پرواہ مت کرو کہ کون دروازہ کھٹکھٹاتاہے ، اور اگر پاس میں کھانے کو نہ ہوگا تو جو کوئی دروازہ کھٹکھٹائےگا دل میں یہی خیال آئے گا کہ کچھ کھانے کی چیز لایا ہوگا۔ (اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے )۔ (۴)جو شخص اپنے بھائی کے کھانے کو اس کو خوش کرنے کے لئے کھاتا ہے تو وہ کھانا اس کو ذرا بھی مضر نہیں ہوتا ، اور اگر اس کھانے کو شہوت ِ نفس سے کھایا جائے تو مضر ہوتا ہے ، اور یہ اس لئے ہے کہ جس چیز سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا قصد ہوتا ہے تو اس کا انجام خیر و عافیت ہی ہوتا ہے۔ (۵)درویش کو زیب نہیں دیتا کہ کپڑوں کی صفائی کا بہ نسبت قلب کی صفائی کے زیادہ اہتمام کرے ، بلکہ اس کا ظاہر اس کے باطن کے ہم شکل ہونا چاہئے ۔ (۶)بہترین عمل خواہشات نفسانی کی مخالفت کرنا ہے ۔ (۷)دنیا و آخرت میں ہر خیر و نیکی کی جڑ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف ہے ۔ (۸)بلا شبہ چور کسی ویران مکان میں نقب زنی کرنے نہیں جاتا حالانکہ وہ اس میں جہاں چاہے جاسکتا ہے ، وہ صرف ایسے گھر کا قصد کرتا ہے جو مال و زر سے معمور ہو ، بعینہ یہی حال ابلیس ِ لعین کا ہے ، وہ انہیں قلوب پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خشیت ِ الٰہی ، انابت الی اللہ اور ذکر فکر سے معمور رہتے ہیں ۔ (۹)لوگ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرکے اہلِ ثروت بننا چاہتے ہیں حالانکہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ دولت کثرت ِ مال کا نام ہے ، خوب سمجھ لو کہ اصل غنی وہ ہے جو قناعت کی دولت رکھتا ہو ، اسی طرح راحت خوشحالی میں نہیں بلکہ تنگی میں ہے۔ (۱۰)لوگ عام طور پر نرم اور باریک لباس ، عمدہ غذا ، اور آرام دہ مکان میں آسائش تلاش کرتے ہیں حالانکہ وہ در اصل اسلام ، ایمان ، عملِ صالح ، اور ذکر اللہ میں پوشیدہ ہے ۔ (۱۱)قیامت کے دن خدائے رحمٰن کی ہمنشینی کا شرف ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو کرم، علم ، حلم ، حکمت ، نرم خوئی ، رحم دلی ، عفو و درگزر ، احسان، نیکی ، لطف و مروت ، اور رافت و محبت کی صفات سے متصف ہو ں گے ۔ (۱۲)جب نفس بھوکا پیاسا ہوتا ہے تو دل میں صفائی اور نرمی پیدا ہوتی ہے اور شکم سیری کی حالت میں قلب اندھا ہوجاتا ہے ۔ (۱۳)جس شخص نے استغناء کے ساتھ اور حلال کے ذریعہ سے دنیا کو طلب کیا تو وہ قیامت کے روز خدا سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح درخشاں ہوگا ۔