انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوزخ میں مؤ منوں کا حال حضور کی شفاعت اور اللہ کی رحمت سے مؤ منوں کا جہنم سے باہر نکلنا صحیح احادیث میں(گذشتہ اوراق میں)گذرچکا ہے کو مؤ من پل صراط سے گذریں گے تو ان میں سے جو نجات پائیں گے پالیں گے اور جو گریں گے گرجائیں گے پھر جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو جومؤ من جہنم میں چلے گئے انہیں یہ حضرات گم پائیں گے تو اللہ تعالی سے ان کے جہنم سے باہر نکلنے کا سوال فرمائیں گے۔ مؤ منوں کی سفارش اور اللہ کی ایک مٹھی سے دوزخیوں کی بخشش (حدیث)حضرت ابو سعید خدری آپ سے ایک طویل روایت میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا: حَتَّى إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمْ الَّذِينَ فِي النَّارِ يَقُولُونَ، رَبَّنَا کَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ وَيَحُجُّونَ فَيُقَالُ لَهُمْ أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّارِ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا کَثِيرًا قَدْ أَخَذَتْ النَّارُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا مَا بَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ فَيَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا کَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا ثُمَّ يَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا کَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا ثُمَّ يَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا کَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا وَکَانَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ إِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي بِهَذَا الْحَدِيثِ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا ،فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَفَعَتْ الْمَلَائِکَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنْ النَّارِ فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ قَدْ عَادُوا حُمَمًا فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهَرٍ فِي أَفْوَاهِ الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ نَهَرُ الْحَيَاةِ فَيَخْرُجُونَ کَمَا تَخْرُجُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ (مسلم،باب معرفۃ طریق الرؤیۃ،حدیث نمبر:۲۶۹) (اس حدیث کی مراجعت ضروری ہے) (ترجمہ)جب مسلمان جہنم سے پار ہوجائیں گے تو مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے ہر ایک سے زیادہ حق کی ادائیگی میں مؤ منوں کے لئے روز قیامت اللہ تعالی کو قسم دلانے والا نہیں ہوگا یہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کی سفارش کرتے ہوئے کہیں گے اے ہمارے رب یہ(جہنم میں موجود مؤ من حضرات)ہمارے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے نمازیں پڑھا کرتے تھے اور حج کیا کرتے تھے(اس لئے انہیں معاف فرما کر جہنم سے نکالیں اور جنت میں داخل فرمادیں)توانہیں فرمایا جائے گا جنہیں تم جانتے ہو ان کو نکال لاؤ ان کے جسم جہنم پر حرام ہیں،پس وہ لوگ بہت سی خلقت کو نکال لائیں گے جنہیں جہنم نے آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک غرق کیا ہوا تھا پس یہ لوگ عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار جن کاحکم آپ نے ہمیں فرمایا تھا ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا،پھر اللہ تعالی ان کو حکم فرمائیں گے،تم واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی خیر پاتے ہو اسے(بھی جہنم سے) نکال لاؤ پس وہ بہت سی مخلوق کو نکال لائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے کسی کو اس میں نہیں چھوڑا جس کا بھی آپ نے ہمیں حکم فرمایا (ہم اس کو نکال لائے ہیں)پھر اللہ تعالی فرمائیں گے (اب بھی)واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں آدھے دینار کے وزن کے برابر بھلائی جانو اسے بھی نکال لو پس وہ بہت سی مخلوق کو باہر نکال لیں گے پھر کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے اس میں کسی کو نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا آپ نے ہمیں حکم دیا پھر اللہ تعالی فرمائیں گے (اب بھی) واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی بھلائی (ایمان )پاؤ اسے نکال لاؤ تب بھی وہ بہت سی مخلوق کو باہر نکال لائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے اس میں بھلائی کرنے والی (ایمانی لانے والی)مخلوق بالکل نہیں رہنے دی (سب کو جہنم سے نکال لیا ہے) "حضرت ابو سعید خدری اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے اگر تم اس حدیث کے بارے میں میری تصدیق نہ کرو تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو" "إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا" (النساء:۴۰) (ترجمہ)بلاشبہ اللہ تعالی کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں فرمائیں گے اگر ایک نیکی (بھی)ہوگی تو اسے بھی اجر وثواب میں)دوگنادردو گنا کردیں گے اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ پھر اللہ تعالی فرمائیں گے فرشتوں نے شفاعت کی،انبیاء علیہم السلام نے بھی شفاعت کی اور مؤ منین نے بھی شفاعت کی اب سوائے ارحم الراحمین کے کوئی نہیں بچا تو(خود اللہ تعالی)آگ سے (مومنین) ایک مٹھی بھریں گے اور اس کے ذریعہ ایسی قوم کو باہر نکالیں گے جنہوں نے ایمان کے علاوہ اور کوئی بھلائی کبھی نہ کی ہوگی اور وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے پس اللہ تعالی ان کو جنت کے سامنے نہر میں ڈالدیں گے اس نہر کا نام نہر حیات ہے تو وہ(اس سے اس حالت میں)نکلیں گے جیسے سیلاب خشک ہونے کے بعد دانہ اگتا ہے۔ (بخاری ومسلم) دوزخ سے مومنوں کو نکالا جائے گا (فائدہ)جن لوگوں نے کبھی بھلائی نہ کی ہوگی،اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے اعضاء سے کوئی عمل نہ کیا ہوگا اگرچہ ان کے ساتھ توحید کی حقیقت موجود ہوگی جیسا کہ اس آدمی کی حدیث میں بھی وارد ہے جس نے اپنے گھر والوں کو کہا تھا کہ اسے موت آنے کے بعد جلا ڈالیں،اس نے بھی کوئی نیک عمل کبھی نہیں کیا تھا سوائے توحید کے۔ (مسند احمد) اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا"میں اللہ تعالی کے سامنے عرض کروں گا اے میرے پروردگار مجھے ان لوگوں کے متعلق (بھی)شفاعت کرنے کی اجازت دیں جو لا الہ الا اللہ کہتے تھے،تو اللہ تعالی فرمائیں گے مجھے میری عزت جلال کبریائی اورعظمت کی قسم ہے میں ضرور ایسے آدمی کو جہنم سے نکالوں گا۔ (جس نے لا الہ الا اللہ کہا تھا) (بخاری ومسلم) یہ حدیث بھی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جن لوگوں نے کبھی بھی اپنے اعضاء سے نیک عمل نہ کیا ہوگا لیکن صرف اہل کلمہ تھے ان کو اللہ تعالی اپنی رحمت سے بغیر کسی کی شفاعت کے جہنم سے نکالیں گے۔ فرشتے دوزخیوں کو دوزخ سے نکالیں گے (حدیث)حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے ایک طویل حدیث میں یہ بھی فرمایا: حتی اذا فرغ اللہ من القضاء بین العباد واراد ان یخرج برحمۃ من اراد من اھل الکبائر من النار،امرالملائکۃ ان یخرجوا من النار من کان لایشرک باللہ شیئا ممن دخل النار یعرفون باثر السجود،تاکل النار مامن ابن ادم الا اثر السجود حرم اللہ علی النار ان تاکل اثر السجود فیخرجون من النار قدامحشوا فیصب علیھم ماء الحیاۃ فینبتون منہ کا تنبت الحبۃ فی حمیل السیل (البخاری ومسلم) (ترجمہ)حتی کہ جب اللہ تعالی بندوں کے درمیان انصاف کرکے فارغ ہوجائیں گے اور ارادہ فرمائیں گے کہ اپنی رحمت سے بڑے گناہوں کے مرتکب لوگوں کو جہنم سے نکال لیں تو فرشتوں کو حکم فرمائیں گے وہ ہر اس آدمی کو جہنم سے نکال لیں جو اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہیں کرتا تھا(یہ فرشتے)انہیں سجدہ کے نشان سے پہچانیں گے (کیونکہ)جہنم ابن آدم کے تمام حصوں کو جلائے گی مگر سجدہ کے مقام کو باقی چھوڑ دے گی(اس لئے کہ) اللہ تعالی نے آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ سجدوں کے مقامات کو جلاڈالے جب وہ جہنم سے نکلیں گے تو وہ کوئلہ ہوچکے ہوں گے پس ان پر آب حیات پلٹا جائے گا تو وہ اس سے اس طرح تر و تازہ ہوجائیں گے جس طرح دانہ سیلاب خشک ہونے کے بعد(زمین سے)اگ پڑتا ہے (الحدیث)بخاری ومسلم گناہگار دوزخی شفاعت سے جنت میں أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا فَإِنَّهُمْ لَا يَمُوتُونَ فِيهَا وَلَا يَحْيَوْنَ وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمْ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ أَوْ قَالَ بِخَطَايَاهُمْ فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا کَانُوا فَحْمًا أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ ثُمَّ قِيلَ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ (مسلم،باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین،حدیث نمبر:۲۷۱) (ترجمہ)دوزخی جو جہنم کے اہل ہوں گے وہ نہ تو اس میں مریں گے اورنہ جئیں گےلیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنہیں آگ ان کے گناہوں کے حساب سے جلائے گی،پھر اللہ تعالی ان کو موت دیدیں گے یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ بن جائیں گے تو شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو ان کو جماعتوں کی شکل میں لایا جائے گا اورجنت کی نہروں پر بکھیر دیا جائے گا پھر اہل جنت کو حکم دیا جائے گا کہ ان پر(آب حیات) پلٹو تو وہ اس سے تروتازہ ہوجائیں گے جس طرح سیلاب میں بہنے والا دانہ(سیلاب خشک ہونے کے بعد زمین پر ٹھہرتا ہے اور)گر پڑتا ہے۔ (مسلم شریف) (فائدہ)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہگار مسلمان جہنم میں حقیقی طور پر فوت ہوں گے اوران کی روحیں ان کے جسموں سے جدا ہوں گی اس کی دلیل اگلی حدیث میں بھی موجود ہے۔ (تنبیہ) (اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب موت کو بھی موت آجائے گی تو یہ کیسے مریں گے اس لئے کہ مومنوں پر موت آنے کی یہ حالت موت کے ذبح ہونے سے پہلے کی ہے موت کے ذبح ہونے کے بعد قطعا کسی کو موت نہیں آئے گی۔ (امداد اللہ) دوزخ سے نجات پاکر جنت میں جانے والے اونی جنتی ہوں گے (حدیث)حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا: إن أدنى أهل الجنة حظا ، أو نصيبا قوم يخرجهم الله من النار فيرتاح لهم الرب تبارك وتعالى إنهم كانوا لا يشركون بالله شيئا فيبدون بالعراء فينبتون كما ينبت البقل حتى إذا دخلت الأرواح في أجسادهم قالوا ربنا الذي أخرجتنا من النار ورجعت الأرواح إلى أجسادنا فاصرف وجوهنا عن النار قال فيصرف وجوههم عن النار (مسند البزار کاملا من،باب مسند ابی ھریرۃ ؓ:۲/۳۷۲) (ترجمہ)اہل جنت میں کم نصیب والی وہ قوم ہوگی جن کو اللہ تعالی آگ سے نکالیں گے اور(جہنم سے)آزاد کردیں گے اورانہیں راحت پہنچائیں گے اوریہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے ساتھ کسی شئی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں کھلے میدان میں پھینک دیا جائے گا تو یہ تروتازہ ہوکر ابھرنے لگیں گے جیسے سبزہ اگتا ہے یہاں تک کہ جب روحیں اجسام میں داخل ہوں گی تو وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب جس طرح آپ نے ہمیں آگ سے نکالا ہے اور روحوں کو اجسام میں لوٹایا ہے اسی طرح ہمارے رخ بھی آگ سے پھیردیجئے تو ان کے رخ بھی آگ سے پھیردئے جائیں گے۔ دوزخ میں مؤ منوں کی حالت (حدیث)محمد بن علی اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ان اصحاب الکبائر من موحدی الامم کلھا اذا ماتوا علی کبائر ھم غیر نار ‘مین ولاتائبین’ من دخل النار منھم فی الباب الاول من جہنم لاتزرق عینھم ولا تسود وجوھھم ولا یقرنون بالشیاطین ولا یغلون بالسلاسل ولا یجرعون الحمیم ولا یلبسون القطران فی النار حرم اللہ اجسادھم علی الخلود من اجل التوحید وحرم صورھم علی النار من اجل السجود منھم من تاخذہ النار الی قدمیہ منهم مِنْ تأخذه النَّار إِلَى ركبتيه، ومنهم مِنْ تاخذه النَّار إلي حجزته، ومنهم مِنْ تأخذه النَّار إِلَى عنقه، عَلَى قدر ذنوبهم وأعمالهم، ومنهم مِنْ يمكث فيها شهراً ثُمَّ يخرج منها، ومنهم مِنْ يمكث فيها سنة ثُمَّ يخرج منها، وأطولهم فيها مكثاً بقدر الدُّنْيَا منذ يَوْم خلقت إِلَى إِنَّ تفنى، فإذا أراد الله إِنَّ يخرجوا منها، قالت اليهود والنصارى ومن في النَّار مِنَ اهْل الأديان والأوثان، لمن في النَّار مِنَ اهْل التوحيد: آمنتم بالله وكتبه ورسله، فنحن وأنتم اليوم في النَّار سواء، فيغضب الله لَهُمْ غضباً لَمْ يغضبه لشيء فيما مضى، فيخرجهم إِلَى عين في الْجَنَّة، وهو قوله تعالی: (ربمایودالذین کفروالو کانوا مسلمین) الحجر:۲) (خرجہ ابن ابی حاتم وغیرہ وخرجہ الاسماعیل وقال الدار قطنی فی کتاب المختلق:ھو حدیث منکر والیمان مجہول ومسکین ضعیف ومحمد بن حمیر لا اعرفہ الافی ھذا (الحدیث انتھی) (ترجمہ)تمام امتوں کے موحدین بڑے گناہوں کے مرتکب جب اپنے گناہوں کی موجودگی میں بغیر شرمندگی اوربغیر توبہ کے فوت ہوجائیں گے(پھر)ان میں سے جو لوگ دوزخ کے پہلے دروازہ سےآگ میں داخل ہوں گے، نہ تو ان کی بینائی چھینی جائے گی نہ ان کے منہ کالے ہوں گے نہ شیطانوں کے ساتھ جکڑے جائیں گے،نہ زنجیروں سے باندھے جائیں گے،نہ جلتا ہوا پانی پلائے جائیں گے اور نہ جہنم میں تارکول کا لباس پہنائے جائیں گے،اللہ نے توحید کی وجہ سے ان کے اجسام کو جہنم میں ہمیشہ رہنا حرام کردیا ہے سجدوں کی وجہ سے ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کیا ہے،ان میں سے کسی کو بد اعمالیوں کے حساب سے آگ نے قدموں تک پکڑا ہوگا، کسی کو کمر تک اورکسی کو گردن تک،ان میں سے کوئی ایک ماہ جہنم میں رہے گا پھر نکال لیا جائے گا ان میں سےجہنم میں سب سے زیادہ مدت رہنے والا دنیا کی عمر(کے برابر رہےگا یعنی کہ)جب سے دنیا بنی یہاں تک کہ وہ جب تباہ ہوگی،جب اللہ تعالی ارادہ کریں گے کہ ان کو جہنم سے نکالیں تو یہودی اور عیسائی اور باقی دوزخی جو مختلف باطل ادیان یا بت پرستوں سے تعلق رکھتے ہوں یہ(بطور طعنہ)موحدین کو کہیں گے کہ تم(اللہ پر ایمان لائے،اس کی کتابوں پر بھی،اس کے رسولوں پر بھی لیکں ہم اور تم آج دوزخ میں ایک حال میں ہیں،پس اللہ تعالی ان پر اتنا غصہ آلود ہوں گے کہ اور گذشتہ اوقات میں اتنا غصہ آلود نہ کبھی ہوئے ہوں گے،پس ان کو جنت کے ایک چشمہ کی طرف نکالیں گے اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا بہت زیادہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ (سورہ الحجرہ:۲،ابن ابی حاتم،اسماعیلی،دارقطنی) (حدیث)حضرت انسؓ کی حدیث میں پہلے گذرچکا ہے کہ ایک آدمی ہزار سال تک جہنم میں "ی حنان یامنانا"پکارے گا پھر اسے وہاں سے نکالا جائے گا۔ اندھیری رات میں نماز کو جانے والوں کودوزخ میں بند نہیں کیا جائے گا حضرت حسن(بصریؒ) فرماتے ہیں کہ اہل توحید کو آگ میں بند نہیں کیا جائے گا(یہ صورت دیکھ کر)جہنم کی پولیس ایک دوسرے سے کہے گی ان (کفار) کی حالت تو یہ ہے کہ انہیں آگ میں بند کیا ہوا ہے اور انہیں بند نہیں کیا گیا؟ توانہیں ایک منادی ندا کرے گا(اس لئے) کہ یہ لوگ مساجد میں اندھیری رات میں (بھی)جایا کرتے تھے۔ حضرت حسن بصریؒ (ہی) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جہنم سے ایک ہزار سال بعد بھی نکالا جائے گا،حضرت حسن نے(شدت خوف سے)فرمایا کاش کہ یہ آدمی میں ہوتا۔