انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت طفیلؓ بن عمرودوسی نام ونسب طفیل نام ،ذوالنورلقب، سلسلۂ نسب یہ ہے، طفیل بن عمروبن طریف بن العاص بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس بن عدنان بن عبداللہ بن زہران بن کعب ابن حارث بن نصربن ازدازدی۔ (اسدالغابہ:۳/۵۴) دوس کے قبیلے سے تھے اس لیے دوسی کہلاتے تھے، یہ قبیلہ یمن کے ایک گوشہ میں آباد اور خاصہ طاقتور تھا، ایک قلعہ بھی اس کے پاس تھا، حضرت طفیلؓ اس قبیلہ کے رئیس اورغالباًتجارت پیشہ تھے اور اسی تعلق سے مکہ معظمہ آتے رہتے تھے۔ مکہ کا سفر جس زمانہ میں آنحضرتﷺ مکہ میں دعوت اسلام فرمارہے تھے،اس زمانہ میں طفیل کا مکہ آنا ہوا، قریش کے وہ اشخاص جو لوگوں کو آنحضرت ﷺ کے پاس آنے سے روکتے تھے،ان کے پاس بھی پہنچے اورکہا تم ہمارے شہر میں مہمان آئے ہو،اس لیے ازراہ خیر خواہی تم کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اس شخص آنحضرتﷺ نےہماری جماعت میں پھوٹ ڈال کر ہمارا شیرازہ بکھیردیا ہے اورہم لوگوں کو بہت تنگ کر رکھا ہے نہیں معلوم اس کی زبان میں کیا سحر ہے جس کے زور سے بیٹے کو باپ سے بھائی کو بھائی سے بیوی کو شوہر سے چھڑادیتا ہے، ہم کو خوف ہے کہ کہیں تم اور تمہاری قوم بھی ہم لوگوں کی طرح اس کے دام میں نہ آجائے، اس لیے ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو اور نہ اس کی بات سنو،غرض ان لوگوں نے طفیل کو سب نشیب و فراز سمجھا کر آنحضرت ﷺ کی ملاقات سے روک دیا،طفیل نے اس خیال سے کہ مباداآنحضرتﷺ کے آواز کانوں میں نہ پڑجائے،دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ اسلام اتفاق سے اسی حالت میں ایک دن مسجد کی طرف سے گذرے،اس وقت آنحضرتﷺ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اسلام کا شرف ان کی قسمت میں مقدر ہوچکا تھا، اس لیے تمام احتیاطیں بے کار ثابت ہوئیں اور کچھ آیتیں ان کے کان تک پہنچ گئیں یہ کھڑے ہوکر سننے لگے، تو اس میں بڑی دلآویزی معلوم ہوئی،دل ہی دل میں کہنے لگے کہ میں بھی کیا وہمی ہوں، میں خود اچھا شاعر ہوں،کلام کے محاسن و مصائب کو سمجھ سکتا ہوں پھر اس شخص کا کلام کیوں نہ سنوں ،اگر اس میں کوئی خوبی ہے تو اس کے اعتراف میں بخل نہ کرنا چاہیے اور اگر ناقابل توجہ ہے تو التفات کی ضرورت نہیں، غرض اس طرح دل کو تسلی دے کر پورے غور سے آیات قرآنی سنیں، یہ کیا معلوم تھا کہ کلام کے حسن و قبح کا فیصلہ ان کی قسمت کا فیصلہ کردیگا جب تک آنحضرتﷺ نماز پڑہتے رہے،طفیل گوش ہوش سے سنتے رہے،ادھر آپ نے نماز ختم کی،ادھر طفیل کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور وہ بے اختیارانہ آپ کے پیچھے پیچھے چلے، کاشانۂ اقدس پر پہنچ کر قریش کی پوری گفتگو سناکر عرض کیا: اس خوف سے میں نے کانوں میں روئی رکھ لی تھی کہ آپ کا معجزانہ کلام نہ سن سکوں؛ لیکن اللہ کو سنانا منظور تھا،اس لیے یہ احتیاط بے کار ثابت ہوئی، اب آپ اپنی تعلیمات سنائیے،آنحضرتﷺ نے اسلام کی تعلیمات بتا کر قرآن کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں، طفیل سن کر متحیر ہوگئے اور بے اختیار زبان سے نکل گیا، اللہ کی قسم آج تک اس سے بہتر کلام نہ میرے کانوں نے سنا اورنہ اس سے زیادہ عادلانہ کوئی مذہب دیکھا، میں بطیب خاطر اس مذہب حق کو قبول کرتا ہوں۔ وطن کی واپسی اسلام لانے کے بعد عرض کیا، یا رسول اللہ!میں اپنی قوم کا سربرآوردہ شخص ہوں،اس لیے چاہتا ہوں کہ وہاں جاکر اہل وطن کو بھی دعوتِ اسلام دوں، آپ فرمائیے کہ اللہ اس کار خیر میں میری مدد کرے، آنحضرﷺ نے اجازت دی اور دعا فرمائی ،گھر پہنچے تو والد ملنے آئے،کہا قبلہ! آپ مجھ سے الگ رہیے، اب آپ کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے کہا کیوں؟ کہا میں نے دین اسلام قبول کرکے محمدﷺ کا طوق غلامی گردن میں ڈال چکا ہوں، اس لیے آپ سے کوئی واسطہ باقی نہیں رہا، باپ کی قسمت میں بھی یہ سعادت لکھی تھی، بولے بیٹا!جودین تمہارا وہی دین میرا،چنانچہ اسی وقت نہلادھلا کر ان کو اسلام کے دائرہ میں داخل کیا، بیوی کو آمد کی خبر ہوئی تو وہ بھی آئیں، ان کو بھی وہی جواب دیا، جو پہلے والد کو دے چکے تھے، بیوی نے کہا میں تمہارے مذہب کے خلاف کیسے رہ سکتی ہوں، مجھے بھی اس نعمت میں شریک کرو، چنانچہ ان کو بھی مشرف باسلام کیا، گھر روشن کرنے کے بعد قبیلہ کی طرف متوجہ ہوئے؛لیکن اس میں آواز بے اثر رہی تو مکہ واپس آئے اورآنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ میری قوم میرا کہنا نہیں مانتی،آپ اس کی ہدایت کے لیے دعا فرمائیے،آپ نے دعا فرمائی کہ :اےاللہ! دوس کو ہدایت دے اور اس پر ابررحمت کا نزول فرما، دعا کے بعد ہدایت فرمائی کہ نرمی اور آشتی کے ساتھ جاکر اسلام کی طرف مائل کرو؛چنانچہ وہ حسب ارشاد نبویﷺ دوبارہ گھر لوٹ کر تبلیغ وہدایت میں مشغول ہوگئے اورآنحضرتﷺ کی دعا کی برکت سے کچھ دنوں کے بعد دوس کی معتدبہ تعداد اسلام کے حلقۂ اثر میں آگئی۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۷۵) آنحضرتﷺ کو اپنے قلعہ میں چلنے کی دعوت دینا دائرہ ٔاسلام کی وسعت کے ساتھ ساتھ مشرکین مکہ کا جو روستم بھی بڑھتا جاتا تھااورذات نبویﷺ کے ساتھ بھی گستاخیاں کرنے میں ان کو باک نہ تھا اورانہوں نے آنحضرتﷺ اورمسلمانوں کی ایذارسانی کو اپنا مستقل شعار بنالیا تھا،دوس میں ایک نہایت مضبوط قلعہ تھا،طفیل نے آنحضرتﷺ کو اپنے اس قلعہ میں منتقل ہوجانے کی دعوت دی اورآپ کی حفاظت کی ذمہ داری لی،لیکن یہ فخر انصار کے لیے مقدر ہوچکا تھا، اس لیے آپ نے ان کی دعوت قبول نہ فرمائی۔ (مسلم:۱/۵۸،باب الدلیل علی ان قاتل نفسہ لایکفر) ہجرت اس درمیان میں آنحضرتﷺ ہجرت کرکے مدینہ آگئے،بدر،احد اورخندق کی لڑائیاں بھی ختم ہوگئیں اورخیبر کی تیاریاں شروع ہوئی تھیں کہ حضرت طفیلؓ تقریباً اسی گھرانوں کے ساتھ مدینہ تشریف لائے؛لیکن آنحضرتﷺ خیبرمیں تھے،اس لیے یہ پورا قافلہ بھی وہیں روانہ ہوگیا۔ غزوات اور یہ سب کے سب غزوۂ خیبر میں شریک ہوئے اور طفیل کی خواہش پر آنحضرتﷺ نے دوسیوں کو خیبر شکن فوج کے میمنہ پر مقرر کیا، اس کے بعدسے پھر فتح مکہ تک آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۷۶،واستیعاب:۱/۲۱۸) سریۂ ذوالکفین اگرچہ دوس کے اکثر خانوادے مشرف باسلام ہوچکے تھے،تاہم مدتوں کے عقائد دفعۃً نہیں بدل سکتے تھے؛چنانچہ ذوالکفین نامی بت کا صنم کدہ باقی تھا اوربہت سے لوگ اس کی پوجا کرتے تھے؛لیکن طفیل کا موحد دل دوس کے دامن پر شرک کا ایک دھبہ بھی نہیں گوارا کرسکتا تھا، اس لیے آنحضرتﷺ سےدرخواست کی کہ مجھ کو ذوالکفین گرانے کی اجازت مرحمت ہو،آپ نے اجازت دیدی(ابن سعد،جلد۴،ق۱،صفحہ:۱۷۶)چنانچہ وہ کچھ دوسیوں کو لے کر گئے اور بتکدہ کو ڈھاکر بت میں آگ لگادی اوریہ شعر پڑھتے جاتے تھے: یاذالکفین لست من عبادکا میلادنا اقدم من میلادکا انی حششت النارفی فوادکا اے دوہاتھوں والے بت اب میں تیرے پرستاروں میں نہیں ہوں،میری پیدائش تیری پیدائش سے قدیم ہے، میں نے تیرے قلب میں آگ بھردی غزوۂ طائف یہاں سے لوٹتے وقت دوس کے اورچارسو آدمی مع سازوسامان کے ساتھ ہوگئے اور سب طائف میں آنحضرتﷺ کے ساتھ غزوۂ طائف میں شریک ہوئے، ان کا دستہ الگ تھا، آنحضرتﷺ نے پوچھا تمہارا علم کون اٹھائے گا، طفیلؓ نے عرض کیا نعمان بن باریہ مدتوں سے اس قبیلہ کے علمبردار ہیں،اس موقع پر بھی وہی اٹھائیں گے ،آنحضرتﷺ نے بھی یہ رائے پسند فرمائی۔ (ابن سعد حصہ مغازی:۱۱۳) طائف کی واپسی کے بعد وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں مستقل طور سے رہنے لگے اور تاوفات نبوی آپ کے قدموں سے جدا نہ ہوئے۔ فتنہ ارتداد میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا اور طلیحہ ونجد کے فتنوں سے فراغت کے بعد یمامہ میں شریک ہوئے،(مستدرک:۳/۲۶۰) اور ۱۱ھ میں اسی میں جام شہادت پیا۔ (استیعاب:۱/۲۱۹) فضل وکمال حضرت طفیلؓ مذہبی علوم میں کوئی مرتبہ حاصل نہ کرسکے،اس کا سبب یہ تھا کہ وہ ابتدا میں مدینہ میں رہنے کے بجائے اپنے وطن میں اسلام کی دعوت کا فرض ادا کرتے رہے؛ لیکن فضل وکمال کا یہ باب بھی کچھ کم نہیں کہ آپ کی کوششوں سے قبیلہ دوس مشرف باسلام ہوا، البتہ شاعر کی حیثیت سے ممتازر ھے۔