انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منکو خان کی وفات سات برس سلطنت کرکے ۶۵۵ھ میں فوت ہوا،اپنی سلطنت کے آکری سال میں منکو خان نے چین کے بادشاہ کو لکھا کہ تم اطاعت فرما نبرداری اختیار کرو،اس نے انکار کیا منکو خان نے چین کے ملک پر چڑھائی کی۔ اسی سفر میں بمقام چنکد منکو خان کا انتقال ہوا اُس کا بھائی قویلہ خان جو اس سفر میں بھائی کے ساتھ تھا،امرائے لشکر کے اتفاق رائے سے بماقام چنکدر تخت نشین ہوگیا گیا، لیکن اس خبر کے پہنچنے پر ارتق بوقانے قراقورم میں تاج شاہی اپنے سرپر رکھا قویلا خان جب قراقورم کی طرف متوجہ ہوا تو ادھر قرا قورم سے ارتق بوقا بھی فوج لے کر مقابلہ کے لئے نکلا،مقام کلوران میں دونوں بھائیوں کا مقابلہ ہوا، سخت لڑائی کے بعد ارتق بوقا کو شکستِ فاش حاصل ہئی مگر وہ میدانِ جنگ سے اپنی جان بچا کر لے گیا اور قویلہ خان نے قراقورم میں داخل ہوا تخت سلطنت پر جلوس کیا،ارتق بوقا نے ختاکی طرف جاکر فوج جمع کی ااورپھر بھائی کے مقابلے پر آیا،اس مرتبہ بھی شکست کھائی اورکاشغرکی طرف بھاگا،وہاں سے پھر اپنی حالت درست کرکے آیا، غرض چار سال تک ارتق بوقا اور قویلہ خان کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا،آخر ارتق بوقا گرفتار ہوکر قید ہوا اوراسی قیدم میں مرگیا۔ قویلہ خان نے۶۵۵ ھ میں تخت نشین ہوتے ہی ہلاکوخاں کے پا س حکم بھیج دیا تھا کہ دریائے جیحون سے ملک شام تک کے علاقے کی حفاظت ونگرانی تمہارے ذمہ ہے اور تم کو اس علاقے کی حکومت اور دربار قراقورم کا رعب کم ہوگیا اورجہاں جہاں جو سردار مامور تھا وہ اپنے آپ کو خو مختار اورآزاد بادشاہ سمجھنے لگا، یہ وہ زمانہ تھا کہ خاندانِ چنگیزی کے کئی شہزادے اورسربر آوردہ لوگ علانیہ اسلام قبول کرچکے تھے اوراسلام نے مغلوں کے اندر پھیلنا شروع کردیا تھا۔ قویلا خان نے ارتق بوقا کے فتنہ سے فارغ ہوکر ملک چین کی طرف فوج کشی کی اورچند سال کی لڑائیوں کے بعد تمام ملکِ چین کو فتح کرکے بجائے قراقورم کے ملک چین میں ایک نیا شہر خان بالیغ کے نام سے آباد کرکے اپنا دارالسلطنت بنایا اورسیام وبرہماوجاپان وغیرہ ملکوں سے خراج وصول کیا ۔ قویلاخان نے مختلف مذاہب اورمختلف قوموں کے چار روز پر مقرر کئے جن میں ایک مسلمان یعنی امیر احمد بناکتی بھی تھا،قویلاخان کی حکومت اورشہنشاہی کو تمام مغل سلاطین تسلیم کرتے اور اُس کے احکام کو مانتے تھے،مغلوں کی سلطنت چین سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی،اسلامی سلطنت بہت ہی ضعیف حالت میں تھی،لہذا عیسائی ،مجوسی اوریہودی مغلوں کے دربار میں رسوخ حاصل کرکے اسلام اور مسلمانوں سے ان کو متنفر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے؛چنانچہ ایک مرتبہ اباخان ابن ہلاکو خان نے خراسان سے قویلاخاں کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ مجھ کو یہودیوں اورمجوسیوں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید میں لکھا ہے کہ مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، آپ کا اس تعلیم کے متعلق کیا خیال ہے،یعنی اگر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہم کو جہاں پائیں قتل کریں تو اس حالت میں مسلمانوں کی قوم کا دنیا میں باقی رہنا اندیشہ سے خالی نہیں، قویلاخان نے اس عرض داشت کو پڑھ کر بعض مسلمان علما کو بلایا اورپوچھا کہ کیا قرآن مجید میں ایسا حکم موجود ہے؟ انہوں نے کہا’’ہاں یہ حکم موجود ہے؟’’ قویلا خان نے کہا کہ پھر تم ہم کو قتل کیو ں نہیں کرتے،انہوں نے کہا کہ ہم قوت نہیں رکھتے، جب قوت وقدرت پائیں گے،تم کو قتل کریں گے،قویلا خان نے کہا کہ اب چونکہ ہم کدرت رکھتے ہیں، لہذا ہم کو چاہئے کہ ہم تمہیں قتل کریں،یہ کہہ کر اُن علماء کو قتل کرادیا اورحکم جاری کیا کہ مسلمانوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، یہ سُن کر مولانا بدرالدین بیہقی اورمولانا حمید الدین سمرقندی قویلاخان کے دربار میں پہنچے اورکہا کہ آپ نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم کیوں جاری کیا،قویلا خاں نے کہا کہ‘‘اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ’’ کا کیا مطلب ہے؟ ان دونوں عالموں نے کہا کہ عرب کے بت پرست جو مسلمانوں کے قتل پر ہمہ تن آمادہ تھے اُن کی نسبت خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اورصحابۂ کرام کو حکم دیا تھا کہ اپنی حفاظت کے لئے اُن کو قتل کرو،لیکن یہ حکم تمہارے لئے تو نہیں ہے،کیونکہ تم تو خدائے تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہو اوراپنے فرامین کی پیشانیوں پر خدا کا نام ہمیشہ لکھتے ہو،یہ سنتے ہی قویلاخان بے حد مسرور ہوا اوراُسی وقت حکم صادر کیا کہ میرا پہلا حکم جو مسلمانوں کے قتل کی نسبت جاری ہوا ہے منسوخ سمجھا جائے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغلوں کی حالت مذہب کے مقابلے میں کس قدر نازک اورخطرناک تھی جوں جوں ان میں تہذیب اوردماغی نشوونما نے ترقی کی وہ مذہب اسلام سے واقف ہوتے اوراُس کو قبول کرتے گئے،مغلوں کو اسلام سے روکنے کے لئے تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں نے خوب کوششیں کیں،مگر چونکہ مغل خالی الذہن تھے اوراُن کی نگاہ میں ہر ایک مذہب کا مرتبہ مساوی تھا،لہذا تحقیق کے معاملے میں وہ زیادہ دھوکا نہیں کھاسکتے تھے،اسی لئے اُن کے سمجھ دار اورشریف طبقہ نے اسلام ہی کو قابلِ قبول مذہب پایا۔