انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۹۵۔ابوقلابہ جرمیؒ نام ونسب عبداللہ نام،ابو قلابہ کنیت، کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں،نسب نامہ یہ ہے عبداللہ بن زید بن عمر بن نابل بن مالک بن عبید بن علقمہ بن سعد جرمی بصری۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے بصرہ کے ممتاز تابعین میں تھے،حافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی دونوں ان کو علمائے اعلام میں لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفا:۱/۸۲،وتہذیب التہذیب:۵/۲۲۴)ابن عماد حنبلی امام اورعلم وعمل میں راس العلماء لکھتے ہیں۔ (شذرات الذہب :۱/۱۲۶) حدیث حدیث کا ان کو خاص ذوق تھا اور اس کی بڑی جستجو رہتی تھی،ایک ایک حدیث کے لیے کئی کئی دن تک ایک ایک مقام پر ٹھہرے رہتے تھے،ایک مرتبہ ایک حدیث کی تحقیق کے لیے تین دن تک مدینہ میں مقیم رہے،اس کے علاوہ ان کا وہاں اورکوئی کام نہ تھا۔(ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۱۳۴)اس ذوق وجستجو نے ان کو ممتاز حافظِ حدیث بنادیا تھا،علامہ ابن سعد ان کو ثقہ اورکثیر الحدیث لکھتے ہیں۔ (ایضاً:۱۳۳) صحابہ میں ثابت بن ضحاکؓ،سمرہ بن جندبؓ،عمرو بن سلمہؓ جرمی مالک بن حویرثؓ،انس بن مالک انصاریؓ،انس بن مالک کعبیؓ،ابن عباسؓ،ابن عمرؓ،معاویہؓ،ابوہریرؓ، نعمان بن بشیرؓ ابو ثعلبہ خشنیؓ وغیرہ سے ان کی روایات ملتی ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۲۵) تلامذہ ان سے روایت کرنے والوں میں ایوب،خالد الخداد،ابورجاء یحییٰ بن ابی کثیر اشعث ابن عبدالرحمن جرمی وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ (ایضاً) اعتدال فی الروایت ان سے سماع حدیث کے بڑے بڑے علماء شائق رہتے تھے، مگر یہ احتیاط کی وجہ سے بہت کم بیان کرتے تھے،ابو خالد کا بیان ہے کہ ہم لوگ حدیثیں سننے کے لیے ابو قلابہ کے پاس جاتے تھے، وہ تین حدیثیں سنانے کے بعد کہتے بس اب سناچکا عمر بن عبدالعزیز جیسے بزرگ ان سے فرمائش کرکے حدیث سنتے تھےعمربن میمون کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابو قلابہ عمر بن عبدالعزیز کے پاس گئے،انہوں نے حدیثیں سنانے کی فرمائش کی،انہوں نے جواب دیا امیر المومنین میں زیادہ حدیثیں بیان کرنے اوربالکل سکوت اختیار کرنے دونوں کو بُرا سمجھتا ہوں۔ (ابن سعد،ج ۷،ق اول،ص۱۳۴) فقہ فقہ میں ان کا پایہ بہت بلند تھا،ایوب کا بیان ہے کہ خدا کی قسم ابو قلابہ فقہائے ذوی الالباب میں تھے۔ (ایضاً:۱۳۳) قضاء کا ملکہ اس فقہی کمال کی وجہ سے انہیں قضاء کا خاص ملکہ تھا،ایوب کا بیان ہے کہ میں نے بصرہ میں ابو قلابہ سے زیادہ فیصلہ کرنے کی استعداد رکھنے والا نہیں دیکھا،مسلم بن یسار کہتے تھے کہ اگر ابو قلابہ عجم میں ہوتے تو قاضی القضاۃ ہوتے۔ (ایضاً) عہدہ قضاء سے انکار لیکن اس استعداد کے باوجود عہدۂ قضاء سے بہت گھبراتے تھے،ایوب کہتے تھے کہ میں نے ان کو قضا کا جتنا بڑا عالم پایا اتنا ہی سختی سے اس سے بھاگنے والا اوراس کو برا سمجھنے والا پایا،وہ عہدۂ قضاء کے لیے بلائے گئے، ان کو اس سے اتنی نفرت تھی کہ اس کے خوف سے شام بھاگ گئے، ایک عرصہ کے بعد جب واپس آئے تو میں نے ان سے کہا اگر آپ قضاء کا عہدہ قبول کرلیے ہوتے اورلوگوں میں انصاف کرتے تو اس میں آپ کو اجر ملتا،جواب دیا ایوب مانا ایک شخص تیراک ہے،لیکن اگر وہ سمندر میں پڑجائے،توبتاؤ کتنا تیر سکتا ہے۔ (ایضاً) کتب خانہ اگرچہ اس زمانہ میں کتب خانوں کا رواج کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا:لیکن ابو قلابہ کے ذوقِ علمی نے کتابوں کا متعدبہ ذخیرہ جمع کرلیا تھا،مرض الموت میں اس کے متعلق وصیت کرتے گئے تھے کہ ایوب سختیانی کو دے دی جائیں، اگر وہ زندہ نہ ہوں تو جلادی جائیں۔ (ابن سعد،۷،ق اول،ص۱۳۵) بدعات سے نفرت عقائد اعمال میں سلف صالحین کا نمونہ اور اس بارہ میں اتنے سخت تھے کہ مبتدعین کے مقابلہ میں تلوار تک اٹھانا جائز سمجھتے تھے،فرماتے تھے کہ جس شخص نے کوئی نئی بات پیدا کی،اس نے تلوار کو جائز کردیا،ایسے لوگوں سے ملنا اوربحث ومباحثہ کرنا بھی پسند نہ تھا؛چنانچہ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ ہوا پرستوں (متبدعین) کے پاس نہ بیٹھو اورنہ ان سے مجادلہ کرو ،مجھے ڈر ہے کہ وہ تم کو اپنی گمراہی میں مبتلا اورجس شے کو تم اچھی طرح جانتے ہو اس میں مشکوک نہ کردیں،ان کا علاج وہ صرف تلوار سمجھتے تھے،ایوب کا بیان ہے کہ ابو قلابہ کہتے تھے کہ ہوس پرست (مبتدعین)گمراہ ہیں،میرے نزدیک ان کی جگہ یقینی دوزخ ہے،میں نے ان کا پورا تجربہ کیا ہے،ان میں سے جو نئی رائے یا نیا قول ظاہر کرتا ہے،وہ بغیر تلوار کے اس سے باز نہیں آتا،نفاق کی بہت سی قسمیں ہیں (ان میں سے ایک یہ بھی ہے ) پھر یہ آیتیں: ۱۔مِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ (التوبۃ:۷۵) انہی میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا۔ ۲۔وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ (التوبہ:۶۱) اورانہی میں وہ لوگ ہیں جو نبی کو اذیت دیتے تھے۔ ۳۔وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ اورانہی میں وہ ہیں جو صدقات کی تقسیم میں تم پر الزام لگاتے ہیں۔ تلاوت کرکے فرمایااگرچہ ان کے اقوال مختلف ہوتے ہیں،لیکن شک اورتکذیب پر سب کا اتفاق ہوتا ہے اوریہ مختلف اقوال رکھنے والے سب کے سب تلوار کے مستحق ہیں اوران کا مستقر دوزخ ہے۔ مبتدعین کو اپنے پاس آنے تک نہ دیتے تھے،جب ان کے یہاں کوئی شخص آتا تو بغیر اطمینان کے آنے کی اجازت نہ دیتے تھے،غیلان بن جریر کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ ان کے ساتھ مکہ جانا چاہتا تھا اس لیے ان کے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی، انہوں نے کہا اگر حروری نہیں ہو تو آسکتے ہو۔ (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۱۳۴) ایک گمراہ کن بدعت آج کل مذہب کے رنگ میں یہ نیا گمراہ کن مذہب پھیل رہا ہے،کہ لوگ حدیث کے مقابلہ میں کتاب اللہ کا مطالبہ کرتے ہیں،ابو قلابہ ایسے مذہب پرستوں کو گمراہ سمجھتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ جب تم کسی سے کوئی سنت بیان کرو اوروہ اس کے جواب میں یہ کہے کہ اس کو چھوڑ دو اورکتاب اللہ کو پیش کرو تو اس کو گمراہ سمجھو۔ (ایضاً) عرفان نفس اپنی حقیقت پہچاننے والے کو نجات کا اورخود فراموش کو ہلاکت کا مستوجب سمجھتے تھے،فرماتے تھے کہ جس شخص کو دوسرے لوگ خود اس سے زیادہ جانتے ہوں وہ ہلاکت کا اورجو شخص خود اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ پہچانتا ہو،وہ نجات پانے کا مستحق ہے(ایضاً:۱۳۳) حقیقی دولت مندی اورحقیقی علم خدا کے عطیہ پر قناعت کو حقیقی دولت مندی اوردوسروں کے علم سے استفادہ کرنے والے کو حقیقی عالم سمجھتے تھے،کسی نے آپ سے سوال کیا کہ سب سے غنی کون ہے، فرمایا جو اس شے پر راضی ہے جو خدانے اسے دی ہے،پھر سائل نے پوچھا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے، جواب دیا جو دوسروں کے علم سے اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ (ایضاً) ابتلاء وآزمائش پر صبر صبروشکر اورتسلیم ورضا میں آپ کا پایہ نہایت بلند تھا،بڑی سے بڑی مصیبت اورآزمائش کے موقع پر صبرکا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا،عبدالمؤمن بن خالد کا بیان ہے کہ آخر عمر میں ابو قلابہ کے ہاتھ پاؤں اورآنکھیں سب اعضا بیکار ہوگئے تھے، ان مصائب کے باوجود ان کی زبان پر حمد وشکر کے علاوہ کوئی کلمہ نہ تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۲) ان کی ہستی دوسروں کے لیے موجبِ خیروبرکت تھی حضرت عمر بن عبدالعزیز شامیوں سے فرماتے تھے کہ جب تک تم میں یہ (ابو قلابہ) موجود ہیں اس وقت تک تم لوگ بھلائی میں رہو گے۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۲۵) وفات مرض الموت میں عمر بن عبدالعزیز ان کی عیادت کو آئے اورانہیں ثبات واستقلال کی تلقین کی،اسی بیماری میں وفات پائی،یہ ۱۰۴ یا ۱۰۵ ھ تھا۔ (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۱۳۵)