انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زید بن خطابؓ نام ونسب زید نام،ابوعبدالرحمن کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے،زیدبن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب ابن فہربن مالک بن نضر بن کنانہ قرشی عدوی۔ ماں کا نام اسماء تھا،نانہالی سلسلہ نسب یہ ہے،اسماء بنت وہب بن حبیب اسدی،آپ حضرت عمرؓ کے سوتیلے بھائی اورعمر میں ان سے بڑے تھے۔ اسلام وہجرت گوابتدامیں خطابؓ کا گھر حضرت عمرؓ کی سختیوں کے باعث اسلام کی دشمنی سے تیرۂ وتارہورہا تھا؛لیکن حضرت زیدؓ حضرت عمرؓ سے بہت پہلے مشرف باسلام ہوچکے تھے اورمہاجرین کے پہلے قافلہ کے ساتھ ہجرت کی تھی اورآنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعدا ن میں اور معن بن عدی عجلانی میں مواخاۃ کرادی۔ (استیعاب:۱/۱۱۹۰) غزوات مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے بدر میں شرکت کا شرف حاصل کیا، پھر احد میں شریک ہوئے غایت شجاعت نے زرہ سے بے نیاز کردیا تھا، میدان جنگ میں ننگے بدن گئے، حضرت عمرؓ کو ان سے بڑی محبت تھی، انہوں نے قسم دلا کر اپنی زرہ پہنادی؛ لیکن طالب شہادت کے لیے زرہ عار تھی، تھوڑی دیر پہن کر اتاردی اب عریاں سینہ دشمنوں کا ہدف تھا، حضرت عمرؓ نے سبب پوچھا،فرمایا تمہاری طرح مجھ کو بھی جام شہادت پینے کی تمنا ہے۔ (ابن سعدجز۳،ق۱،صفحہ:۲۷۵) احد کے بعد صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرتﷺ نے موت پر بیعت لینا شروع کی توفداکارانہ جان بازوں کی فہرست میں نام لکھایا،(استیعاب:۱/۱۹۰) اس کے علاوہ خندق،حنین اوراوطاس وغیرہ میں بھی برابر شریک رہے۔ حجۃ الوداع میں بھی آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے،اسی موقع پر آپ نے ان سے یہ حدیث بیان فرمائی تھی،کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو،وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ،اوراگر وہ کسی جرم کے مرتکب ہوں اور تم نہ معاف کرسکو توفروخت کرڈالو۔ (ابن سعد،جزو۳،ق۱:۲۷۴) فتنہ ردہ اور شہادت عہد صدیقی میں فتنہ ارتداد کے استیصال کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلے اور متعدد سرکش بے دینوں کو واصل جہنم کیا۔ مشہور مرتد نہاد بن عنفو جس کے متعلق اس کے زمانہ اسلام میں آنحضرتﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی،ان ہی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ (استیعاب:۱/۱۹۰) جنگ یمامہ میں اسلامی فوج کی علمبرداری کا منصب سپرد ہوا،بنو حنیفہ نے ایک مرتبہ اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے،کچھ لوگ میدان جنگ سے بھاگ نکلے اس سے زید کا جوش اوربڑھ گیا، انہوں نے قسم کھالی کہ میں اس وقت تک نہ بولوں گا جب تک دشمنوں کا منہ نہ پھیردوں یا خود لڑتے لڑتے شہید ہوجاؤں اور مسلمانوں کو للکارا کہ آنکھیں بند کرکے داڑھیں داب کر دشمنوں کے قلب میں گھس جاؤ،(ابن اثیر:۲/۲۷۷)ایک طرف لوگوں کو ابھارتے تھے ،دوسری طرف زبان بارگاہ ایزدی میں معذرت میں مصروف تھی، کہ "خدایا میں اپنے ساتھیوں کی پسپائی پر تیری بارگاہ میں معذرت خواہ ہوں"،اسی حالت میں علم ہلایا اور دشمنوں کی صفیں چیرتے ہوئے گھستے چلے گئے اورلڑتے لڑتے شہید ہوگئے، (ابن اثیر:۲/۲۷۷) آپ کی شہادت کے بعد حضرت سالمؓ نے علم سنبھالا، لوگوں نے کہا سالم! تمہاری علمبرداری سے شکست کا خطرہ ہے کہا اگر میرے سبب سے شکست ہو تو مجھ سے بدتر حامل قرآن کون ہوگا۔ (ابن سعد،جز۳،ق۱:۴،۲ ومستدرک حاکم:۳/۲۲۷) حضرت عمرؓ کا غم حضرت عمرؓ ان کو بہت محبوب رکھتے تھے،ان کی شہادت سے بہت غم زدہ ہوئے اورجب کبھی کوئی مصیبت پیش آتی تو فرماتے کہ سب سے بڑاداغ زیدؓ کاتھا، اس کو اٹھایا اور صبر کیا،(مستدرک حاکم:۳/۲۲۷)اکثر فرمایا کرتے کہ بادصبا سے زید کی خوشبو آتی ہے اس سے ان کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ (اسد الغابہ:۲/۲۲۷) اسی زمانہ میں مشہور شاعر متمم بن نویرہ کا بھائی ایک معرکہ میں خالدبن ولیدؓ کے ہاتھ سے ماراگیا،متمم اپنے بھائی کا عاشق وشیفتہ تھا، اس حادثہ نے اس کو ایسا وارفتہ کردیا کہ دیکھنے والوں کو ترس آتا تھا، اسی عالم میں اپنے بھائی کا ایسارقت انگیز مرثیہ لکھا کہ سننے والے بیقرار ہوجاتے ،اتفاق سے حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوگئی، آپ نے فرمایا تم کو اپنے بھائی کا کس قدر قلق ہے ،کہا ایک مرض کی وجہ سے ایک آنکھ کے آنسو خشک ہوگئے تھے؛لیکن بھائی کے غم میں جب سے اشکبار ہوئی ہے، آج تک نہ رکی، حضرت عمرؓ نے فرمایا، یہ رنج والم کی آخری حد ہے ،کوئی جانے والے کا اتنا غم نہیں کرتا، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ زیدؓ کی مغفرت کرے، اگر میں شاعر ہوتا تو میں بھی ان کا مرثیہ کہتا، متمم نے کہا، امیر المومنین، اگر آپ کے بھائی کی طرح میرا بھائی شہید ہوا ہوتا تو میں کبھی اشکباری نہ کرتا، حضرت عمرؓ کو ایک گونہ تسلی ہوگئی،(ابن سعد،جز۳،ق۱:۲۷۵) فرمایا کہ اس سے بہتر تعزیت کسی نے نہیں کی، (استیعاب:۱/۱۹۱)؛لیکن بھائی کے ساتھ شدید تعلق قلب کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا،جس وقت حضرت زیدؓ کی شہادت کی دلخراش خبر ملی تھی، اس وقت بجائے نالہ وشیون کرنے کے فرمایا کہ میرے بھائی دو نیکیوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ،مجھ سے پہلے اسلام لائے اورمجھ سے پہلے جام شہادت پیا۔ (استیعاب:۱/۱۹۱) حلیہ قد بلند وبالا،رنگ گندم گوں ازواج واولاد آپ کے دو بیویاں تھیں،لبابہ اورجمیلہ،لبابہ سے عبدالرحمن تھے اور جمیلہ سے اسماء تھیں۔ (ابن سعد،جز۳،ق۱:۲۷۵) فضل وکمال آپ سے متعدد اشخاص نے حدیث روایت کی ہے۔