انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ساتویں شہادت (۱)"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔ (النساء:۵۹) ترجمہ: اے ایمان والو: حکم مانو اللہ کا اورحکم مانورسول کا اوران کا جو تم میں سے اولی الامر ہوں، پھر اگر کسی بات میں جھگڑپڑو تو اس کو لوٹاؤ اللہ کی طرف اوررسول برحق کی طرف،اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔ یہاں تین اطاعتیں فرض بتلائی گئیں (۱)اللہ کی اطاعت (۲)رسول پاک کی اطاعت (۳)اولی الامر کی اطاعت؛ مگر لفظ اطیعوا صرف دوبار لائے،الرسول کے لیے لفظ اطیعوا مستقل طورپر وارد ہوا، مگراولی الامر کی اطاعت اسی اطیعوا کے ماتحت رکھی گئی، جو الرسول پر داخل تھا، اس کا حاصل یہ ہے کہ اولی الامر کی اطاعت میں تو شرط ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف نہ ہو، ان کی اطاعت کے تابع ہو؛ لیکن رسول کی اطاعت میں یہ شرط نہیں لگائی گئی؛ کیونکہ اس کے ہر بات اللہ کے حکم سے ہوگی؛ اس کے خلاف نہیں ہوسکتی، رسول کی ہرہر ادا اور ہرہر بات پر خدا کی حفاظت کاپہرہ ہوتا ہے؛ سو پیغمبر کی اطاعت اورایک حاکم کی اطاعت میں جوہری فرق ہے اوریہ بات آیات گذشتہ کے ضمن میں بھی اجمالا ذکر کر دی گئی ہے،اطاعت رسول کی اس حیثیت کو ہم ذرا اورواضح کرتے ہیں: (۱)حاکم کی اطاعت آخرت کی رحمت کو لازم نہیں،پیغمبر کی اطاعت سے آخرت کی رحمت ملتی ہے۔ (النور:۶۲) (۲)حاکم کی اطاعت گناہوں کی بخشش کا سبب نہیں، پیغمبر کی اطاعت سے گناہ بھی بخشے جاتے ہیں۔ (نور:۶۳) (۳)حاکم کی اطاعت نہ کرنے سے عذاب نہیں ہوتا، پیغمبر کی اطاعت نہ کرنے سے عذاب اترنے کا اندیشہ ہے۔ (۴)حاکم کی اطاعت ایک مسئلہ انتظامی ہے،مگر پیغمبر کی اطاعت کا اقرار تقاضائے ایمانی ہے۔ (الاحزاب:) (۵)حاکم کی اطاعت صرف انتظامی امور تک محدود ہے،مگر پیغمبر کی اطاعت زندگی کے ہر دائرے میں لازم ہے۔ (۶)حاکم کی اطاعت اس کی موت کے بعد لازم نہیں،پیغمبر کی اطاعت اس کی موت کے بعد بھی لازم رہتی ہے۔ (۷)حاکم کی اطاعت خدا کی اطاعت شمار نہیں ہوتی، مگر پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت کہلاتی ہے۔ (۸)حاکم کی اطاعت ضروری نہیں کہ راہ صواب اورصحیح راہ ہو؛مگر پیغمبر کی ہربات لازما درست اور راہ صواب ہے۔ (۹)حاکم کے ہر فیصلے کے خلاف اپیل ہوسکتی ہے؛ مگر پیغمبر کے فیصلے کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہوسکتی۔ (نساء:۶۵) (۱۰)حاکم سے اس کے فیصلے کی دلیل پوچھی جاسکتی ہے،مگر پیغمبر سے اس کے فیصلے کی دلیل مانگی نہیں جاسکتی پیغمبر کا فیصلہ خود ایک دلیل ہے، ہاں آپ سے کسی بات کی تشریح کی درخواست کی جاسکتی ہے۔ یہ طلب علم ہے، پیغمبر کی بات سے ٹکراؤ نہیں، نہ اس کے حق ہونے میں کوئی تردد ہے۔