انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوات ودیگر حالات غزوات مدینہ پہنچ کرمسلمانوں کی بے بسی اورمظلومیت کا دور ختم ہوچکاتھااورآزادی کے ساتھ دین متین کی نشرواشاعت کا وقت آگیا تھا ؛لیکن عرب کی جنگجو قوم مذہب کی حقانیت اور صداقت کوبھی تیروتفنگ اور نوک سناں سے وابستہ سمجھی جاتی تھی اس لئے اس نے ہمیشہ علمبرداراسلام کو اپنی جنگ جوئی سے منبروعظ وہدایت کو چھوڑ کر میدان رزم میں آنے کے لئے مجبور کیا؛چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سے فتح مکہ تک خونزیز جنگوں کا سلسلہ جاری رہا اور ان سب لڑائیوں میں صدیق اکبر ؓ ایک مشیرووزیرباتدبیر کی طرح ہمیشہ شرف ہمرکابی سے مشرف رہے۔ غزوۂ بدر غزوۂ بدر حق وباطل کا اول اور فیصلہ کن معرکہ تھا،خداکابرگزیدہ پیغمبرایک سایہ دار جگہ کے نیچے اپنی محدود جماعت کے ساتھ حق وصداقت کی حمایت میں سرگرم کارزار تھا اور وہی پیرمرد جس نے اپنے وعظ سے عثمان بن عفان ؓ ،ابو عبیدہ بن الجراح اور عبدالرحمن بن عوف ؓ جیسے الوالعزم اکابر صحابہ کو حلقہ بگوش اسلام بنالیا تھا نہایت جاں بازی کے ساتھ تیغ بکف اپنے ہادی کی حفاظت میں مصروف تھا، کفارومشرکین ہرطرف سے نرغہ کرتے آتے اور یہ ایک ایک کو شجاعت خداداد سے بھگادیتا تھا۔ (زرقانی ج اغزوۂ بدر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کی کثرت دیکھ کرمحزون ہوتےاورسربسجود ہوکر خدا سے دعافرماتے "اے خدا مجھ کو بے یارومددگار نہ چھوڑاوراپنا عہدپوراکر،اے خدا کیا تو چاہتا ہے کہ آج سے تیری پرستش نہ ہو،"اس عالم حزن ویاس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قدیم مونس باوفااور ہمدم غمگسار شمشیربرہنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں مصروف ہوتا اور تسلی اور دلدہی کے کلمات اس کی زبان پر جاری ہوتے۔ (ایضاًج ۲ : ۴۸۴) اس خوفناک جنگ میں بھی حضرت ابوبکر ؓ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گذاری سے غافل نہ ہوئے، ایک دفعہ ردائے مبارک شانۂ اقدس سے گرگئی، فوراً تڑپ کر آئے اور اٹھاکر شانہ پررکھ دی،پھر رجز پڑھتے ہوئے غنیم کی صف میں گھس گئے، درحقیقت یہی وہ وارفتگی جوش اور حب رسول کا جذبہ تھا جس نے قلت کو کثرت کے مقابلہ میں سربلند کیا۔ (فتح الباری ج ۷ :۲۲۵) اس جنگ میں مال غنیمت کے علاوہ تقریباً سترقیدی ہاتھ آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے متعلق کبارصحابہ ؓ سے مشورہ کیا حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ سب قتل کردئیے جائیں ؛لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ یہ سب اپنے ہی بھائی بندہیں اس لئے ان کے ساتھ رحم وتلطف کا برتاؤ کرنا چاہئے اور فدیہ لے کر ان کو آزاد کردینا چاہئے،رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی رائے پسند آئی۔ (مسلم باب امداد الملائکۃ وغزوۂ بدر) غزوۂ اُحد بدرکی شکست قریش مکہ کے دامن شجاعت پرایک نہایت بدنمادھبہ تھا،انہوں نے جوش انتقام میں نہایت عظیم الشان تیاریاں کیں ؛چنانچہ معرکہ احد اسی جوش کا نتیجہ تھا،اس جنگ میں مجاہدین اسلام باوجود قلت تعداد پہلے غالب آئے ؛لیکن اتفاقی طورپر پانسہ پلٹ گیا،بہت سے مسلمانوں کے پائے ثبات متزلزل ہوگئے، لیکن حضرت ابوبکرؓ آخروقت تک ثابت قدم رہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت مجروح ہوئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑپر لائے تو حضرت ابوبکر ؓ بھی ساتھ تھے، ابوسفیان نے پہاڑ کے قریب آکر پکارا کیا قوم میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں؟ کوئی جواب نہ ملاتو اس نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا نام لیا،(بخاری باب غزوۂ احد) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی کو رئیس امت سمجھتے تھے۔ اختتام جنگ کے بعد کفار مکہ واپس ہوئے تو ایک جماعت انکے تعاقب میں روانہ کی گئی حضرت ابوبکر ؓ بھی اس میں شامل تھے،(بخاری باب المغازی باب الذین الستجابوااللہ والرسول) غزوۂ احد کے بعد بنونضیر کی جلاوطنی،غزوۂ خندق اور جودوسرے غزوات پیش آئے ، حضرت ابوبکر ؓ ان سب میں برابر کے شریک تھے۔ غزوۂ مصطلق اورواقعۂ افک ۶ھ میں غزوۂ بنی مصطلق پیش آیا، حضرت ابوبکر ؓ اس معرکہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے، یہ مہم کامیابی کے ساتھ واپس آئی اورشب کے وقت مدینہ کے قریب تمام لشکرنےپڑاؤ ڈالا صبح کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ ؓ جو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں رفع حاجت کے لئے باہر تشریف لے گئیں ،واپس آئیں تو دیکھا کہ گلے کا ہار کہیں گر گیا،تلاش کرتی ہوئی پھر اس طرف چلیں ؛لیکن جب ڈھونڈکرپڑاؤ پر واپس پہنچیں تو لوگ روانہ ہوچکے تھے،اسی جگہ غمگین وملول بیٹھ گئیں،اتفاقاصفوان بن المعطل ؓ نے جو نہایت ضعیف اور بوڑھے آدمی تھے اور عموما کوچ کے بعد قیام گاہ کا جائزہ لے کر سب سے پیچھے روانہ ہوتے تھے،حضرت عائشہ ؓ کو دیکھ لیا اور اونٹ پر بٹھاکر مدینہ لائے۔ منافقین کی جماعت نے جو عموما اپنی مفسدہ پر دازی فتنہ انگیزی سے اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی تھی اس واقعہ کو نہایت مکروہ صورت میں مشتہر کیا،دوسری طرف حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور خود حضرت عائشہ ؓ کو بارگاہ نبوت میں جو غیر معمولی رسوخ، تقرب اور اعزاز حاصل تھا،اس لئے بعض مسلمانوں کو بھی آمادہ رشک کردیا تھا؛چنانچہ انہوں نے بھی اس افتراء میں منافقین کی تائید کی سب سے زیادہ افسوسناک امریہ تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ کا ایک پروردۂ نعمت اور عزیز مسطح بن اثاثہ جس کے وہ اب تک متکفل تھے اس سازش میں افتراپردازوں کا ہم آہنگ تھا۔ عزت وآبروانسان کو دنیا میں سب سے زیادہ عزیزہوتی ہے، اسی بناپر حضرت ابوبکر ؓ کے لئے نہایت روح فرساآزمائش تھی، لیکن خدائے پاک نے بہت جلد اس سے نجات دیدی اور وحی الہیٰ نے اس شرمناک بہتان کی اس طرح قلعی کھولی: اِنَّ الَّذِیْنَ جَاءُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْo لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْo بَلْ ہُوَخَیْرٌ لَّکُمْo لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِo وَالَّذِیْ تَوَلّٰى کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [٢٤:١١] جن لوگوں نے (حضرت عائشہ ؓ )پر تہمت لگائی وہ تمہاری ہی جماعت سے ہیں اسکو تم اپنے لئے شرنہ سمجھو ؛بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے ان میں ہر شریک گناہ کو بقدر شرکت سزا ملیگی اور ان میں سے جس نے بہت زیادتی کی ہے اس پر سخت عذاب ہوگا۔" حضرت ابوبکر ؓ اس برأت کے بعد مسطح بن اثاثہ کی کفالت سے دستبردار ہوگئے اور فرمایا خداکی قسم: اس فتنہ پردازی کے بعد اس کی کفالت نہیں کرسکتا، لیکن جب یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰى وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ oوَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاo اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْo وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ [ النور:٢٤:٢٢] "تم میں بڑے اور صاحب قدرت لوگ رشتہ داروں مساکین اور مہاجرین کو امدادنہ دینے کی قسم نہ کھائیں اور چاہئےکہ (انکے قصور) معاف کریں اور ان سے درگزرکریں کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو بخش دے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحمت والا ہے" توحضرت ابوبکرصدیق ؓ نے کہا"خداکی قسم!میں چاہتاہوں کہ خدامجھے بخش دے اور قسم کھائی کہ اب ہمیشہ اس کا کفیل رہوں گا۔ (یہ تمام تفصیل بخاری باب حدیث الافک سے ماخوذہے) واقعۂ حدیبیہ اسی سال یعنی ۶ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو صحابہ کے ساتھ زیارت کعبہ کا عزم فرمایاجب مکہ کے قریب پہنچے توخبرملی کہ قریش مزاحم ہوں گے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر صحابہ ؓ سے مشورہ طلب کیا،حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ قتل وخونریزی نہیں ؛بلکہ زیارت کعبہ کے قصد سے روانہ ہوئے ہیں اس لئے تشریف لے چلئے جو کوئی اس راہ میں سدِّراہ ہوگا ہم اس سے لڑیں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"بسم اللہ چلوغرض آگے بڑھ کر مقام حدیبیہ میں پڑاؤڈالاگیا اور طرفین سے مصالحت کی سلسلۂ جنبانی شروع ہوئی،اسی اثناء میں مشہور ہواکہ حضرت عثمان ؓ جو سفیر ہوکر گئے تھے شہید ہوگئے،یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جاں نثاروں سے جہادکی بیعت لی،یہی وہ بیعت ہے جو تاریخ اسلام میں "بیت رضوان" کے نام سے مشہور ہے۔ (بخاری باب غزوہ حدبیہ) قریش مکہ ان تیاریوں سے خوفزدہ ہوکر کچھ نرم پڑگئے اور مصالحت کےخیال سے عروہ بن مسعود کو سفیر بناکر بھیجا،اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "محمد!خدا کی قسم میں تمہارے ساتھ ایسے چہرے اور مخلوط آدمی دیکھتا ہوں کہ وقت پڑےگا تووہ تم سب کو چھوڑکر الگ ہوجائیں گے، اس جملہ نے جاں نثاران رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نشترکا کام کیا، حضرت ابوبکر ؓ جیسے حلیم الطبع بزرگ نے برہم ہوکر کہا کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑکربھاگ جائیں گے،عروہ نے انجان بن کر پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا ابوبکر ؓ، اس نے مخاطب ہوکر کہا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں تمہارازیربار احسان نہ ہوتا تو تمہیں نہایت سخت جواب دیتا۔ (بخاری کتاب الشروط فی الجہادوالمصالحہ مع اہل الحرب) حدیبیہ میں جو معاہد ہ طے پایا وہ بظاہر کفار کے حق میں زیادہ مفید تھا،اس بناپر حضرت عمرؓ کو نہایت اضطراب ہوا اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے کہا کہ کفار سے اس قدر دب کر کیوں صلح کی جاتی ہے،حضرت ابوبکر ؓ محرم اسرارنبوت تھے،فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خداکے رسول ہیں،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نافرمانی نہیں کرسکتے اور وہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معین وناصر ہے۔ (ایضاً) اس معاہدہ کے باعث قریش مکہ سے کچھ اطمینان ہوا تو ۷ھ میں خیبر پر فوج کشی ہوئی پہلے حضرت ابوبکر صدیق سپہ سالار تھے؛لیکن درحقیقت یہ کارنامہ حضرت علی ؓ کے لئے مقدر ہوچکا تھا؛ چنانچہ خیبر ان ہی کے ہاتھ مفتوح ہوا(بخاری باب مناقب علی بن ابی طالب)اور حضرت ابوبکر ؓ اسی سال ماہ شعبان میں بنی کلاب کی سرکوبی کے لئے مامور ہوئے،(زرقانی ج ۲ : ۳۸۷)وہاں سے کامیابی کے ساتھ واپس آئے تو بنو فزارہ کی تنبیہ کے لئے ایک جماعت کے ساتھ روانہ کئے گئے اور بہت سے قیدی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس آئے۔ (مسلم باب التفصیل وفاء المسلمین بالاساری) قریش مکہ کی عہد شکنی کے باعث ۸ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار کی جماعت سے مکہ کا قصد فرمایا اور فاتحانہ جاہ وجلال سے مکہ میں داخل ہوئے ،حضرت ابوبکر ؓ بھی ہمراہ تھے،مکہ پہنچ کر اپنے والد ابوقحافہ عثمان بن عامر کو دربار نبوت میں پیش کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرکر نورایمان سے مشرف فرمایا۔ (اصابۃ تذکرہ ابوقحافہ عثمان بن عامر) مکہ سے واپسی کے وقت بنوہوازن سے جنگ ہوئی جو عموما غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس میں بھی ثابت قدم اصحاب کی صف میں شامل تھے، یہاں سے بڑھ کر طائف کا محاصرہ ہوا،حضرت ابوبکر ؓ کے فرزند حضرت عبداللہ اسی محاصرہ میں عبداللہ بن محجن ثقفی کے تیرسے زخمی ہوئے اور آخرکار یہی زخم حضرت ابوبکر ؓ کے اوائل خلافت میں ان کی شہادت کا باعث ہوا۔ (اسد الغابہ تذکرہ عبداللہ بن ابی بکر الصدیق ؓ) ۹ھ میں افواہ پھیلی کہ قیصرروم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے چونکہ مسلسل جنگوں کے باعث یہ نہایت عسرت وتنگ حالی کا زمانہ تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجنگی تیاریوں کے لئے صحابہ کرام ؓ کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی،تمام صحابہ ؓ نے حسب حیثیت اس میں شرکت کی ،حضرت عثمان ؓ دولتمند تھے اس لئے بہت کچھ دیا؛لیکن اس موقع پر بھی حضرت ابوبکر ؓ کا امتیاز قائم رہا،گھر کا سارا اثاثہ لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈالدیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم نے اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض کیا ان کے لئے اللہ اور اسکا رسول ہے، (ابوداؤدکتاب الزکوٰۃ : ۱۲۹ مطبوعہ مصر)غرض اس سرمایہ سے ایک عظیم الشان فوج تیار ہوگئی اور حدودشام کی طرف بڑھی ؛لیکن تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی اس لئے سب لوگ واپس آگئے۔ (طبقات ابن سعد حصہ معازی) امارت حج اسی سال یعنی ۹ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓ کو امارت حج کے منصب پر مامور فرمایا اور ہدایت کی کہ منی کے عظیم الشان اجتماع میں اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص خانہ کعبہ کا طواف کرے، (بخاری باب حج ابی بکر ؓ بالناس فی ستنہ تسع) چونکہ سورۂ برأت اسی زمانہ میں نازل ہوئی تھی اور حضرت علی ؓ حج کے موقع پر اس کو سنانے کے لئے بھیجے گئے تھے اس لئے بعضوں کو یہ شک پیدا ہوگیا ہے کہ امارت حج کی خدمت بھی حضرت ابوبکر ؓ سے لے کر حضرت علی ؓ ہی کو تفویض کی گئی تھی؛لیکن یہ شدید غلطی ہے کیونکہ یہ دومختلف خدمتیں تھیں؛چنانچہ خود حضرت علی ؓ کی ایک روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اس شرف کے تنہا مالک تھے۔ (فتح الباری ج ۸ : ۴۰)