انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام مالک ؒ کی شہادت حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ آسمان کے نیچے قرآن کریم کے بعد سب کتابوں سے زیادہ صحیح اوراصح الکتب بعد کتاب اللہ حضرت امام مالکؒ کی کتاب موطا ہے، ہم اس سے اخبار الحدیث کا آغاز کرتے ہیں حضرت امام مالکؒ نے اس موضوع پر ایک مستقل باب باندھا ہے اور بتلایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ واقع ہونے والی جس بات کی بھی خبر دی وہ بات اسی طرح ظہور میں آئی، اس سے امام مالکؒ کا موقف اوربھی نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ "باب مااکرمہ اللہ تعالی باخبار المغیبات فکان کما اخبر"۔ یہ باب اس بارے میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غیبی خبروں سےعزت بخشی اور واقع اسی طرح ہوا جس طرح ہونے کی آپﷺ نے خبر دی تھی۔ "مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى الْمَشْرِقِ فَقَالَ هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ"۔ (مؤطا مالکؒ،باب ماجاء فی المشرق،حدیث نمبر:۱۵۴۴، شاملہ، موقع الإسلام) حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرمارہے تھے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپؐ مشرق کی طرف اشارہ کررہے تھے اورفرمارہے تھے کہ فتنہ یہاں ہوگا؛ یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اس پر لکھتے ہیں: جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہی پیش آیا،اس لیے کہ خلافت کا جھگڑا اورلوگوں میں مقاتلہ اسی مقام پر ظاہر ہوا اوراکثر باطل مذاہب علاقہ مشرق میں ہوئے جو کہ عراق دخراساں ہے۔ امام مالکؒ نے حدیث قرن الشیطان کے بعد پھر وہ حدیث روایت کی ہے جس میں فتنہ خوارج کی خبر دی گئی ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے سالم نے عراق والوں کو ایک موقعہ پر مخاطب کرکے کہا تھا: "یااھل العراق! مااسالکم عن الصغیرۃ وارکبکم الکبیرۃ"۔ ترجمہ:اے اہل عراق! تم چھوٹے چھوٹے گناہوں کے بارے میں کتنے سوال کرتے ہو اوربڑے بڑے گناہوں کے کس تیزی سے مرتکب ہوتے ہو۔ اس میں آپ نے صریح طورپر عراق کا نام لیا اورپھر فرمایا: "سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيءُ مِنْ هَاهُنَا وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَ الشَّيْطَانِ"۔ (صحیح مسلم،باب الفتنۃ من حیث یطلع،حدیث نمبر:۵۱۷۲) ترجمہ:میں نے اپنے والد عبداللہ بن عمرؓ کو کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ فتنہ اس طرف سے آئے گا اورآپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ امام احمد کی ایک روایت میں مشرق کی طرف اشارہ کرنے کے بجائے عراق کی طرف اشارہ کرنے کی تصریح ہے۔ "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ يَؤُمُّ الْعِرَاقَ هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَاثلاثا"۔ (مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب،حدیث نمبر:۶۰۲۰) ترجمہ:میں نے حضرت رسول پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس حالت میں دیکھا کہ اپنے دستِ مبارک سے عراق کی طرف اشارہ فرمارہے تھے،خبردار! فتنہ یہاں سے اٹھے گا، فتنہ یہاں سے اُٹھےگا، یہ جملہ آپﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا، بہت سے اعتقادی اورسیاسی فتنے یہیں سے اُٹھے،سانحہ کربلا بھی اسی زمین پر پیش آیا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ عراق والوں کو اس واقعہ فاجعہ کے بارے میں بہت ملامت کرتے تھے،آپ سے کسی عراقی نے مسئلہ پوچھا کہ احرام کی حالت میں مکھی کو مارنا کیسا ہے؟ آپ نے اس پر ارشاد فرمایا: "أَهْلُ الْعِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنْ الذُّبَابِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا"۔ (صحیح البخاری،باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۳۴۷۰) ترجمہ:اہل عراق مکھی کے مارنے پر مجھ سے سوال کرتے ہیں؛ حالانکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نواسے کو انہوں نے قتل کیا، جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: وہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔