انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۴۵۔عروۃؒبن زبیرؓ نام ونسب عروہ نام، ابو عبداللہ کنیت، مشہور صحابی حواری رسول حضرت زبیر بن عوامؓ کے فرزند تھے،ان کی ماں اسماء حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی تھیں، اس طرح عروہ کی رگوں میں ایک جانب حواری رسول اوردوسری جانب صدیق رسول کا خون تھا۔ پیدائش حضرت عمرؓ کے آخر یا حضرت عثمانؓ کے آغاز عہد خلافت میں پیدا ہوئے پہلی روایت زیادہ مرحج ہے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۱۸۳) جنگ جمل وصفین جنگ جمل میں اپنی خالہ حضرت عائشہ کے ساتھ نکلنا چاہا لیکن ان کی عمر اس وقت کل تیرہ سال کی تھی،اس لیے شریک نہیں کیے گئے (ایضاً)حضرت علیؓ اورامیر معاویہؓ کی جنگ میں وہ کسی جانب نہ تھے۔ بھائی کی حمایت اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر اورعبدالملک کی معرکہ آرائیوں میں اپنے بھائی کے ساتھ تھے، عبداللہ کے مقتول ہونے کے بعد حجاج نے ان کی لاش سولی پر لٹکوادی تھی اورتجہیز وتکفین کے لیے حوالہ نہ کرتا تھا، اس وقت عروہ ہی عبد الملک کے پاس شام گئے تھے، وہ بڑی محبت اور عزت سے پیش آیا،عروہ کو گلے لگا کر اپنے ساتھ تخت پر بٹھا یا اس وقت تک اس کو عبداللہ بن زبیرؓ کے قتل ہونے کی خبر نہ پہنچی تھی،عروہ ہی کی زبانی اسے معلوم ہوا یہ خبر سن کر اس نے سجدہ شکر ادا کیااور عروہ کی درخواست پر فوراً حجاج کے نام لاش حوالہ کرنے کا حکم جاری کردیا اور اس کی اس حرکت پرسخت ناپسند یدگی ظاہر کی۔ (ابن اثیر:۴/۲۹۱) عبدالملک کی بیعت ادھر مکہ میں عبداللہؓ کے قتل کے بعد حجاج عروہ کے تلاش میں تھا، جب ان کا پتہ نہ چلا تو اس نے عبدالملک کو لکھا کہ عروہ اپنے بھائی کے ساتھ تھے، ان کے قتل ہونے کے بعد خدا کا مال لے کر بھاگ گئے، اس وقت عروہ شام میں موجود تھے، اس لیے عبدالملک نے جواب دیا کہ وہ بھاگے نہیں ہیں؛بلکہ میری بیعت کرلی ہے، میں نے ان کی خطاؤں کو معاف کرکے انہیں،امان دے دی ہے وہ مکہ واپس جاتے ہیں وہاں ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہ کی جائے، غرض وہ عبدالملک سے بیعت کرکے مکہ واپس آئے،ان کی واپسی کے بعد ان کے بھائی کی لاش دفن کی گئی۔ (ایضاً) عقیق کا قیام اگرچہ عروہ نے عبدالملک کی بیعت کرلی تھی اوردونوں میں کوئی ناخوشگواری باقی نہ رہ گئی تھی،مگر وہ امویوں کی بے عنوانیوں اورجابرانہ طریق حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے،لیکن ان کاروکنا بھی ان کے بس میں نہ تھا، اس لیے انہوں نے شہر کا قیام ترک کرکے مدینہ کے قریب عقیق کے دیہات میں سکونت اختیار کرلی۔ (ابن سعد:۵/۱۳۵) عبداللہ بن حسن کا بیان ہے کہ علی بن حسین (زین العابدین) اور عروہ روزانہ بعد عشاء مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں بیٹھتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ بیٹھتا تھا، ایک دن گفتگو میں بنی اُمیہ کے مظالم کا تذکرہ آیا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ جب کسی میں ان مظالم کو روکنے کی طاقت نہیں ہے تو ان کے ساتھ رہنا کہاں تک مناسب ہے،خدا ان مظالم کی سزا میں ایک نہ ایک دن ان پر عذاب نازل کرے گا ،عروہ نے علی بن حسین سے کہا کہ جو شخص ظالموں سے علیحدہ رہے گا اور خدا اُس کی بیزاری سے واقف ہوگا، تو امید ہے کہ جب خدا اُن کو کس مصیبت میں مبتلا کرےگا تو ظالموں سے علیحدہ رہنے والا شخص خواہ ان سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہواس مصیبت سے محفوظ رہے گا،اس گفتگو کے بعد عروہ مدینہ چھوڑ کر عقیق چلے گئے،لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ان کی مسجدیں لہو ولعب اوران کے بازار لغویات کا گہوارہ ہیں اوران کے راستوں میں بے حیائی کی گرم بازاری ہے۔ (مختصر صفوۃ الصفوہ:۳۲) مصر کا قیام ابن یونس کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عروہ سات سال تک مصر میں بھی رہے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۱۸۵) فضل وکمال عروہ ان اسلاف اوران بزرگوں کی یادگار تھے جو علم وعمل کا مجمع البحرین تھے،ان کے والد زبیر بن عوام حواری رسول تھے،ان کے نانا صدیق اورخلیل رسول تھے، ان کی خالہ عائشہ ام المومنین تھی،ان کی ماں اسماء کو زبان رسالت سے ذات النطاقین کا خطاب ملا تھا ان کے بڑے بھائی عبداللہ بڑے صاحب علم صحابی تھے غرض ان کا ساراگھرانا علم وعمل اور مذہبی اوراخلاقی فضائل وکمالات کا پیکر تھا،عروہ نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی اور اسی میں پرورش پائی، اس لیے یہ دولت انہیں وراثۃ ملی تھی اور ان کا دامن جملہ علمی اوراخلاقی فضائل سے معمور تھا،امام نووی لکھتےکہ ان کے مناقب بے شمار ہیں،ان کی جلالت،علوے مرتبت اوروفور علم پر سب کا اتفاق ہے(تہذیب الاسماء:۱/۳۲۲)حافظ ذہبی انہیں امام اور عالمِ مدینہ لکھتے ہیں:(تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۳) انہیں حدیث اور فقہ دونوں میں یکساں کمال حاصل تھا ،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان ثقۃ کثیر الحدیث فقیھا عالیا مامونا ثبتا (تذخرۃ الحفاظ:۱/۵۳) حدیث عروہ نے اپنے والد، بھائی،ماں، خالہ سب سے حدیث میں فیض اٹھایا تھا۔ (سعد:۵/۱۳۳) حضرت عائشہؓ کے خرمن کمال سے خصوصیت کے ساتھ خوشہ چینی کی تھی،قبیصہ کا بیان ہے کہ عروہ عائشہؓ کے پاس ہم سب سے زیادہ آتے جاتے تھے اورعائشہؓ اعلم الناس تھیں (تہذیب التہذیب:۷/۱۸۲)انہوں نے قریب قریب حضرت عائشہؓ کا پورا علمی ذخیرہ اپنے سینہ میں محفوظ کرلیا تھا ان کا خود بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ کی وفات سے چار پانچ سال پہلےان کی کل حدیثیں محفوظ کرلی تھیں،اگر ان کا انتقال اسی وقت ہوگیا ہوتا ،تومجھے ان کی کسی حدیث کے باقی رہ جانے کا افسوس نہ ہوتا ؛کیونکہ ان کی کل احادیث میرے سینہ میں محفوظ ہوچکی تھیں۔ (تہذیب التہذیب:۷/۸۱۲) حضرت عائشہؓ کے علاوہ اکابر صحابہ میں زید بن ثابتؓ ،عبداللہ بن عباسؓ عبداللہ بن عمرؓ، ابن عمرو بن العاصؓ، اسامہ بن زیدؓ،ابوایوب انصاریؓ، ابوہریرہؓ سعید بن زیدؓ، عمرو بن فضیلؓ،حکیم بن حزامؓ،ہشام بن حکیمؓ،جابر بن عبداللہؓ، مسور بن مخرمہؓ ،حسن بن علیؓ،نعمان بن بشیر ؓ،عمرو بن العاصؓ، معاویہ بن ابی سفیانؓ،عمرو بن سلمہؓ، ام المومنین ام سلمہؓ اور ام حبیبہؓ وغیرہ تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت سے فیضیاب ہوئے تھے۔ (ایضاً) ان بزرگوں کے فیض نے عروہ کا دامنِ علم نہایت وسیع کردیا تھا،ابن شہاب زہری کہتے تھے کہ عروہ حدیث کا بحر ذخار تھے (ایضا:۱۸۲) عروہ کے صاحبزادے ہشام جو خود بڑے محدث تھے کہتے کہ ہم نے والد کی احادیث کے دوہزار حصوں میں ایک حصہ بھی حاصل نہ کیا۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۳۲) فقہ مگر ان کا خاص اورامتیازی فن فقہ تھا، اس فن کو بھی انہوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہؓ سے حاصل کیا تھا اور اس میں ان کو اتنا کمال تھا کہ مدینہ کے سات مشہور فقہاء میں سے ایک فقیہ مانے جاتے تھے، "فقیہ المدینۃ احد الفقھاء السجعۃ فقھا المدینۃ" فقہ میں تصانیف آپ نے فقہ میں کتابیں بھی تالیف کی تھیں، ان میں سے بعض حرہ کے ہنگامہ کے زمانہ میں جب یزیدی لشکر نے مدنیۃ الرسول کو لوٹاتھا خود جلادیں مگر بعد میں ان کے جلانے کا افسوس ہوا؛چنانچہ فرماتے تھے کہ ہم لوگ کتاب اللہ کی موجودگی میں دوسری کتاب نہیں لکھتے تھے،اس لیے میں نے اپنی کتاب ضائع کردیں؛ لیکن اب خدا کی قسم میری یہ خواہش ہے کہ میری کتابیں میرے پاس موجود ہوتیں اور خدا کی کتاب اپنی جگہ پر دائم وقائم رہتی۔ (تہذیب التہذیب:۷/۱۸۳) بعض اقوال فرماتے تھے کہ جس آدمی میں تم کو ایک اچھائی دیکھو تو اس سے محبت کرو اور یقین کرو کہ اس میں اوراچھائیاں بھی ہوں گی اور اگر کوئی برائی دیکھو تو اس سے نفرت کرو اور یقین رکھو کہ اس میں ایسی اوربرائیاں بھی ہوں گی۔ (مختصر صفوۃ الصفلوہ:۱۳۱) صحابہ کا استفادہ ان کا فقہی کمال اس قدر مسلم تھا کہ بڑے بڑے صحابہ رسول مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ احتیاط لیکن اس کمال کے باوجود عروہ اس قدر محتاط تھے کہ کوئی مسئلہ محض رائے سے نہ بیان کرتے تھے۔ (ایضاً) ترغیب علم یہ کہہ کر نوجوان کو تحصیلِ علم کی ترغیب دلاتے تھے کہ ہم لوگ بھی ایک زمانہ میں چھوٹے تھے، آج وہ دن آیا کہ ہمارا شمار بڑوں میں ہے، تم بھی گو آج کم سن ہو لیکن ایک زمانہ آئے گا جب بڑے ہوگے،اس لیے علم حاصل کرکے سردار بن جاؤ کہ لوگوں کو تمہاری احتیاج ہو۔ (ایضاً:۱۸۲) فضائل اخلاق اس علم کے ساتھ عروہ عمل کے زیور سے بھی آراستہ تھے، وہ اپنے اسلاف کرام کا نمونہ تھے، عجلی کا بیان ہے کہ عروہ صالح آدمی تھے (تہذیب التہذیب:۷/۱۸۲) ابن شہاب ز ہری کا قول ہے کہ وہ علماء خیر میں تھے۔ (ابن خلکان :۱/۵۴) عبادت وریاضت بڑے عابد وزاہد تھے،ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ ان ذات میں علم، سیاست اورعبادت سب جمع تھیں (شذ رات الذہب :۱/۱۰۳) تہجد اس التزام کے ساتھ پڑھتے کہ ایک شب کے سوا جب ایک مرض کے سلسلہ میں، ان کا پاؤ ں کاٹا گیا تھا اور کبھی ناغہ نہ ہوئی،(تذکرہ الحفاظ:۱/۵۴)عید الفطر اورعید الاضحی کے ممنوعہ ایام کے علاوہ باقی بار ہ مہینے روزہ رکھتے تھے،سفر کی حالت میں بھی نہ چھوٹتا تھا، مرض الموت میں بھی اس معمول میں فرق نہ آتا ؛چنانچہ انتقال کے دن بھی روزے سے تھے۔ (ابن سعد:۵/۱۳۴) تلاوتِ قرآن محبوب ترین مشغلہ تھا،ایک چوتھائی قرآ ن دن میں ناظرہ پڑھتے تھے،باقی رات کو تہجد میں تمام کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۱۸۳) صبرواستقامت صبر واستقامت کا مجسم پیکر تھے ،بڑی سے بڑی آزمائش اورتکلیف کے موقع پر زبان سے ‘اُف نہ نکلتی تھی، ایک مرتبہ عبدالملک کے پاس شام گئے ہوئے تھے، ان کے لڑکے محمد بھی ساتھ تھے، وہ شاہی اصطبل دیکھنے گئے، ایک جانور نے ان کو پٹک دیا، اس کے صدمہ سے وہ اسی وقت جان بحق ہوگئے، اس کے بعد ہی عروہ کے پاؤں میں ایک خراب قسم کا زہریلا زخم پیدا ہوگیااطباء نے پاؤں کاٹے جانے کا مشورہ دیااورنہ کاٹے جانے کی صورت میں تمام جسم میں زہر پھیل جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ،عروہ اگرچہ اس وقت ضعیف ہوچکے تھے؛ لیکن انہوں نے جوانوں سے زیادہ ہمت و استقلال سے کام لیا،پاؤں کاٹنے سے پہلے طبیب نے کہا تھوڑی سی شراب پی لیجئے،تاکہ تکلیف کا احساس کم ہو،فرمایا: جس مرض میں مجھ کو صحت کی امید ہو،اس میں بھی حرام شئے سے مددنہ لوں گا، اس نے کہا تو پھر غافل کردینے والی دوا ہی استعمال کرلیجئے،فرمایا میں یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے جسم کا ایک عضو کاٹا جائے اورمیں اس کی تکلیف محسوس نہ کروں،اپریشن کے وقت چند آدمی سنبھالنے کے لیے آئے، عروہ نے پوچھا تمہاراکیا کام ہے،انہوں نے کہا زیادہ تکلیف کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے،اس لیے آپ کو سنبھالنے کے لیے آئے ہیں فرمایا مجھ کو امید ہے کہ تمہاری امداد کی ضرورت نہ ہوگی اور نہایت استقلال کےساتھ پاؤں کٹوادیا،جس وقت پاؤں ٹخنوں سے الگ کیا گیا، اس وقت زبان پر تسبیح وتہلیل تھی، جب خون بند کرنے کے لیے زخم کو داغا گیا،توشدت تکلیف سے بے ہوش ہوگئے لیکن جلد ہی ہوش آگیا، اور چہرہ کا پسینہ پونچھ کر کٹے ہوئے پاؤں کو منگا کر دیکھا، اور اس کو الٹ پلٹ کر اس سے خطاب کرکے فرمایا ، اس ذات کی قسم جس نے تجھ سے میرا بوجھ اٹھوایا، وہ خوب جانتا ہے کہ میں کسی حرام راستہ پر گامزن نہیں ہوا۔ (ابن خلکان:۱/۲۱۶) صبر وشکر ان حوادث اورمصائب کے باوجود زبان شکوہ وشکایت سے آلودہ نہ ہوئی اور ہمیشہ خدا کا شکر ہی ادا کرتی رہی؛چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ میرے چار ہاتھ پاؤں میں سے تونے ایک ہی کو لیا، اورتین باقی رکھے اورچار لڑکوں میں سے ایک ہی کو لیا اور تین باقی کر رکھے،اگرتونے کچھ لیا ہے تو بہت کچھ باقی رکھا اگر مصیبت میں مبتلا کیا ہے تو بہت دنوں عافیت میں بھی رکھ چکا ہے۔ دولتِ دنیا سے بے نیازی ان کی نگاہ میں دولت دنیااور چند روزہ عیش و تنعم کی کوئی وقعت نہ تھی، اس کے لیے انہوں نے خدا سے کبھی دنیا نہیں مانگی،ایک مرتبہ امیر معاویہ کے زمانہ میں یہ ان کے بھائی عبداللہؓ اورمصعب بن زبیرؓ اورعبدالملک چاروں آدمی مسجد حرام میں جمع تھے کسی نے تجویز پیش کی کہ ہم لوگ اس گھر میں خدا کے روبرو اپنی اپنی آرزوئیں پیش کریں،سب نے اسے پسند کیا سب سے پہلے عروہ کے بھائی عبداللہ نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میں حرم کا بادشاہ ہوجاؤں اورمجھے تخت خلافت ملے، ان کے بعد ان کے دوسرے بھائی مصعب نے کہا کہ میری تمنا یہ ہے کہ قریش کی دونوں حسین عورتیں سکینہ بنت حسین اور عائشہ بنت طلحہ میرے عقد میں آجائیں ،ان کے بعد عبدالملک نے کہا میری آرزو یہ ہے کہ میں کل روئے زمین کا بادشاہ ہوجاؤں اور امیر معاویہ کا جانشین بنوں، سب سے آخیر میں عروہ نے کہا کہ مجھے تم لوگوں کی خواہشات میں سے کچھ نہ چاہئے میں دنیا میں زہد وآخرت میں کامیابی اورعلم چاہتا ہوں۔ (ابن خلکان:۱/۳۱) خدانے ان چاروں کی دعا قبول کی ابن زبیرؓ حرم کے سات برس تک خلیفہ رہے ،سکینہ اور عائشہ دونوں مصعب کے عقد میں آئیں،عبد الملک سندھ سے لے کر اسپین تک کافرماں روا ہوا اورامیر معاویہ کی قائم کردہ سلطنت کا وارث بنا اور عروہ کو خاصان خدا کا مرتبہ ملا تمول اور فارغ البالی اگرچہ عروہ دولت دنیا سے بے نیاز اور بے پرواہ تھے،لیکن خدا نے ان کو اس سے وافر حصہ دیا تھا،وہ بڑے صاحب ثروت تھے، ان کے والد حضرت زبیر بن عوام عرب کے بڑے متمول لوگوں میں تھے، اپنے بعد کئی کروڑ دولت چھوڑی،یہ دولت ان کے بیٹوں کو ملی،جن میں ایک عروہ بھی تھے، حضرت زبیر کی دولت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی چاربیویوں کو آٹھواں حصہ میں بارہ بارہ لاکھ ملا تھا۔ (بخاری کتاب المغازی باب برکۃ الغازی فی مالہ) فیاضی وسیر چشمی خدانے عروہ کو جس طرح دولت عطا فرمائی تھی ویسے ہی وہ فیاض بھی تھے،ان کے کھجوروں کے باغات تھے،کھجوروں کی فصل میں باغ کی دیوار توڑوادیتے تھے اورہرشخص کے لیے صلائے عام ہوتی تھی لوگ آکر کھاتے تھے اور باندھ باندھ کر ساتھ لے جاتے تھے۔ (مختصر صفوۃ النصفوہ:۱۳۱) خوش لباسی اورنفاست عروہ اگرچہ بڑے عابد وزاہد تھے؛ لیکن مزاج میں بڑی نفاست تھی، روزانہ غسل کرتے تھے ،کپڑے نہایت بیش قیمت پہنتے تھے، گرمیوں میں جسم پر سندس کی قبا ہوتی تھی جس میں حریر کا استر ہوتا تھا،خزا کی چادر اوڑھتے تھے۔ (ابن سعد:۵/۱۳۴) وفات ۹۴ھ میں نواح مدینہ میں اپنےمحاج میں انتقال کیا۔ (ایضا:۱۳۵)