انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحبؒ (م:۱۹۸۹ء) ۱۔شریف آدمی جس قدر بلند ترین مراتب پر پہنچتا ہے اسی قدر اس میں عاجزی اور تواضع کی شان زیادہ پیدا ہوتی ہے اوررذیل آدمی جوں جوں اونچے درجات پر پہنچتا ہے اتنی ہی اس میں دنائت وکمینگی اوررذالت پیدا ہوتی ہے۔ (صحبتے بااھل حق،ص؛۴۲) ۲۔قرآن حکیم نے ملت کے بقاء واستحکام اور مسلمانوں کی ترقی وعروج کا راز،اتفاق اور اتحاد میں رکھا ہے، جب تک مسلمان ایک رہے غالب رہے،جب سے وحدت ختم ہوئی غلبہ بھی جاتا رہے،آپ نبی کریم ﷺ کی تبلیغ ومساعی اوراسلام کے تدریجی ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ہر پہلو،ہر عنوان اوراسلامی تاریخ کے ہرکامیاب دور کے پس منظر میں ملی وحدت اوراہل اسلام کا اتحاد کار فرما نظر آئے گا۔ (صحبتے بااھل حق،ص؛۴۳) ۳۔رعایا حکمرانوں کا اثر لیتی ہے، بادشاہوں پر عوام کی نظریں ہوتی ہیں،بادشاہ جو رنگ چاہیں اختیار کریں ،عوام بھی اپنے کو اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے،آپ اقوام عالم کی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو آپ کو الناس علی دین ملوکھم (لوگ بادشاہوں کے طرز زندگی کو اختیار کرتے ہیں)کی صداقت کی شہادت میسر آجائے گی۔ (صحبتے با اھل حق،ص:۴۴) ۴۔غرور وتکبر کا انجام ذلت ورسوائی ہوتا ہے اور عجز وانکساری اورتواضع وخاکساری سے رفعت وعزت حاصل ہوتی ہے۔ (صحبتے بااہل حق،ص:۴۷) ۵۔ہرکام میں صبرواستقلال اوراستقامت سے کام لینا چاہئے، کسی نیک کام میں مخالف لوگوں کی مخالفتوں اورپروپیگنڈوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۴۷) ۶۔جب چیزوں میں حلاوت ومٹھاس موجود ہوتی ہے تو ان کے حاصل کرنے پر انسان کے دل کا میلان ہوتا ہے اورادھر طبعی رجحان غالب رہتا ہے اور ایسے امور کا انجام دینا لطف اندوز اورآسان ہوتا ہے،مگر ایسے کام کرنا یا ایسی چیزوں کے حصول اورایسے فعل کا کرنا کوئی کمال نہیں ؛کیونکہ یہ تو عین فطرت انسانی کا تقاضا ہے،کمال تو یہ ہے کہ کسی کام میں حلاوت نہ ہو اورنہ ہی عذوبت ومٹھاس پیدا ہو؛بلکہ طبیعت پر شاق ہو اور پھر بھی صرف خدا کی رضا کے لئے انسان کرتا رہے۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۵۳) ۷۔صاحب فن استاذ سے اکتساب فیض ،ایک معروف اور مسلم اصول ہے کسی فن کو صحیح معنوں میں سیکھنے کے لئے اس فن کے ماہر استاد کی شاگردی از بس ضروری ہے،مگر آج کل کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو استاد سے پڑھے بغیر صرف اپنے مطالعہ کے زور سے علم حدیث کے دقیق اورنازک ترین مسائل میں گفتگو کرتے رہتے ہیں جو بہت بڑے وبال اورمختلف مفاسد کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۵۳) ۸۔محنت کیجئے اور پوری تحقیق سے کام لیں،زندگی کا کوئی اعتبار نہیں جتنا کام ہوجائے وہ اللہ کے فضل سے ایک بڑی نعمت ہے۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۱۱۸) ۹۔کامیابی،فتح مندی اوررضائے الہی کے حصول کا واحد زینہ "اتباع سنت" ہے، صرف اورصرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا اورآخرت میں درجات عالیہ حاصل کرسکتا ہے اوراسی راستے کی برکت سے انسان مدارج کمال تک پہنچ جاتا ہے،سنت رسول کا راستہ مقبول راستہ ہے جو بھی اس راہ پر چلے گا وہ بھی مقبول ہوجائے گا۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۱۲۴) ۱۰۔لوگ کہتے ہیں دین کا کام مشکل ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جتنا دین کا کام آسان ہے اس سے کوئی کام بھی زیادہ آسان نہیں ہے،وجہ یہ ہے کہ دین محفوظ ہے اوراس کی حفاظت اورمعاونت خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے،لہذا ہم جب دین سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو ہم دین کی حفاظت نہیں ؛بلکہ درحقیقت دین ہماری حفاظت کرتا ہے۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۱۲۹) ۱۱۔اگر عمل سنت کے مطابق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتا،اگرچہ فی نفسہ وہ کتنا اچھا کیوں نہ ہو اورنیت کتنی ہی خالص کیوں نہ ہو۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۲۲۳) ۱۲۔والدین کی خدمت سے عمر میں برکت ہوتی ہے اوراساتذہ کی خدمت سے علم میں برکت ہوتی ہے،مقصد یہ ہے کہ ان خدمات کے یہ خاصیتی اثرات ہیں جوان پر مرتب ہوتےہیں۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۲۵۹) ۱۳۔علم کی تحصیل میں اولین اوراہم چیز نیت ہے،ایک آدمی جب ایک کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے عزم اورنظریہ پہلے بناتا ہے،مقصد متعین کرتا ہے اگر یہ نیت ہو کہ آگے قبر،حساب کتاب کا مرحلہ ہے،خدا کے ہاں پیشی ہونی ہے اوراس کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کی مرضیات کا حصول ضروری ہے اور رضا کے حصول کے لئے علم ہی ذریعہ ہے، اب اگر پہلےسے علم اوراپنی زندگی کا مقصد متعین کردے تو اس کا درجہ غازی اورشہید کے برابر ہے،شہید وہ ہے جس کا ایک نظریہ وعقیدہ اورعندیہ ہو اورلوگ اس کے نظریہ اورعقیدہ کی مخالفت کرتے ہیں مگر یہ اس کی صداقت سے مطمئن ہوتا ہے کہ سرجائے تو جائے مگر اس نظریہ کے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا،اس کا تعلق دل سے ہے یہ دل میں رچ جاتا ہے۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۲۷۲) ۱۴۔بادشاہی ملی تو فرعون ونمرود کی نیابت ملی،وزیر ہوا توہامان کے قائم مقام ہوا، فوجی جرنیل ہوا تو رستم کی جانشینی ملی،لیکن اس سے نبوت کی نیابت اورحضورﷺ کی سنت کی سعادت حاصل نہیں ہوسکتی اورنہ یہ عہدے اورمناصب سنت رسول ﷺ کے مقام وعظمت تک پہنچ سکتے ہیں۔ (صحبتے یا اھل حق،ص:۲۷۳) ۱۵۔کھڑے بیٹھے ہر شخص کو سلام کہیں کہ یہ تو ہمارا ایک دوسرے سے پہلا معاہدہ ہے کہ میری طرف سے مجلس میں آنے پر تمہارے لئے سلامتی ہے،یعنی میں کوئی بدخواہ،جاسوس یا مخبر نہیں ہوں،تمہارے خلاف شروفساد نہیں کروں گا،تو یہ ایک معاہدہ اورحلف وفاداری ہوا، اسلام نے باہمی معاشرت کا پہلا سبق کتنا عمدہ دیا کہ آتے ہی وہ اعلان کرتا ہے کہ میری طرف سے تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی،دوچار لمحے بیٹھنا بھی تمہاری خیر خواہی میں ہوگا،جاتے وقت پھر سلام کہتا ہے گویا جو باتیں مجلس سے مخصوص تھیں اس میں بددیانتی نہ کروں گا، امانت مجلس کا لحاظ رکھوں گا تو جاتے وقت وعدہ کیا کہ مجھ سے غیبت ،چغلی یا بدخواہی کی توقع نہ کرنا، سامنے بھی اورپیچھے بھی سلامتی ہے تم پر،ساری دنیا کے مذاہب اور معاشرتی تحریکیں ایک طرف اوراسلام کے امن وسلامتی کی رعایت کے قوانین اورآداب ایک طرف۔ (صحبتے بااھل حق،ص:۳۵۲)