انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جریر ؓبن عبداللہ بجلی نام ونسب جریر نام، ابو عمر کنیت،نسب نامہ یہ ہے، جریر بن عبداللہ بن جابر بن مالک بن نضر بن ثعلبہ بن جشم بن عوف بن خزیمہ بن حرب بن علی بن مالک بن سعد بن نذریر قسر بن عبقر بن انمار بن اراش بن عمرو بن غوث بجلی، جریر یمن کے شاہی خاندان کے رکن اور قبیلہ بجیلہ کے سردار تھے۔ اسلام بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جریر وفاتِ نبوی کے کل چالیس روز پیشتر مشرف باسلام ہوئے ،لیکن یہ صحیح نہیں ہے، بروایت صحیح وہ حجۃ الوداع میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے، اس لئے وفات سے کم از کم چار پانچ ماہ پیشتر ان کا اسلام ماننا پڑیگا اور واقدی کے بیان کے مطابق رمضان میں اسلام لائے اس روایت کی رو سے آنحضرتﷺ کی وفات کے ساتھ مہینہ پیشتر ان کا اسلام لانا ثابت ہوتا ہے، بہر حال اس قدر یقینی ہے کہ وہ وفات نبوی سے کئی مہینہ پیشتر اسلام لاچکے تھے۔ جب یہ قبول اسلام کیلئے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے پوچھا کیسے آنا ہوا،عرض کیا، اسلام قبول کرنے کے لیے، آپ نے ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دی اورمسلمانوں سے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کیا کرو، اسکے بعد جریر نے اسلام کے لیےہاتھ بڑھایا اورکہا میں اسلام پر بیعت کرتا ہوں، آنحضرتﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا، پھر فرمایا جو شخص انسان پررحم نہیں کرتا اس پر خدا رحم نہیں کرتا، اوربلا شکرت غیر خدائے واحد کی پرستش ،فرض نماوکی پابندی ،مفروضہ زکوۃ ادائیگی مسلمانوں کی نعمت اور کافروں سے برأت پر بیعت لی۔ حجۃ الوداع قبول اسلام کے بعد سب سے اول آنحضرتﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک ہوئے،اس میں مجمع کو خاموش کرنے کی خدمت ان کے سپرد تھی۔ سریہ ذی الحلیفہ فتح مکہ کے بعد قریب قریب عرب کے تمام قبیلے اسلام کے حلقۂ اثر میں آگئے تھے لیکن بعضوں میں صدیوں کے اعتقاد کی وجہ سے تو ہم پرستی باقی تھی، اورصنم کدوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے آنحضرتﷺ نے کئی صنم کدے گرادیئے ،یمن کے صنم کدہ ذی الحلیفہ کو جو کعبہ یمانی کے کےنام سے مشہور تھا ڈھانے کی خدمت جریرؓ کے سپردفرمائی،ایک دن آپ نے جریر سے فرمایا کیا تم ذی الحلیفہ کو ڈھا کر مجھے مطمئن نہ کرو گے؟ عرض کیا بسر وشم حاضر ہوں؛ لیکن گھوڑے کی پیٹھ پر جم کے نہیں بیٹھ سکتا،یہ عذر سن کر آپ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور دعا دی کہ خدایا ان کو گھوڑے کی پیٹھ پر جمادے اورہادی ومہدی بنا، جریرؓ رسول اللہ ﷺ کی ان دعاؤں کو لیکر ۱۵۰ سواروں کے دستہ کے ساتھ یمن پہنچے اور ذی الحلیفہ کے صنم کدہ کو جلا کر خاکستر کردیا اور ابو ارطاۃ کو اطلاع کے لیے مدینہ بھیجا انہوں نے آکر آنحضرتﷺ کو مژدہ سنایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم نے ذی الحلیفہ کو جلا کر خارشتی اونٹ بنادیا یہ خبر سن کر آپ نے اس سریہ کے سوار اورپیدل کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ ذی الحلیفہ) ابھی جریر یمن ہی میں تھے کہ آنحضرتﷺ کا وصال ہوگیا،لیکن انہیں اس کی خبر نہ ہوئی ایک دن یہ یمن کے دو آدمیوں ذوکلاع اورذو عمر کو حدیث نبویﷺ سنارہے تھے کہ انہوں نے کہا تم اپنے جس ساتھی کا حال سنا رہے ہو، وہ تین دن ہوئے ختم ہوگیا، یہ وحشتناک خبر سن کر جریر روانہ ہوگئے ،راستہ میں مدینہ کے سوار ملے، ان سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کا وصال ہوگیا اورابو بکرصدیقؓ خلیفہ ہوئے۔ عہد فاروقی عہد صدیقی میں غالباً انہوں نے خاموشی کی زندگی بسر کی ،حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عراق کی فوج کشی میں شریک ہوئے،عراق پر عہد صدیقی ہی میں فوج کشی ہوچکی تھی اس سلسلہ کی مشہور جنگ واقعہ جسر میں جو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی ،مسلمانوں کو نہایت سخت شکست ہوئی اور بہت سے مسلمان شہید ہوئے،اس لیے حضرت عمرؓ نے عراقی افواج کی امداد کے لیے تمام قبائل عرب کو جمع کیا اور ہر قبیلہ کے سردار کو اس کے قبیلہ کا افسر بناکر عراق روانہ کیا، جریر کو بجیلہ کی سرداری ملی؛چنانچہ یہ اپنے قبیلہ کے ساتھ عراق پہنچے اورمقام ثعلبہ میں مثنیٰ بن حارثہ سے جو ایرانیوں کے مقابلہ میں تھے ملے، مقام حیرہ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کا مقابلہ ہوا، اس مقابلہ میں جریر میمنہ کے افسر تھے ،میمنہ میسرہ اورقلب کو لے کر ایرانیوں پر حملہ کیا، ایرانیوں نے بھی برابر کا جواب دیا اورمسلمان پھٹ کر الگ ہوگئے، مثنیٰ نے للکارا، ان کی للکار پر وہ پھر سنبھل کر حملہ آور ہوئے، اس حملہ میں عرب کے مشہور بہادر مسعود بن حارثہ مارے گئے ،مثنیٰ نے پھر جوش دلایا کہ شرفایوں ہی جان دیتے ہیں، جریرؓ نے بھی اپنے قبیلہ کو للکارا کہ برادرانِ بجیلہ! تم کو دشمنوں پر سب سے پہلے حملہ آور ہونا چاہیے اگر خدا نے کامیاب کیا تو تم اس زمین کے سب سے زیادہ حق دار ہوگے، ان دونوں کی للکار پر مسلمانوں نے تیسرا حملہ کیا اس حملہ میں ایرانی افسر مہران مارا گیا اورایرانیوں نے میدان خالی کردیا۔ جنگ یرموک اس سلسلہ کی مشہور جنگ یرموک میں جریر نے بڑے کارنامے دکھائے،اس جنگ کے آغاز ہی میں مسلمانوں کے دو افسر مارے گئے، یہ صورت دیکھ کر جریر نے اپنے قبیلہ بجیلہ کو لے کر حملہ کیا، ان کے ساتھ قبیلہ ازدنے بھی حملہ کردیا، بڑی گھمسان کی لڑائی ہوئی عجمی پیچھے ہٹتے ہٹتے رستم کے پاس پہنچ گئے اور رستم سواری سے اتر پڑا، اورپیدل بڑھ کر بڑا پر زور حملہ کیا ،اس کے ساتھ اورافسرانِ فوج بھی آگے بڑھے اور مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، اس موقع پر مشہو بہادر ابو محجن ثقفی نے بڑی بہادری دکھائی ،جریر نے مسلمانوں کی پسپائی دیکھی تو دوسرے افسروں سے کہلا بھیجا کہ میمنہ کی جانب سے ایرانیوں کے قلب پر متفقہ حملہ کرنا چاہیے ،ان کے مشورہ پر مسلمانوں نے ہر طرف سے سمٹ کر اس زور کا حملہ کیا کہ ایرانیوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور وہ نہایت بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اس پسائی میں رستم مارا گیا اور ایرانی دیر کعب تک پچھڑتے چلے گئے، اس درمیان میں ان کا امدادی دستہ پہنچ گیا اور وہ از سر نو منظم ہوکر صف آرا ہوگئے اور نخارستان مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا، حضرت زبیرؓ نے اس کا کام تمام کردیا، دوسری طرف قیس بن ہبیرہ نے ایک دوسرے افسر کو مارا، اورمسلمان ہر چہار جانب سے ایرانیوں پر ٹوٹ پڑے،ان کے افسر مارے جاچکے تھے، اس لیے وہ زیادہ دیر تک میدان میں نہ ٹھہرسکے اور پسپا ہوکر پیچھے ہٹنے لگے، جریر تعاقب کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئے ،ایرانیوں نے تنہا پاکر گھوڑے سے نیچے گرادیا اس درمیان میں ان کے ساتھی پہنچ گئے، اس لئے ایرانی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ (تاریخوں میں جنگ یرموک کے واقعات نہایت مفصل ہیں ہم نے اخبار الطوال سے صرف اسی قدر نقل کیا ہے) یرموک کے بعد کسریٰ کا پایہ تخت مدائن فتح ہوا اس کے بعد عمرو بن مالک نے جلولا کی مہم سر کی اورجریر کو چار ہزار مسلح فوج کے ساتھ جلولاء کی حفاظت پر متعین کرکے اپنے مستقر پر چلے گئے۔ جلولا کے پاس ہی حلوان ایرانیوں کا ایک بڑا مرکز تھا،حضرت سعد بن ابی ؓ وقاص نے جریر کے پاس ۳ ہزار فوج بھیجی کہ وہ حلوان پر حملہ کرکے اس خطرہ کو دور کریں ؛چنانچہ وہ چار ہزار پہلی اور ۳ ہزار یہ جدید فوج لیکر حلوان پہنچے، اور بلا کسی خون ریزی کے اس پر قبضہ کرلیا۔ (بلاذری:۳۰۹) تستر کی شکست کے بعد یزدگردشاہِ ایران نے اپنے ملک کے مشہور بہادر مروان شاہ کو ایک لشکرِ جرار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پر مامور کیا،عمار ؓبن یاسر نے حضرت عمرؓ کو اس اہتمام کی اطلاع دی، پہلے آپ نے خود اس جنگ میں شرکت کا ارادہ کیا، پھر حضرت علیؓ کی رائے سے رک گئے اور تمام فوجی چھاؤنیوں میں احکام بھیجے کہ ہر جگہ کی فوجیں میدان میں پہنچ جائیں اورنعمان بن مقرن کو ان کا سپہ سالار بنا کر بھیجا یہ مقابلہ نہایت سخت تھا، اس لئے حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرن کے علاوہ اور چار آدمیوں کو بھی سپہ سالاری کے لیے نامزد کردیا تھا،ان میں ایک جریرؓ بھی تھے، مسلمانوں اور ایرانیوں کا یہ معرکہ تاریخی شمار کیا جاتا ہے، اس میں حضرت نعمان ؓ نے شہادت پائی، مگر کامیابی مسلمانوں کو ہوئی(فتوح البلدان بلاذری:۳۱۰،۳۱۱) ان لڑائیوں کے علاوہ جریرؓ اس سلسلہ کی اور لڑائیوں میں بھی شریک تھے۔ حضرت عثمانؓ کے عہد میں ہمدان کے گورنر تھے، ان کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی بیعت کرلی اوراپنے رقبہ حکومت میں ان کی بیعت لے کر ان کے پاس کوفہ چلے آئے ،جنگ جمل کے بعد جب حضرت علیؓ نے امیر معاویہؓ کو اپنی بیعت کیلئے خط لکھا تو اس کو معاویہؓ کے پاس جریر ہی لیکر گئے تھے، اس کو پیش کرکے زبانی اپنی طرف سے یہ کہا کہ حجاز،یمن، بحرین،عمان، مصرفارس ،خراسان اور علاقہ جبل وغیرہ سارے ملکوں نے امیر المومنین کو خلیفہ تسلیم کرلیا ہے،صرف شام باقی رہ گیا ہے،اس لیے اس کو بھی ان کے حلقہ اطاعت میں آجانا چاہیے ورنہ اگر ان ملکوں میں سے ایک ملک بھی شام پر بہادیا جائے گا تو اس کو غرق کرنے کیلئے کافی ہے۔ (اخبار الطوال:۱۶۶) حضرت علیؓ کے خط پر امیر معاویہؓ نے اپنے مشیروں سے رائے لی، سب نے خلاف مشورہ دیا ،اس لیے انہوں نے صاف جواب دیدیا کہ اہل شام بیعت نہیں کرسکتے،جریرؓ نے واپس جاکر یہ جواب حضرت علیؓ کو سنادیا اور امیر معاویہ کی قوت اوران کے انتظامات سے بھی آگاہ کیا، ان کی زبان سے یہ باتیں سن کر شیعیان علیؓ جریر پر طرح طرح کی تہمتیں رکھنے لگے، اشتر بہت برہم ہوئے اورحضرت علی سے کہا امیر المومنین اگرجریرؓ کے بجائے آپ مجھے بھیجے ہوتے تو معاویہ کے گلے کی گرفت نہ ڈھیلی ہونے دیتا اور کوئی راستہ ایسا باقی نہ چھوڑتا جسے کھول کر وہ کامیاب ہوسکیں اور قبل اس کے کہ وہ کوئی کاروائی کریں، ان سے بیعت لے لیتا، یہ باتیں سن کر جریرؓ نے کہا اگر پہلے نہیں جاسکے تو اب جاکر کرلو، اشتر نے کہا اب جاکر میں کیا کرسکتا ہوں، جبکہ تم نے معاملہ بگاڑدیا، تم نے قطعا ان سے کوئی عہد وپیمان کرلیا ہے ورنہ ان کی کوششوں اور فوج کی کثرت سے ہم لوگوں کو نہ ڈراتے،اگر مجھکو امیر المومنین اجازت مرحمت فرمائیں تو تم کو اور تمہارےجیسے لوگوں کو معاملات کے فیصلہ تک قید کردوں،جریرؓ کو یہ انداز گفتگو اورنارواغصہ بہت ناگوار ہوا اور راتوں رات اپنے اہل وعیال کو لیکر کوفہ چلے گئے اور قرقییا میں اقامت اختیار کرلی اورجنگ صفین میں کوئی حصہ نہ لیا (اصابہ:۱/۲۴۲)اوربقیہ زندگی قرقییا کے گوشۂ عافیت میں بسر کی۔ وفات ۵۴ھ میں قرقییا میں وفات پائی۔ (استیعاب:۱/۱۱) حلیہ قددراز چھ فٹ تھا اوراس قدر حسین وجمیل تھے کہ حضرت عمرؓ ان کو امتِ اسلامیہ کا یوسف کہا کرتے تھے،ہاتھوں میں مہندی کا خضاب لگاتے تھے۔ اولاد وفات کے بعد پانچ لڑکے عمر،منذر،عبیداللہ،ایوب اورابراہیم یادگار چھوڑے۔ (تہذیب التہذیب:۲/۷۳) فضل وکمال گوجریر آخری زمانہ میں مشرف با سلام ہوئے اورفیضانِ نبوی سے استفادہ کا کم موقع ملا، تاہم جو لمحات بھی میسر آئے،ان سے پورا فائدہ اٹھایا، اس لیے اس کمی صحبت کے باوجود ان سے سو حدیثیں مروی ہیں،ان میں سے آٹھ متفق علیہ ہیں اورایک میں امام بخاری اور سات میں امام مسلم منفرد ہیں (تہذیب الکمال:۶۱) ان سے روایت کرنے والوں کا دائرہ بھی خاصہ وسیع ہے؛چنانچہ ان کے لڑکوں میں منذر،عبید اللہ،ایوب ،ابراہیم اورلڑکوں کے علاوہ ابو ذرعہ بن عمر، انس، ابو وائل، زید بن وہب، زیاد بن علاقہ شبعی، قیس بن ابی حازم، حمام بن حارث، اورابو ظبیان حصین بن جندب نے ان سے روایتیں کیں ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱/۷۳) بارگاہ نبوی میں پذیرائی بارگاہِ نبوی میں جریرؓ کی بڑی پذیرائی تھی، رسول اللہ ﷺ انہیں بہت مانتے تھے اور بڑے احترام سے ان کے ساتھ پیش آتے تھے ان کے بیٹھنے کے لیے ردائے مبارک بچھا دیتے تھے (تہذیب الکمال:۶۱) جب بھی دردولت پر حاضر ہوتے،کبھی شرفِ بار یابی سے محروم نہ رہتے ،جب آپ انہیں دیکھتے تھے تو مسکرادیتے تھے (مسلم کتاب الفضائل جریرؓ بن عبداللہ)غائبانہ ان کا ذکر خیر فرماتے تھے ان کا بیان ہے کہ جب میں مدینہ پہنچا تو مدینہ کے باہر سواری بٹھا کر کپڑا رکھنے کا تھیلا کھولا اورحلہ پہن کر داخل ہوا ، اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے میں نے سلام کیا لوگوں نے آنکھوں سے میری طرف اشارہ کیا، میں نے اپنے پاس کے آدمی سے پوچھا، عبداللہ کیا رسول اللہ ﷺ میرا تذکرہ فرماتے تھے، انہوں نے کہا ہاں، ابھی ابھی نہایت اچھے الفاظ میں تمہارا تذکرہ فرمایا، آپ خطبہ دے رہے تھے،دوران خطبہ میں فرمایا کہ اس دروازہ یا اس کھڑکی سے تمہارے پاس یمن کا بہترین شخص داخل ہوگا، اس کے چہرہ پر بادشاہی کی علامت ہوگی، میں نے اس عزت افزائی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ جریر کی خوبیوں اوررسول اللہ ﷺ کے اُن کی توقیر کرنے کی وجہ سے خلفاء بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ خدا تم پر رحمت نازل فرمائے،تم جاہلیت میں بھی اچھے سردار تھے اوراسلام میں بھی اچھے سردار ہو۔ (تہذیب التہذیب :۲/۳) پاس فرمان رسول آنحضرتﷺ کا ہر ارشاد ہمیشہ زندگی کا دستور العمل رہا، ایک مرتبہ چند اعراب نے آکر رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ یا نبی اللہ آپ کے بعض صدقہ وصول کرنے والے ہم پر ظلم کرتے ہیں، فرمایا ان کو راضی رکھو، اعراب نے کہا اگر وہ ظلم کریں تب بھی آپ نے فرمایا اپنے صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی رکھو، اس ارشاد کے بعد سے کسی صدقہ وصول کرنے والے کو جریرؓ نے ناخوش نہیں کیا۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۳۲۶)