انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت یزید بن ہارون اسلمیؒ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں جن اتباع تابعین نے علم وعمل کی قندیلیں فروزاں کیں،ان میں ایک ممتاز نام حافظ یزید بن ہارون اسلمیؒ کا ہے،جو فقہ وحدیث میں مہارت ِ تام رکھنے کے ساتھ سیرت وکردار کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے، زہد وتقویٰ، بے نفسی وخشیتِ الہیٰ اورامر باالمعروف ونہی عن المنکر ان کی شخصیت کے نمایاں ترین جوہر تھے،ان کی علمی جلالت کا اندازہ کرنے کے لیے ان کے چند ممتاز ترین شیوخ وتلامذہ کا مختصر تذکرہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ تابعین کرام میں سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کے شاگرد یحییٰ بن سعیدؒ، اورسلیمان بن طرخان تیمیؒ سے اکتسابِ فیض کیا تھا، یحییٰ حدیث کی روایت کے ساتھ، تفقہ میں بھی کمال رکھتے تھے،یزید بن ہارونؒ نے ان کی تین ہزار حدیثیں حفظ کی تھیں (تذکرۃ الحفاظ:۲۵) سلیمان تیمی المتوفی ۱۴۳ھ کا طغرائے امتیاز،زہد وورع اورعبادت وریاضت تھا،وہ قائم اللیل اورصائم النہار تھے ۔ (شذرات الذہب:۱/۲۱۲) حافظ یزید زمرہ اتباع تابعین میں امام شعبہؒ، سفیان ثوریؒ،عبدالعزیز بن عبداللہ الماجشونؒ،حمادبن زیدؒ اورحماد بن سلمہؒ سے مستفید ہوئے تھے، امام شعبہ کا شمار اگرچہ کبار تبع تابعین میں ہوتا ہے،مگر وہ اپنے علم وفضل دیانت وتقویٰ اوربعض دوسری خصوصیات کی وجہ سے تابعین کے زمرہ میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں انہوں نے دو صحابیوں حضرت انس بن مالکؓ اورعمرو بن مسلمہؓ کو دیکھا تھا،رؤیت صحابہؓ کا یہ فضل ان کی تابعیت کے لیے کافی ہے،اپنے فضل وکمال کی وجہ سے وہ امیر المومنین فی الحدیث کہلاتے ہیں۔ (ملاحظہ ہوتاریخ بغداد:۵/۱۶۷) امام سفیان ثوری زمرۂ اتباع تابعین کے گل سرسبد تھے،علم وفضل کے لحاظ سے ان کا شمار ان ائمہ مجتہدین میں ہوتا ہے،جو ایک جداگانہ فقہی مسلک کے بانی تھے، گوائمہ اربعہؒ کے مسلک کے سامنے اس مسلک کا چراغ زیادہ دنوں تک نہ جل سکا تاہم فقہ وحدیث کی تمام کتابوں میں ائمہ اربعہ کے ساتھ سفیان ثوری کی آراء ومجتہدات کا ذکر بھی ملتا ہے (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۳)اس عہد میں جن علماء کو قرآن اوراس کی تفسیر وتاویل سے خاص شغف تھا اور جنہوں نے اس فن میں اپنی تاریخی یاد گاریں بھی چھوڑی ہیں ان میں امام موصوف بھی ہیں،ان کی یہ تفسیر ابھی حال میں چھپ گئی ہے۔ عبدالعزیز بن عبداللہ الماجشونؒ (المتوفی ۱۰۴ھ)ایسے جلیل القدر فقیہ تھے کہ بعض تذکرہ نویسوں نے ان کو اس فن میں امام مالکؒ پر بھی فوقیت دی ہے،اسی بنا پر مدینہ میں سرکاری طور پر صرف دو ہی آدمی فتوے دینے کے مجاز تھے،ابن الماجشونؒ اورامام مالکؒ، علم وفضل کے ساتھ جواہر عمل سے بھی مالا مال تھے،زہد وتقوی کے بلند مقام پر متمکن تھے،خطیب بغدادیؒ نے احکام ومسائل میں ان کے صاحب تصانیف ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۴۳۹) حماد بن زیدؒ (المتوفی ۱۷۹ھ) حصول علم کے بعد اگرچہ حالتِ بینائی سے محروم ہوگئے تھے،لیکن اس کے باوجود انہوں نے وہ مقام پیدا کیا کہ بڑے بڑے ائمہ حدیث ان سے استفادہ کو باعثِ فخر سمجھتے تھے،امام الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ میں نے حماد سے بڑا عالمِ سنت کسی کو نہیں دیکھا،ابو عاصم بیان کرتے ہیں کہ حماد بن زید کی حیات میں ان کی سیرت واخلاق کے لحاظ سے دنیا میں ان کا کوئی مثل موجود نہ تھا، (تہذیب التہذیب:۳/۱۰)یزید بن زریع ان کو سید المحدثین کہہ کر پکارتے تھے (تذکرۃ الحفاظ :۱/۲۰۷)وہ بے مثل قوتِ حافظہ کے مالک تھے،عجلی کہتے ہیں کہ حماد بن زید کو چار ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں اوران کے پاس کوئی کتاب نہ تھی،حدیث کے ساتھ فقہ میں بھی ان کاپایہ نہایت بلند تھا،عبدالرحمن بن مہدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے بصرہ میں حماد بن زید سے بڑا فقیہ کوئی نہیں دیکھا۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۰) حماد بن سلمہ (المتوفی ۱۶۷ھ) اپنے علم وفضل کے ساتھ زہد واتقا ء اورتدوینِ حدیث میں خاص امتیاز رکھتے تھے،بقول حافظ ذہبیؒ ،وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سعید بن ابی عروبہؒ کے ساتھ تصنیف وتالیف میں حصہ لیا تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۲) حدیث کے تمام مجموعوں میں حماد بن سلمہ کی روایتں موجود ہیں،خصوصیت سے ابو داؤد الطیالسی نے،جوان کے تلمیذ رشید ہیں،اپنی مسند میں کئی سو روایتیں ان کے واسطے سے نقل کی ہیں،اسی طرح یحییٰ بن خریس کے پاس ان کی دس ہزار مرویات تھیں، تبحر علم کے ساتھ زیورِ عمل سےبھی آراستہ تھے،امام عبدالرحمن مہدی فرماتے ہیں کہ حماد بن سلمہ کا یہ حال تھا کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ کل آپ کو موت آجائے گی،تو اس سے زیادہ عمل کی ان کو ضرورت نہ ہوتی (تاریخ بغداد:۱۴/۳۴۲) ان کی ساری زندگی منظم تھی کوئی لمحہ رائیگاں نہیں جانے دیتے تھے۔ مذکورہ بالا سطور میں حافظ یزید بن ہارون کے چند اساتذہ وشیوخ کے علمی وعملی علوئے مرتبت کی ایک اجمالی جھلک پیش کی گئی،ان منتخب روزگار فضلاء سے اکتساب ضوء کرکے حافظ یزید بھی چشمک زن آفتاب بن گئے تھے اورپھر خود ان کے دبستان علم سے جن اساطین دہرنے استفادے کی سعادت حاصل کی ان میں امام احمد بن حنبلؒ،اسحاق راہویہؒ، یحییٰ بن معینؒ،علی بن مدینیؒ اورآدم بن ابی ایاسؒ کے نام قابلِ ذکر ہیں اوریُعرف الشجرۃ ثمرہ کے مصداق ہیں،ان ائمہ وحفاظ حدیث میں سے ہر ایک اپنے استاذ یزیدؒ کے فضل وکمال کا شاہدِ عدل ہے۔ مذکورہ بالا تلامذہ میں امام احمد بن حنبلؒ کی شخصیت محتاجِ بیان نہیں ہے،وہ نہ صرف ایک فقہی مسلک کے بانی اورایک ضخیم مسند کے جامع تھے؛بلکہ اپنے فہم وتدبر نزاہت نفس،اخلاصِ عمل، صبر استقلال ،زہد وتقویٰ اورتواضع وانکسارکے لحاظ سے بے مثال تھے،انہوں نے فتنہ خلق قرآن میں جس استقامت اورجرأت حق گوئی کا اظہار کیا وہ ان کا قابلِ تقلید اُسوہ ہے،عجب کیا ہے کہ ان کے یہ اوصافِ عالیہ حافظ یزید بن ہارونؒ کے فیضانِ صحبت کا نتیجہ ہوں،وہ مامون الرشید کے منشاء کے علی الرغم پوری جرأت واستقامت کے ساتھ تمام عمر یہ اعلان کرتے رہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ جو شخص خلقِ قرآن کا قائل ہے وہ کافر ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۳۴۲) امام المسلمین اسحاق بن راہویہؒ (المتوفی ۲۳۸ھ) کا شمار ان اساطین امت میں ہوتا ہے جنہوں نے دینی علوم خصوصاً تفسیر وحدیث کی بے انتہا خدمات انجام دیں اوران دونوں میں تحریری یادگاریں بھی چھوڑیں قوتِ حافظہ بھی بے مثال تھی ابو داؤد خفاف (جو ان کے تلامذہ میں ہیں) کا بیان ہے کہ ایک بار ابن راہویہؒ نے گیارہ ہزار حدیثیں املا کرائیں اورپھر ان کو دوبارہ دہرایا تو ایک حرف کا بھی فرق نہیں تھا(تاریخ ابن عساکر:۲/۴۴۰)امام بخاریؒ ،مسلم،ابوداؤدؒ،ترمذیؒ،نسائیؒ اوراحمد بن حنبل جیسے جلیل المرتبت ائمہ ان سے شرف تلمذ رکھتے تھے اوران سب نے اپنی کتابوں میں ان کی روایات نقل کی ہیں۔ حافظ یزید کے تلامذہ میں یحییٰ بن معین (المتوفی ۲۳۳ھ) جیسے فن اسماء الرجال کے ماہر بھی شامل تھے ،پہلی صدی ہجری میں جب پیشہ ورواعظوں اورقصہ گویوں نے گرمی مجلس کی خاطر بکثرت بے سروپاروایتیں بیان کرنا شروع کردیں تو وہ زبان زد خاص و عام ہوگئیں،محدثین نے اپنی خداداد فہم وبصیرت سے اس فتنہ کی اہمیت کو سمجھا اورپوری جرأت وہمت کے ساتھ اس کے سدِ باب کے لیے میدان میں آگئے،اس کام کی داغ بیل توپہلی صدی ہجری کے آخر ہی میں پڑگئی تھی،مگر دوسری صدی میں محدثین نے باقاعدہ ایک نئے فن اسماء الرجال کی بنیاد ڈال کر اس فتنہ کا سدِ باب کردیا،انہوں نے اصول وقوانین مرتب کیے،رواۃ کی سیرت وکردار کا معیار مقرر کیا اورپھر اسی کے مطابق روایات کے ردوقبول کا فیصلہ کیا،یحییٰ بن معین نے اس سلسلہ میں جو غیر معمولی محنت کی اس کی تفصیل تہذیب التہذیب اور تاریخ بغداد میں دیکھی جاسکتی ہے،بقول صالح بن محمد وہ معاصرائمہ حدیث میں سب سے زیادہ رجال سے واقف تھے (تہذیب التہذیب:۱۱/۲۸۳) مراتبِ حدیث اورجرح وتعدیل میں ان کے فرطِ احتیاط اوراحساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ اس خوف سے کہ روایت میں کہیں غلطی نہ ہوگئی ہو یا کسی راوی کی تعدیل وتنقید میں حق وصواب کا دامن نہ چھوٹ گیا ہو،ان کی رات کی نیند حرام ہوجاتی تھی۔ (تاریخ بغداد:۱۱/۱۱۲) علی بن مدینیؒ بھی ابن معین کی طرح جرح وتعدیل کے امام شمار ہوتے ہیں،بقول سفیان بن عیینہ وہ حدیث کا مرجع وماویٰ تھے،امام بخاریؒ جن کو ان سے شرفِ تلمذ حاصل تھا فرماتے ہیں کہ میں نے علی بن المدینی کے علاوہ کسی کے سامنے خود کو حقیر نہیں سمجھا (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۲) ابن ماجہ اورنسائی نے ان سے بالواسطہ روایتیں کی ہیں وہ محض حدیث کے حافظ اورراوی نہیں تھے، ؛بلکہ اس کے عارف وماہر بھی تھے،سند ومتن رواۃ وروایت ،ہر چیز پر ان کی نظر تھی،خامیوں اورنقائص کا پورا علم رکھتے تھے،ابو حاتم کا قول ہے کہ علی،معرفتِ حدیث وعلل میں ایک علامت و نشان تھے۔ (ایضاً) حافظ یزید کے ایک اور ممتاز ترین شاگردآدم بن ابی ایاسؒ ہیں جو امام شعبہ کے ارشد تلامذہ میں تھے،علوم قرآن کی کامل معرفت اوراس کی مختلف قرأتوں سے بہرہ وافر رکھتے تھے،علماء کی اکثریت نے حدیث میں ان کے پایہ ثقاہت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے،جلالتِ علم کے ساتھ عمل اور تقویٰ اورصالحیت کا بھی مجسم پیکر تھے۔ عجلی کا قول ہے کان من خیار عباد اللہ (تذکرۃ الحٖاظ:۱/۲۷۵) ان کی زندگی سنت نبویﷺ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی،علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں وکان من الصالحین متمسکاً بالسنۃ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۶۷) خطیب بغدادی رقمطراز ہیں: کان احد عباد اللہ الصالحین حافظ یزید کے اساتذہ وشیوخ کے مقام بلند کی طرف اوپر جو اشارات کیے گئے ہیں اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نے ایسے یگانہ عصر اورماہرین فن سے کسب فیض کیا ہو اورجس کے حلقہ اثر میں ایسے بے نظریر اہلِ فضل وکمال شامل ہوں ،خود اس کے علوئے شان کا کیا عالم ہوگا، اس لیے ذیل میں ہم حافظ یزید بن ہارون کے حالات وکمالات کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ نام ونسب یزید نام اورابو خالد کنیت تھی،اصل وطن واسطہ(عراق) تھا بنو اسلم کے غلام ہونے کے باعث اسلمی اوروطن کی نسبت سے واسطی کہے جاتے ہیں (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۶۷ میں ہے کہ قیل اصلہ من بخاری ،ان کا خاندانی تعلق بخاری سے تھا،اس طرح خطیب نے بھی واسطی لکھ کر پھر قیل کا لفظ لکھ کر بخاری کی طرف نسبت کی ہے)پورا سلسلہ نسب یہ ہے یزید بن ہارون بن زاذان بن ثابت۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۳۳۱) ولادت اور تعلیم وتربیت اپنے وطن واسطہ میں ۱۱۸ھ میں پیدا ہوئے ،زندگی کا پیشتر حصہ وہیں گزرا، اس لیے اغلب ہےکہ ابتدائی تعلیم بھی وہیں ہوئی ہوگی،اس وقت واسط میں شعبہ بن الحجاج اورامام مالک وغیرہ کے حلقہ ہائے درس قائم تھے، امام یزید نے ان ائمہ سے اکتساب فیض کے بعد دوسرے مقامات کا سفر کیا اورہر خرمنِ علم سے خوشہ چینی کی کوشش کی۔ شیوخ وتلامذہ ان کے اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست کافی طویل ہے،مشہور اشخاص کے حالات اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ شیخ یزید کے شیوخ کی فہرست پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تقریباً تمام ہی ملکوں کے شیوخ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ واسطہ سے باہر جانے کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ،حاسدوں کی وجہ سے واسطہ میں رہ کر علم وفضل میں امتیاز پیدا کرنا نہایت مشکل تھا،اوریہ واقعہ ہے کہ یہاں رہ کر کوئی بھی علم میں امتیاز پیدا نہ کرسکا، راوی کا بیان ہے کہ میں نے دریافت کیا :کیا آپ بھی واسطہ میں رہ کر بلند پایہ عالم نہ ہوسکے،فرمایاہاں! ماعرفت حتی خرجت من اوسط (تذکرہ :۱/۲۹) میں بھی اس وقت تک معرفت حاصل نہ کرسکا جب تک واسط سے باہر نہیں آیا۔ قوتِ حافطہ گو امام یزید فقہ میں بھی بلند پایہ مقام رکھتے تھے،لیکن ان کا اصل طغرائے کمال فنِ حدیث تھا،اوربلاشبہ اس میں انہوں نے غیر معمولی درک بہم پہنچایا تھا۔ خدا وند قدوس نے انہیں ذہانت اورقوتِ حافظہ کی غیر معمولی دولت سے سرفراز کیا تھا،اس حیثیت سے وہ اپنے بہت سے ہم عصروں سے ممتاز تھے،حتیٰ کہ بعض محققین نے انہیں قوتِ حفظ میں امام وکیع پر بھی فوقیت دی ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹)خود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بیس ہزار حدیثیں اسناد کے ساتھ ازبر ہیں اوراس پر غرور نہیں۔ بالخصوص شامیوں کی روایتیں ان کو کثرت سے حفظ تھیں، کہتے تھے کہ مجھے شامیوں کی بیس ہزار حدیثیں اس طرح یاد ہیں کہ ان کے بارے میں سوال کی ضرورت نہیں تھی، امام جرح وتعدیل علی بن المدینی کا بیان ہے کہ میں نے یزید بن ہارون سے زیادہ قوی الحفظ کسی کو نہیں دیکھا (تاریخ بغداد:۱۴/۲۳۱)ایک دوسری روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں: مارأیت احداً احفظ من الصغار والکبار من یزید بن ھارون (تاریخ بغدا:۱۴/۱۶) میں نے صغار وکبار میں یزید بن ہارون سے زیادہ قوتِ حفظ رکھنے والا نہیں دیکھا۔ یحییٰ بن یحییٰ کا قول ہے کہ عراق کے حفاظِ حدیث چار ہیں،دوشخص ادھیڑ عمر کے اوردوسن رسیدہ،مؤخرالذکر تو ہشیم اوریزید بن ربیع ہیں اور ادھیڑ عمر کے وکیع بن جراح اوریزید بن ہارون ہیں،لیکن آخر میں فرماتے ہیں: واحفظ الکھلین ھارون (تاریخ بغداد:۱۴/۱۶) ان دونوں ادھیڑوں میں یزید بن ہارون زیادہ قوت حفظ رکھتے ہیں۔ عمر کے آخری حصہ میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے،اس لیے کتابوں کا مطالعہ نہیں کرسکتے تھے،جب کسی حدیث کے متعلق کچھ شبہ پیدا ہوتا تو اس کی توثیق وتصدیق کے لیے اپنی تربیت یافتہ لونڈی سے پڑھواکر اطمینان کرلیتے تھے،بعض محدثین اس بات کو ان کے ضعفِ حفظ کی دلیل قرار دیتے تھے۔ لیکن خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ متعدد ائمہ حدیث نے حضرت یزید بن ہارون کے غیر معمولی حفظ کا اعتراف کیا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ انہیں اپنی روایت کی ہوئی حدیثیں خوب یاد تھیں،البتہ بڑھاپے میں فرطِ ضعف اورنابینائی کی وجہ سے ان کو اپنے حافظے پر پورا اعتماد نہ تھا،اس لیے جب حدیث کے بارے میں تردد ہوتا تھا،تو اس کی توثیق لونڈی سے کتاب پڑھوا کر کرلیتے تھے،ان کا یہ فعل کمال احتیاط کی دلیل ہے نہ کہ ان کے ناقابل اعتماد ہونے کی۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۶۶) ان کا حافظہ بڑھاپے میں ممکن ہے کچھ کم ہوگیا ہو،مگر اس کی وجہ سے ان کے اتقان فی الحدیث میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی؛چنانچہ متعدد ائمہ حدیث نے ان کے اتقان فی الحدیث کی تعریف کی ہے، ابو زرعہؒ فرماتے ہیں: والاتقان اکثر من حفظ الرد، اتقان فی الحدیث سندوں کے یادرکھنے سے زیادہ قیمتی ہے۔ خود یزید بن ہارونؒ کو بھی اپنے حافظہ پر پورا وثوق اوراعتماد تھا،ایک مرتبہ ان سے کسی نے کہا کہ ہارون اسلمی آپ کے پاس اس لیے آرہا ہے کہ وہ چند حدیثوں کے الفاظ میں ردوبدل کرکے آپ کے حافظہ کا امتحان لے،اسی اثنا میں ہارون آموجود ہوا،یزید نے اس کی آواز سُن کر کہا "ہارون مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ میری قوتِ حفظ کا امتحان لینے کی غرض سے مجھ پر بعض مشتبہ احادیث پیش کرنا چاہتے ہیں،تو آپ اپنی جیسی کوشش کرلیجئے،خدا مجھ کو قیامت کے دن کھڑا نہ کرے،اگر میں اپنی روایت کو اچھی طرح یاد نہ رکھ سکوں۔ ایک دوسرے موقع پر شیخ یزید نے فرمایا میں بیس ہزار احادیث رکھتا ہوں جس کا جی چاہے ان میں کوئی ایک حرف کم وبیش کرکے دیکھ لے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۲) درسِ حدیث شیخ یزید کا مستقل حلقہ درس واسط میں تھا،مگر وہ کبھی کبھی بغداد میں بھی اکثر تشنگانِ علم کو سیراب کرتے تھے،خطیبؒ کا بیان ہے کہ: قدم یزید بغداد حدث بھا ثم عاد الی واسط (تاریخ بغداد:۱۴/۳۳۷) شیخ یزید بغداد آئے وہاں درس حدیث دینے کے بعد واسط چلے گئے۔ کبارائمہ حدیث ان سے کسبِ فیض کو باعثِ شرف وافتخار تصور کرتے تھے،ان کی مجلسِ درس میں طالبانِ علم کا بیحد ہجوم رہتا تھا،یہاں تک کہ کبھی کبھی طلبہ کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی تھی،یحییٰ بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ میں بغدادمیں ان کی مجلس میں شریک تھا۔ وکان یقال ان فی المجلس سبعین الفاً کہاجاتا تھا کہ ان کی مجلس میں ستر ہزار لوگ شریک تھے۔ فقہ حدیث کے ساتھ وہ فقہ میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے،ابو عبداللہ سے کسی نے دریافت کیا: یزید بن ہارون فقیہ بھی تھے؟ فرمایا ان سے زیادہ ذہین وفہیم میری نظر سے نہیں گزرا،سائل نے پھر کہا،اچھا ابن علیہ کے متعلق کیا خیال ہے؟ بولے وہ فقیہ تو ضرور تھے،لیکن مجھ کو ان کی نسبت اتنا علم نہیں جتنا کہ یزید بن ہارون کی نسبت ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۳۴۰) زہد وعبادت علم وفضل کے ساتھ زہد واتقااورعبادت وریاضت کی صفات بھی ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں،وہ نماز نہایت خشوع وخضوع سے ادا کرتے تھے اورخوفِ خدا سے ہمہ وقت لرزتے رہتے تھے،ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا،جن کی زندگی کا مقصد اورمشن ہی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر تھا۔ (ایضاً:۳۴۱) احمد بن نسان کا بیان ہے کہ میں نے کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا جو یزید بن ہارونؒ سے زیادہ بہتر طریقہ پر نماز ادا کرتا ہو،وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی ستون ہے جو بے حس وحرکت اپنی جگہ پر نصب ہے،فرصت ہوئی تو وہ مغرب و عشا اورظہر وعصر کے درمیان میں نوافل پڑھا کرتے تھے اس عہدمیں یزید بن ہارون اورہشیم دونوں طویل نماز پڑھنے میں مشہور تھے،کثرتِ نوافل اورکثرت تلاوت کے باوجود یہ خوف ان پر ہر وقت طاری رہتا تھا،کہ مبادا قرأت قرآن میں کوئی غلطی ہوجائے اورقیامت میں قابلِ مواخذہ قرار پائیں ،فرمایا کرتے کہ مجھ کو ڈر ہے کہ قرآن میں کسی غلطی کے صادر ہوجانے سے میں ان خوارج کا مصداق نہ بن جاؤں جن کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: یقرؤن القرآن لا یجاوز حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ (تاریخ بغداد:۱۴/۳۴۱) وہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترتا وہ دین سے اس طرح بے خبر ہوجاتے ہیں جس طرح تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے۔ عاصم بن علیؓ کا بیان ہے کہ میں اوریزید بن ہارون مدت تک ابن الربیع کے پاس رہے،اس اثنا میں میں نے یزید ہارون کو دیکھا کہ وہ عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور تمام رات نماز میں کھڑے ہی کھڑے گذاردیتے تھے،ایک شخص نے حضرت یزید سے پوچھا آپ شب میں کتنی دیر سوتے ہیں؟ بولے اگر میں رات میں سوتا ہوں تو خدا میری آنکھوں کو نیند سے محروم کردے۔ (تاریخ بغداد:۲/۳۴۱) خوفِ خُدا یزید بن ہارون پر خشیتِ الہی کا غلبہ اس درجہ ہوتا تھا کہ ان کی آنکھیں ہر وقت پر نم رہتی تھیں، نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی سے محروم ہوگئے کسی نے دریافت کیا،آپ کی دونوں خوبصورت آنکھیں کیسے ضائع ہوگئیں فرمایا: ذھب بھما بکاء الاسحار (تہذیب التہذیب:۱/۳۶۹) گریہ صبح گاہی نے میری دونوں آنکھیں لے لیں۔ عزت ووقار ان کے علم وفضل،زہد واتقاء اورجذبہ امر بالمعروف کا لوگوں کے دلوں پر اتنا گہرا اثر تھا کہ خلفائے وقت تک کوئی غلط اقدام کرنے سے ڈرتے تھے۔ خلق قرآن کے مسئلہ کی ابتداء تو دوسری صدی کے آغاز میں ہوچکی تھی،مگر امام احمد بن حنبلؒ کے عہد میں اس نے ایک ہمہ گیر فتنہ کی شکل اختیار کرلی تھی،معتزلہ کے اثر سے مامون بھی اس کا قائل ہوگیا تھا اورچاہتا تھا کہ اپنے اس عقیدہ کی تبلیغ واشاعت کرے ؛لیکن حضرت یزید بن ہارون کے خوف سے اس کے اظہار کی جرأت نہ کرسکا،قاضی یحییٰ بن اکثم کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مامون نے ہم سے کہا: ولا مکان یزید بن ھارون لا ظھرت القرآن مخلوق (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۲) اگر یزید بن ہارون کے مرتبہ اور اثر کا خیال نہ ہوتا جو لوگوں کی نگاہ میں ان کا ہے) تو میں قرآن کے مخلوق ہونے کا اظہار کردیتا۔ کسی درباری نے پوچھا امیر المومنین ! یہ یزید بن ہارون کون ہیں؟ جن سے آپ بھی اس قدر خوف زدہ رہتے ہیں، مامون نے جواب دیا میں ان سے اس لیے نہیں ڈرتا کہ ان کے ہاتھ میں کوئی سلطنت یا اقتدار ہے ؛بلکہ مجھے خوف یہ ہے کہ اگر میں اپنے عقیدہ کا اظہار کردو ں اور وہ میری تردید کریں تو ایک عظیم فتنہ کھڑا ہوگا اورمیں فتنہ سے ڈرتا ہوں وہ شخص بولا،اچھا میں تصدیق کرتا ہوں۔ ؛چنانچہ شخص مذکور واسطہ آیا اورایک مسجد میں جہاں حضرت یزید بن ہارونؒ تشریف رکھتے تھے، ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا،امیر المومنین آپ کو سلام عرض کرتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ میرا ارادہ ہے کہ قرآن کے کلامِ مخلوق ہونے کا اعلان کردوں، یہ سُن کریزید بن ہارونؒ بولے، تم امیر المومنین پر بہتان طرازی کرتے ہووہ لوگوں کو کسی ایسی بات پر آمادہ نہیں کرسکتے،جس کو وہ نہیں جانتے ہیں اگر تم سچے ہو تو مجلس میں دوسروں کی آمد کا انتظار کرو اور جب لوگ آجائیں تو اس بات کا اعادہ کرنا۔ راوی کا بیان ہے کہ دوسرے روز مجلس گرم ہوگئی ،تو یہ شخص پھر کھڑا ہوا اور اس نے پہلے روز والی بات دہرائی کہ امیر المومنین کلام اللہ کے مخلوق ہونے کا اظہار کرنے کے خواہشمند ہیں،یزید بن ہارونؒ نے پوری دلیری کے ساتھ جواب دیا کہ تم امیر المومنین پر تہمت باندھتے ہو ،وہ کسی ایسی بات پر لوگوں کو آمادہ نہیں کرسکتے جس کو لوگ بالکل نہ جانتے ہوں اورجس کا قائل کوئی ایک شخص بھی نہ ہو۔ اس گفتگو کے بعد اس شخص نے مامون کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا،امیر المومنین آپ جو کچھ فرماتے تھے وہ بالکل بجا اوردرست تھا،اس معاملہ میں بلاشبہ آپ کا علم بہت زیادہ تھا۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۳۴۲) یزید بن ہارون کو معلوم تھا کہ مامون الرشید کا رجحان خلق قرآن کی طرف ہے،لیکن اس کے باوجود ان کی حق گوئی کا یہ عالم تھا کہ وہ بے خوف ہوکر اعلان کرتے تھے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،جو شخص خلق قرآن کا قائل ہے وہ کافر ہے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۲۴۲) بے نفسی انسان فطرۃ خود پسند واقع ہوا ہے،لیکن ائمہ کرام کی زندگیوں کا یہ درخشاں ورق ہے کہ انہیں ہمیشہ اپنی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، وہ اپنی تعریف وتوصیف پر بجائے خوش ہونے کے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے یزید بن ہارونؒ عمر بھر اس عجز و فروتنی کا کامل نمونہ رہے۔ علی بن الجندی العراقی اس عہد میں ایک پرگوشاعر تھا، اس کو ان سے قلبی عقیدت تھی،ایک مرتبہ اس نے حاضر ہوکر آپ کی مدح میں ایک طویل قصیدہ پڑھا جس میں تشبیب کے بعد وہ کہتا ہے۔ الی یزید بن ھارون الذی کملت فیہ الفضائل اوراشفی علیٰ خنن حتی اتیت امام الناس کلھم فی العلم الفقہ والاثار والسنن والدین والزھد والاسلام قد علموا والخوف للہ فی الاسرار والعلن یراتقیاً خاشعاً ورعاً مبرا من ذوی الافات والابن ماذاک من کان طفلاً فی شبیبۃ حتی علاہ مشیت الراس والدقن شاعر نے اس قصیدہ کو نہایت دلسوزی اورمحبت کے ساتھ لکھا تھا،اس لیے طبیعت پر جبر کرکے سُن تولیا،مگر بقول راوی ان کی یہ کیفیت تھی کہ جب شاعر نے وہ اشعار پڑھے،جن میں شیخ کی مدح کی گئی تھی،تو آپ نے اس کو روک دیا اوراپنے ہاتھ دانتوں سے کاٹنے لگے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۲۴۲) امر بالمعروف ونہی عن المنکر امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا جذبہ عہد صحابہ اورتابعین میں عام تھا،یزید بن ہارون بھی اس کا مجسم نمونہ تھے،مامون جیسا باجبروت خلیفہ بھی اس بارے میں شیخ سے خوف زدہ رہتا تھا،محمد بن احمد اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ یزید بن ہارونؒ ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا۔ یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: وکان یعد من الامرین بالمعروف والناھین عن المنکر (ایضاً:۳۴۴) مرجع خلائق یزید بن ہارونؒ اپنے علمی فضائل اورعملی کمالات کے باعث عوام وخواص کے مرجع بن گئے تھے،اوپر ذکر آچکا ہے کہ ان کی مجلس میں بسا اوقات ستر ستر ہزار کا مجمع رہتا تھا۔ (التہذیب:۱۱/۳۲۹) ابوبکر بن ابی طالب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ یزید بن ہارونؒ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے،لوگ ان پر جھکے ہوئے ہرطرف سے سوالات کی بارش کررہے تھے،لیکن وہ خود خاموش تھے اور کسی کو کوئی جواب نہ دیتے تھے،جب سب خاموش ہوگئے ،تو آپ نے فرمایا ہم واسطہ کے رہنے والے ہیں اور واسطہ کے لوگ تغافل میں ضرب المثل ، ہوگئے ہیں یعنی ہم لوگ ایسی باتوں کا جواب دیکر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کیا کرتے۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۳۴۵) وفات بالآخر ۲۰۶ھ میں واسط میں علم وفضل کی یہ شمع خاموش ہوگئی،اس وقت ۸۸ برس کی عمر تھی۔ (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۵۰،وشذرات الذہب:۲/۱۶)